آزادکشمیر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی

تحریر : محمد اسلم میر


20 اپریل کو آزاد جموں وکشمیر کی اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ گزشتہ سال آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو نا اہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان نے مشترکہ طور پر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنالیا جو اُس وقت آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد چوہدری انوار الحق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آزاد کشمیر میں تعمیر وترقی، اچھی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی اور کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کی عملی کوشش کریں گے۔

اُن کی حکومت کے ایک سال کی کارکردگی کاجائزہ لیا جاے تو اسے آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر حیات خان کے دور سے بھی بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر حیات خان مرحوم کے دور(اکتوبر 1978۔فروری 1983) کو تعمیر و ترقی کا سنہری دور کہا جاتا ہے جس میں ریاست کے طول وعرض میں صحت ، تعلیم ، مواصلات اور بجلی کی سہولیات دیہی سطح تک دی پہنچائی گئیں۔وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے آزاد جموں وکشمیر میں نوجوانوں کو میرٹ پرنوکریاں دینے کیلئے پبلک سروس کمیشن تشکیل دے کر بھی ایک بڑا کام کیا ہے۔آزاد جموں وکشمیر میں محکمہ جنگلات سالانہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باجود جنگلات کو ٹمبر مافیا سے بچانے میں بھی برُی طرح ناکام تھا ۔ 1947ء میں ریاست کشمیر کے اس حصے کے 40 فیصد کے قریب رقبے پر جنگلات تھے جو اَب 15 سے 18 فیصد رہ گئے ہیں۔ماحول کو درپیش چیلنجز اور درختوں کے آئے روز کٹنے کی خبروں پر وزیر اعظم نے نوٹس لیتے ہوئے جنگلات کی کٹائی پر ایسی پابندی لگائی کہ بھمبر سے وادی نیلم تک ٹمبر مافیا کی چیخیں نکل گئیں اور گھریلو استعمال کیلئے سرکاری طور پر منظور شدہ لکڑی کو بھی کسی میں اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔اس ایک سال کے دوران وزیر اعظم آزاد کشمیر نے ہیلتھ انفراسٹرکچر میں بھی نمایاںبہتری کی اور دار الحکومت مظفر آباد کے بڑے سرکاری ہسپتال عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کیلئے اضافی 30 کنال رقبہ دیا۔ موجودہ حکومت مظفرآباد کے علاقہ امبور کو ہیلتھ سٹی بنانا چاہتی ہے ۔ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں مفت ادویات کیلئے بجٹ دوگنا کر دیا گیا ہے تاکہ بیمار اور مستحق شہریوں کو ہسپتال کے اندر مفت ادویات مل سکیں۔چوہدری انوار الحق کی حکومت نے گزشتہ 30 برسوں کے سٹیٹس کو کو ہر ممکن حد تک ختم کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں  وہ کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ آزادکشمیر سے علاقائیت، برادری ازم، کرپشن اور میرٹ کی پامالی کو ختم کر نے کے حوالے سے وہ پرُ عزم ہیں۔حکومت کی جانب سے ہر انتخابی حلقہ میں 30 جون تک ایک ارب سے زائدکے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

 اس میں دو رائے نہیں کہ گزشتہ تیس سال سے آزاد کشمیر میں کرپشن کا بازارگرم تھا اور فلاحی منصوبے کاغذوں پر ہی نظر آتے تھے لیکن موجودہ حکومت کا عزم ہے کہ سٹیٹس کو کی سیاست کو ختم کر کے عوامی خدمت کی سیاست شروع کی جائے گی۔حکومت کی  ایک سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ اس میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتی ہے ۔وزیر اعظم ایک سال سے کہہ رہے ہیں کہ عوام کے ٹیکسوں کی ایک ایک پائی کا حساب دیں گے، عوام کے پیسوں پر کسی کوعیاشی نہیں کر نے دیں گے۔موجودہ دورِ حکومت میں آزادکشمیر کے دس اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 43ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ ان منصوبوں میں  کہیں کرپشن نظر نہیں آئی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران آزادکشمیر میں ای ٹینڈرنگ سے تین ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ وزیرا عظم نے ادویات میں کرپشن اور دیگر حکومتی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف ریفرنسز بھی احتساب بیورو کو بھیج  دیے ہیں ۔آزاد جموں وکشمیر میں اعلیٰ سطح پر مالی بد عنوانی کے حوالے سے پہلی بار کسی چیف سیکریٹری اور سیکریٹری مالیات کے خلاف قومی احتساب بیورو میں ریفرنسز بھیجنے کی آوازیں آئی ہیں، اس کے بارے آزاد جموں وکشمیر کے کسی حکمران نے اس سے قبل سوچا بھی نہ تھا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران وزیر اعظم نے جہاں بچت کر کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے رقم فراہم کی وہیں انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ پہلی بار موبائل کمپنیوں نے اپنی آمدن میں سے آزاد جموں وکشمیر حکومت کو پونے آٹھ ارب روپے فراہم کئے ہیں اور وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے اس رقم سے ایک الگ فنڈ قائم کر دیا ہے جس سے غریب لوگوں ،یتیم بچوں اور بیوگان کو ان کے اکاؤنٹ میں ماہانہ ایک معقول رقم ملتی رہے گی ۔ اس کیلئے ابتدائی سروے مکمل ہو چکا ہے اور تیس ہزار سے زائد مستحق افراد کی فہرست تیار ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے گزشتہ ایک سال کے دوران احتساب بیورو اور اینٹی کرپشن کوفعال ادارہ بنا دیا ہے۔ نوجوانوں کو بلا سود قرضوں کیلئے فنڈز بھی دوگنا کر دیے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی طرح آزاد جموں وکشمیر میں بھی سابق وزرائے اعظم اور صدور کی مراعات ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے ، اس حوالے سے وزیر اعظم نے بار ہاکہا کہ پانچ سال تک صدر اور وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے افراد کو عوام کے پیسے سے پنشن اور مراعات نہیں دی جاسکتیں۔ سابق وزرائے اعظم اور صدور کیلئے یہی کافی ہے کہ اُن کے نام کے ساتھ وزیر اعظم اور صدر لکھا جاتا ہے۔ اگر سابق وزرائے اعظم اور صدور کو پنشن اور مراعات دیں گے تو آزاد جموں وکشمیر کے عام شہریوں کو بھی سرکاری خزانے سے پنشن ملنی چاہے۔سابق وزرائے اعظم اور صدور کی مراعات کے خاتمے پر آزاد کشمیر کے عوام ، سول سو سائٹی اور تاجر مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں اور اگر موجودہ حکومت ان مراعات کو ختم کر نے میں کامیاب ہو گئی تو یقینا یہ آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں تادیر یاد رکھی جائے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

اے حمید: خوشبوئوں کے اسیر

اے حمیدبرصغیر پاک و ہند کے وہ نامور ناول نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں جنھوں نے اردو کے ادبی خزانے میں اضافہ کیا۔گزشتہ روزان کی13 ویں برسی تھی اور علم و ادب کی متعدد محفلوں میں انہیں یاد کیا گیا۔

ادب میں تمثیل نگاری

فنکار حسین اشیاء کے درمیان فطری تعلق،مشابہت اور یک رنگی کا بھی احساس کر لیتا ہے اور اس کے اظہار کیلئے وہ ایک کے پردے میں دوسرے کو پیش کرتا ہے

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز:ناتجربہ کار کیویز نے شاہینوں کا پول کھول دیا

امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے آئی سی سی’’ٹی 20 ورلڈ کپ 2024ء‘‘ کے آغاز میں صرف 34دن باقی رہ گئے ہیں لیکن پاکستان اس عالمی ایونٹ کیلئے اپنی قومی کرکٹ ٹیم کے حتمی سکواڈ کا انتخاب ہی نہیں کرسکا ہے اور تاحال تجربات کاسلسلہ جاری ہے۔

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭