اشعار کی صحت!

تحریر : حیات عبداللہ


کالموں میں لکھے گئے غلط اشعار کا تعاقب کرنا اور پھر تحقیق کے بعد درست شعر تلاشنا کسی صحرا نوردی اور آبلہ پائی سے کم ہر گز نہیںہوتا۔ نوآموز قلم کاروں کو کیا دوش دیں کہ ہمارے بزرگ صحافی بھی اکثر و بیشتر اپنے کالموں میں نہ صرف غلط اشعار لکھتے ہیں بلکہ ان ہی غلط اشعار کو اپنی تحریروں میں دہراتے بھی رہتے ہیں۔ کلاسیکل شعراء کے کلام پر جس طرح ستم ڈھایا جا رہا ہے، اس سے ادب کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ کے وہ اشعار بھی غلط لکھ دیئے جاتے ہیں جو زبان زدِ عام ہیں۔

سید تابش الوری کے بقول ان دنوں اردو شاعری کا جو حشر کیا جا رہا ہے، اسے دیکھ کر سخن سنج و سخن فہم حضرات کا شیشۂ دل پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ سوشل میڈیا کے مؤثر ذریعے نے اس آگ پر پٹرول چھڑک دیا، جس سے راہ پا کر ہر متشاعر اپنی بے وزن اور بے معنی شاعری کو مشتہر کر رہا ہے۔

کچھ ضرب الامثال اشعار اتنے غلط انداز میں مشہور ہو گئے ہیں کہ متعلقہ شاعر کی کتاب سے رجوع کریں تو اصل شعر یا مصرعے کو پڑھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ ’’اہل قلم‘‘ کسی بھی شعر کا حلیہ اتنا بگاڑ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے میں ہمارے بزرگ کالم نگاروں، مصنفوں اور ادیبوں کو دوش دیا جا سکتا ہے کہ بنا کسی تحقیق کے، ہمیں غلط ملط انداز میں اشعار پڑھنے کو دیتے رہتے ہیں، کالم لکھنے کے جنون میں مبتلا بعض احباب صحیح یا غلط کے تقاضوں سے بالکل بے پروا ہو کر دھڑا دھڑ بس لکھے جا رہے ہیں۔ اسی جلدی بازی میں کسی بھی شاعر کا کہا گیا مصرعہ یا شعر کھوجنے کی بجائے جو کچھ جیسے ذہن میں آتا ہے اسی کو دوست سمجھا جا رہا ہے،مثلاً ایک کالم میں یہ شعر لکھا گیا!

ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلشن میں

ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے

کچھ لوگ وزن پورا کرنے کیلئے پہلے مصرعے میں ’’گلشن‘‘ کی جگہ ’’گلستاں‘‘ لگا دیتے ہیں، اسی طرح دوسرے مصرعے کا وزن بھی پورا کر دیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کچھ شعرا نے حالات یا اپنی ضرورت کے تحت دوسرے مصرعے پر ’’طرح مصرع‘‘ کے طور پر طبع آزمائی کی ہو، مگر وہ شعر جو استاد قمر جلالوی کی کتاب ’’رشک قمر‘‘ کے صفحہ42پر موجود ہے، اس کا پہلا مصرعہ کتابوں میں کہیں گم کردیا گیا ہے’’رشک قمر‘‘ شوکت علی اینڈ سنز پبلشرز، ایم اے جناح روڈ کراچی سے 1977ء میں شائع ہوئی۔ استاد قمر جلالوی کا کہا گیا شعر بھی پڑھ لیجئے! اور دیکھئے کہ ہمیں اس مصرعے سے دور کرکے کیسی چاشنی اور لذت سے محروم کردیا گیا۔

قفس کے ہو لیے ہم تو مگر اے اہل گلشن تم

ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

اسی طرح کا ایک اور شعر آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر کرنے لگا ہوں، اسے پڑھ کر بھی یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ لوگ اس شعر کے پہلے مصرعے کو بھی بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں۔ یہ شعر شاد لکھنوی کا ہے اور ’’ سخن بے مثال‘‘ کے صفحہ 112پر موجود ہے۔

وصالِ یار سے دُونا ہوا عشق

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

ہمارے ایک فاضل مضمون نگار نے محمد دین تاثیر کا یہ شعر اپنے مضمون میں لکھ دیا ہے، مگر اس میں معمولی سی تحریف بھی کردی ہے۔

داور محشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

آپ محمد دین تاثیر کی کتاب ’’آتش کدہ‘‘ کا صفحہ166 پڑھیں گے تو پہلے مصرعے میں ’’محشر‘‘ کی جگہ’’ حشر‘‘ ملے گا۔

داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

میر زاجواں بخت جہاں دار کا ایک شعر اکثر کالموں میں لکھا ہوتا ہے، لیکن اس میں بھی اتنی تحریف کر دی گئی ہے کہ صحیح شعر سامنے آنے پر سب کو عجیب سا لگے گا۔

آخر گِل اپنی صرف میکدہ ہوئی

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

1966ء میں شائع ہونے والے ’’ دیوان جہاں دار‘‘ مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی کے صفحہ 124پر جو شعر موجود ہے، اس کی چاشنی ہی منفرد ہے، آپ بھی مزہ لیجئے!

آخر گِل اپنی صرف در میکدہ ہوئی

پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو

ایک بزرگ کالم نگار نے اپنے کالم کا عنوان اس مصرعے کو بنا دیا ہے۔

بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے

یہ مصرع داغ دہلوی کا ہے مگر انہوں نے مصرعے کے شروع میں ’’بڑی‘‘ کی جگہ ’’ بہت‘‘ کہا ہے۔ ’’دیوان داغ‘‘ جسے فروری1961ء میں شائع کیاگیا کے صفحہ 82 پر یہ شعر موجود ہے۔

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

داغ دہلوی کی اسی غزل کا مقطع بھی ضرب المثل شعر بن چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں!

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہ دو

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

قبرستانوں میں کبھی جائیں تو بچوں کی قبروں پر اکثر یہ شعر لکھا نظر آتا ہے۔ 

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

لیکن اگر آپ ’’دیوانِ ذوق‘‘ اگر وال بک ڈپو دہلی‘‘ کا صفحہ 171 کا مطالعہ کریں گے تو ’’ذوق‘‘ کا یہ پہلا مصرع پڑھ کر نہ صرف حیران رہ جائیں گے بلکہ شعر کا لطف بھی دو چند ہو جائے گا۔

گل بھلا کچھ تو بہاریں اے صبا دِ کھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

مصطفی زیدی کے ایک ضرب المثل شعر کو ہمارے ایک مصروف کالم نگار نے غلط لکھ دیا ہے۔

انھی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آئو

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

دوسرے مصرعے میں لفظ ’’کوئی‘‘ لگا کر زیادہ نہیں تو پچاس فیصد شعر کی چاشنی ضرور کم کردی گئی ہے۔ مصطفی زیدی کی کتاب ’’شہر آذر‘‘ کے صفحہ160 پر دوسرے مصرعے میں ’’کوئی‘‘ کی بجائے ’’کہیں‘‘ ہے یعنی:

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو

مرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے

اردو ادب سے گہرا شغف رکھنے والے ایک کالم نگار نے حیدر علی آتش کا شعر غلط لکھ دیا ہے، آپ غلط شعر کی بجائے یہ درست پڑھ لیں جو ’’کلیاتِ آتش‘‘ سال اشاعت 1929ء کے صفحہ398 اور 1844ء میں شائع ہونے والے ’’ دیوانِ آتش‘‘ کے صفحہ302پر موجود ہے۔

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

اسی غزل کے یہ دو اشعار بھی بہت مشہور ہیں

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز:ناتجربہ کار کیویز نے شاہینوں کا پول کھول دیا

امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے آئی سی سی’’ٹی 20 ورلڈ کپ 2024ء‘‘ کے آغاز میں صرف 34دن باقی رہ گئے ہیں لیکن پاکستان اس عالمی ایونٹ کیلئے اپنی قومی کرکٹ ٹیم کے حتمی سکواڈ کا انتخاب ہی نہیں کرسکا ہے اور تاحال تجربات کاسلسلہ جاری ہے۔

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی