ڈاکٹر جمیل جالبی اردوادب کی کثیر الجہت شخصیت

تحریر : محمد عرفان احسن پاشا


ڈاکٹر جمیل جالبی ان بزرگان ادب میں شمار ہوتے ہیں جن کی تشہیر و تکریم ان کی زندگی میں بھی بہت زیادہ کی گئی

ڈاکٹر جمیل جالبی کا اصل نام محمد جمیل خان تھا جو بلاشبہ اردو ادب کی ایک کثیر الجہت شخصیت ہیں، 18 اپریل کو ان کی پانچویں برسی منائی جائے گی۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو ادب کی کئی ایک اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ادبیات اردو میں وہ ایک محقق، نقاد، ادبی مورخ، مترجم، لغت نویس، کلچر شناس، مدیر اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ اردو میں مختلف موضوعات پر ان کی کم و بیش پچاس سے زائد کتب منصۂ شہود پر آ چکی ہیں۔ 

ڈاکٹر جمیل جالبی12جون 1929ء کو علی گڑھ (بھارت) میں ایک معروف علمی و ادبی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ نام کے ساتھ ’’جالبی‘‘ کا لاحقہ لگانے کی وجہ ایک عزیز سید جالب دہلوی بنے، جو اپنے عہد کے صف اوّل کے صحافی تھے اور ’’ہمت‘‘ اور ’’ہمدم‘‘ کے نام سے دو اخبار بھی شائع کیا کرتے تھے۔  ڈاکٹر جمیل جالبی انہیں اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے جالب کی رعایت سے اپنے نام کے ساتھ ’’جالبی‘‘ کا لاحقہ لگا لیا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے گورنمنٹ ہائی سکول سہارن پور سے میٹرک، 1945ء میں میرٹھ کالج سے ایف اے ،1947ء میں میرٹھ کالج سے ہی بی اے، جبکہ 1949ء میں سندھ یونیورسٹی کراچی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔  بعدازاں 1950ء میں انہوں نے سندھ یونیورسٹی کراچی سے ہی ایم اے اردو اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1971ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے سندھ یونیورسٹی جام شوروحیدر آباد سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ کی زیر نگرانی’’قدیم اردو ادب کا تحقیقی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں 1973ء میں سندھ یونیورسٹی جام شورو حیدر آباد سے ’’مثنوی قدم رائو پدم رائوک کی ترتیب و تدوین‘‘ کے موضوع پر ڈی لٹ کی سند فضیلت حاصل کرنے والے وہ پہلے امیدوار بھی تھے۔1988ء میں انہیں ڈی ایس سی کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی 1950ء سے 1952ء تک بہادر یار جنگ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ تاہم بعد ازاں 1953ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے محکمہ انکم ٹیکس سے منسلک ہو گئے اور انکم ٹیکس کمشنر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد یکم ستمبر 1983ء سے 1987ء تک جامعہ کراچی کے وائس چانسلر رہے اور 17نومبر 1987ء کو مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے صدر نشین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ علمی و ادبی حوالے سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 18اپریل 2019ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور کراچی میں مدفون ہوئے۔ مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ گو کہ انہوں نے کئی ایک اعلیٰ سرکاری عہدوں پر انتظامی فرائض انجام دیئے، تاہم اس کے باوجود تن تنہا انہوں نے کئی ایک علمی و ادبی منصوبوں کو بڑی جانفشانی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے تنقید کے موضوع پر ’’تنقید اور تجربہ‘‘، ’’نئی تنقید‘‘، ’’ محمد تقی میر: ایک مطالعہ‘‘، ’’ معاصر ادب‘‘، ’’قومی زبان‘‘، یکجہتی، نفاذ اور مسائل‘‘، ’’قلندر بخش جرأت: لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر‘‘، ’’ن م راشد: ایک مطالعہ‘‘۔ ’’کلیات میرا جی‘‘ اور ’’ میرا جی: ایک مطالعہ‘‘، ادبی تحقیق و تدوین میں ’’ مثنوی قدم رائو پدم رائو، ’’دیوان شو کی‘‘، ’’دیوان نصرتی‘‘، تراجم میں ’’جانورستان‘‘،’’ایلیٹ کے مضامین‘‘، ’’ارسطو سے ایلیٹ تک ‘‘ اور ’’برصغیر میں اسلامی جدیدیت‘‘ کلچر کے موضوع پر ’’ برصغر میں اسلامی کلچر‘‘، ’’پاکستانی کلچر‘‘ اور ’’کلچر کی تشکیل کا مسئلہ‘‘ ادبی تاریخ کے حوالے سے ’’تاریخ ادب اردو ‘‘، ’’فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ‘‘، ’’قومی انگریزی لغت‘‘ اور ’’قدیم اردو کی لغت‘‘، بچوں کیلئے ’’حیرت ناک کہانیاں‘‘ اور ’’خوجی‘‘ جیسی تصانیف تخلیق کی ہیں۔

اس مختصر سوانحی و تصنیفی جائزے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی علمی و ادبی قدرو قیمت کے اعتبار سے اردو ادب کی ایک مایہ ناز ادبی شخصیت تھے۔ نصف صدی سے زائد عرصے میں اردو ادب کے منظر نامے پر جن اہل علم کو بطور محقق ، مدون، نقاد، ادبی مورخ، ماہر ثقافت، مترجم اور لغت نگار غیر معمولی حیثیت حاصل رہی، ان میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام کئی حوالوں سے دیگر ہم عصر اہل قلم کے مقابلے میں اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی گراں قدر تصانیف تشنگان علم و ادب کیلئے ہمیشہ رہنمائی اور دلچسپی کا باعث رہی ہیں اور ان کی پرمغز اور عالمانہ تحریروں سے ہر طبقۂ فکر استفادہ کر رہا ہے۔

عالمی سطح کے ساتھ ملکی سطح پر بھی ان کی زندگی میں ہی ان کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے ’’ڈاکٹر جمیل جالبی ایک مطالعہ‘‘ ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے ’’ڈاکٹر جمیل جالبی: سوانحی کتابیات‘‘، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے ’’ڈاکٹر جمیل جالبی: شخصیت اور فن‘‘ جبکہ رسائل میں سہ ماہی’’ ارمغان‘‘ اور سہ ماہی’’سفیر اردو‘‘ کے جمیل جالبی نمبر گویا ’’ جالبیات‘‘ کے مطالعے کی نئی راہیں کھولنے کا باعث بنے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر جمیل جالبی بزرگان ادب میں شمار ہوتے ہیںجن کی تشہیر و تکریم ان کی زندگی میں بھی بہت زیادہ کی گئی۔ قطع نظر دیگر جہات کے بطور محقق و مدون ڈاکٹر جمیل جالبی کا شمار عہد حاضر کے معتبر ترین محققین مدونین میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی ادب کو سماجی اور تہذیبی روح کی ایک مسلم اور بڑی اکائی سمجھتے تھے۔ انہوں نے جب تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت مولوی عبدالحق ،حافظ محمود شیرانی، مولوی محمد شفیع، مولانا امتیاز علی عرشی، مالک رام، قاضی عبدالودود، ڈاکٹر سید عبداللہ ، ڈاکٹر وحید قریشی اور مشفق خواجہ جیسے نابعۂ روزگار محققین و مدونین اپنی اپنی تحقیقی و تدوینی جولانیاں دکھانے میں کوشاں تھے۔ تاہم ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان اکابرین ادب کے مقابلے میں موضوعات کے انتخابات میں نہ صرف اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا بلکہ اپنی تحقیقی تدوینی کاوشوں کو مذکورہ اہل علم کے مقابلے میں کہیں زیادہ استناد کے ساتھ پیش کیا۔ خاص طور پر ڈاکٹر جمیل جالبی پروفیسر حافظ محمود شیرانی کے طریقہ تحقیق سے خاص طور پر متاثر تھے۔ انہوں نے لسانی تبدیلیوں کے جلو میں دکن کی تاریخ سے بھی اپنی تحقیق کے نتائج کشید کرنے میں مدد حاصل کی۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کا پہلا اہم تحقیقی کام دیوان حسن شوقی کی تدوین تھا، جو 1971ء میں منظر عام پر آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ دیوان حسن شوقی ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیقی و تدوینی مساعی کا ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ بلاشبہ حسن شوقی اپنے دور کا ایک اہم شاعر تھا لیکن اس کی شومئی قسمت ملاحظہ کیجئے کہ کسی محقق کو اس کے منتشر کلام کو سمیٹنے کا خیال نہیں آیا۔ یوں اولاً ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس فراموش کنندہ شاعر کے کلام کو مختلف مآٰخذ سے کشید کرتے ہوئے ایک جگہ جمع کردیا۔ 

ڈاکٹر جمیل جالبی نے لاتعداد مخطوطات، بیاضوں اور قدیم دوادین کے مطالعے ، موازنے اور محاکمے کے بعد حسن شوقی کے دیوان کو نہ صرف یکجا کیابلکہ اس قدیم شاعر کے کلام کے مشکل، نامانوس اور ادق الفاظ کی فرہنگ بھی ترتیب دی۔ اس تحقیقی کام کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس پر ڈاکٹر جمیل جالبی کی جانب سے لکھا ہوا مقدمہ لسانی، سوانحی اور ادبی تحققین کیلئے توجہ کا مرکز بنا۔ مزید یہ کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حسن شوقی کے کلام کے شعری محاسن اور لسانی خصوصیات کا بھی تجزیہ پیش کیا ہے۔ 

ڈاکٹر جمیل جالبی کا دوسرا تحقیقی کارنامہ ایک ’’قیمتی سرمایہ‘‘ 1972ء میں دیوان نصرتی کو مرتب کرنے کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ واضح رہے کہ دیوان نصرتی پہلے پہل سہ ماہی صحیفہ لاہور، شمارہ نمبر 61 اکتوبر 1972ء میں شائع ہوا، بعد میں اسے کتابی صورت میں لاہور سے قوسین نے شائع کیا۔ نصرتی کا اصل نام ’’ شیخ نصرت بیجاپوری‘‘ جبکہ ’’نصرتی‘‘ تخلص تھا۔ گیارہویں صدی ہجری کا ایک باکمال شاعر ہے۔ اس کے دیوان کی تدوین و اشاعت سے قبل اس کی تمام تر شہرت مثنویات کی وجہ سے تھی۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس مثنوی کو تحقیق و تدوین کے جدید اصولوں کے مطابق سات برس کے کثیر وقت میں مرتب کیا۔ ایک صفحہ پر مخطوطے کے ایک صفحے کا عکس دیا ہے اور اس کے سامنے والے صفحے پر اسی متن کو جدید رسم الخط میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ایک مفصل اور جامع مقدمہ بھی تحریر کیا ہے، جس میں مثنوی کے زمانۂ تصنیف حالات مصنف ، موضوع مثنوی، املاء اور لسانی خصوصیات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ آخر میں ایک جامع فرہنگ ہے جس میں دکنی الفاظ کے موجودہ معانی لکھے گئے ہیں اس کے آخر میں دو ضمیمے بھی ہیں۔ یہ مثنوی انہوں نے تقریباً سات سال کی محنت شاقہ کے بعد مرتب کی اور اس مثنوی میں کھڑی، پنجابی، راجستھانی، برجی ، گجری، سندھی، سرائیکی اور مرہٹی زبانوں کے الفاظ کی بھی نشاندہی کی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز:ناتجربہ کار کیویز نے شاہینوں کا پول کھول دیا

امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے آئی سی سی’’ٹی 20 ورلڈ کپ 2024ء‘‘ کے آغاز میں صرف 34دن باقی رہ گئے ہیں لیکن پاکستان اس عالمی ایونٹ کیلئے اپنی قومی کرکٹ ٹیم کے حتمی سکواڈ کا انتخاب ہی نہیں کرسکا ہے اور تاحال تجربات کاسلسلہ جاری ہے۔

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی