بلوچستان،صوبائی کابینہ کی تشکیل کب ہو گی ؟

تحریر : عرفان سعید


آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ صوبائی حکومت اور کابینہ کی تشکیل تین ہفتوں تک کردی جائے گی اور انتخابات کی وجہ سے التوا کا شکار ہونے والے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا مگر دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے میں اب تک صوبائی اسمبلی کے تعارفی اجلاس اور وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوسکا۔

جائزہ لیا جائے تو 2018 ء کے انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی آئینی مدت اگست 2023ء میں پوری ہونی تھی اور اس کے بعد نوے دن کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد کرکے نئی حکومت بنائی جانی تھی جس نے دسمبر 2023 ء میں کام شروع کرنا تھا، لیکن عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوتے گئے ، مگر انتخابات کے بعد جلد از جلد حکومت سازی اور کابینہ کی تشکیل  سے عام انتخابات کے التوا کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی کسی حد تک تلافی کی جاسکتی تھی، مگر شو مئی قسمت کہ عوام کی  فلاح و بہبود کو نظرانداز کرکے اب بھی سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی اَنا اور مفادات کی تسکین کیلئے برسر پیکار ہیں، جس کا خمیازہ  صوبے کے عوام کو بھگتنا پڑے گا۔

 وزارت اعلی پر اتفاق کے بعد دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی حکومت کی جلد تشکیل کیلئے ترتیب دیے گئے فارمولے پر متفق تھیں مگر وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ آڑے آگیا جس کی وجہ سے تاحال حکومت سازی کا معاملہ لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔اس سلسلے میں تجزیہ کا روں کا کہنا ہے کہ ماضی میں سینیٹ انتخابات کے مواقع پر پیدا ہونے والی بدمزگیوں اور غیر یقینی صورتحال کو مد نظر رکھ کر وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ  کرتے ہوئے حکومت سازی کا عمل سینیٹ انتخابات تک مؤخر کر کے درست قدم اٹھایا، جس کے نتیجے میں کافی عرصہ بعد پہلی مرتبہ سینیٹ کی تمام نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔اس طرح صوبے میں سینیٹ انتخابات کے موقع پر ووٹ بیچنے کے جو الزام لگتے رہے ہیں سرفراز بگٹی کی معاملہ فہمی نے اس مرتبہ اس داغ سے بچا لیاہے۔ تاہم مخلوط حکومت میں شامل اتحادی اور ان کے اراکین ِاسمبلی صوبے میں وزارت خزانہ،پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ،ایس اینڈ جی اے ڈی، ایری گیشن اور معدنیات جیسی وزارتوں کے متمنی ہیں۔ 

بلوچستان کابینہ میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعلی سرفراز بگٹی گزشتہ دنوں اپنے بھائی کے ہمراہ بیرون ملک گئے تھے جہاں ان کے بھائی کا آپریشن ہوا تاہم وزیراعلیٰ کی وطن واپسی پر یہ بتایا جارہا ہے کہ دو تین روز میں کابینہ حلف اٹھا لے گی اور جو فارمولا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان طے پایا ہے اسی پر عمل درآمد ہوگا، یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو 6،6وزارتیں ملیں گی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کو ایک وزارت اور ایک مشیر۔اے این پی اور جماعت اسلامی کو بھی ایک ایک مشیرکا عہدہ ملے گا۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وزارتوں کی تقسیم کے معاملے پر اتحادیوں میں اختلافات ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اراکین کو منانے میں کامیاب ہوجائے۔اس صورتحال میں یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ عوام نے ووٹ کے ذریعے جن نمائندوں کو منتخب کرکے اسمبلی بھیجا ان کے نزدیک اب اچھی اور کمزور وزارت کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ صوبائی اسمبلی کے تمام 65 اراکین کو یہ سوچنا ہوگا کہ عوام کی خدمت کا جو سلسلہ انتخابات کے التوا کی صورت میں سست پڑ گیا تھا اسے بحال ہونا چاہئے، بصورت دیگر اچھی اور کمزور وزارت کی اصطلاح انتخابات کے دوران لگنے والے بدترین بددیانتی اورپری الیکشن کرپشن کے الزامات کو دوام دے سکتی ہے جو صوبے کی ساکھ کو دھندلا دے گی۔ 

مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی جانب سے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کیلئے پارٹی کے ایک دیرینہ کارکن اور نومنتخب سینیٹر کا  انتخاب یقینا ایک اچھا فیصلہ ہے۔ سیدال خان ناصر مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان میں ہارڈ ورکر کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ قیادت کی جانب سے کلیدی عہدے پر ان کے انتخاب سے صوبے میں لیگی کارکنوں کے اندر ایک نیا جوش وجذبہ پیدا ہوا  ہے۔دوسری جانب بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد کے اجلاس کے بعد حکومت مخالف اتحاد کے نام کا اعلان کیا گیا ہے۔ عمر ایوب نے اس اجلا س کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اتحاد بننے جارہا ہے ، ہم فارم 47کی بنی حکومت کو رد کرتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ جہاں قانون کی پاسداری نہیں ہوتی وہاں خوشحالی نہیں ہوتی ہے اس لئے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کانام ’’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘‘ رکھا گیا اور محمود خان اچکزئی اس تحریک کے صدر ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جلسوں کے ساتھ ساتھ بار ایسوسی ایشنز اور یونیورسٹیز کے نوجوانوں سے بھی میٹنگز کریں گے۔ عمر ایوب نے کہا کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ،بجلی کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں ،محنت کش کیلئے گھر کا چولہا جلانا  مشکل ہوچکا ہے۔عمر ایوب نے کہا کہ آٹھ فروری کے الیکشن ایک سونامی سے کم نہیں تھے ،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ ہم میں سے کوئی ریاستی اداروں کے خلاف نہیں ، ہمارے اختلاف ان کے سیاسی رول سے ہے۔ہم میں سے کسی نے آئین کو نہیں توڑا ،ہم آئین کی حفاظت کرتے ہیں ۔ آئین کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، آئین عمرانی معاہدہ ہے اس کے تحفظ کیلئے جلسے کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نہ کسی کو گالی دیں گے نہ برا بھلا کہیں گے، سیدھی بات ہے سول سپریمیسی کی بات کریں گے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہاکہ جس تحریک کا اعلان کیا گیا اس کا آغاز بیس سال پہلے ہو تا تو ہمیں آج کے دن نہ دیکھنے پڑتے نہ فارم 47 کی نوبت آتی۔انہوں نے کہا کہ ملکی معاملات میں اداروں کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر لیاقت بلوچ کا کہنا تھاکہ عوام کو  دیوار سے لگادیا گیا ہے، ان کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جارہا ہے ، ہمیں اجلاس کے اعلامیہ سے اتفاق ہے لیکن ہم اپنی شوریٰ کے اجلاس کے بعد ہی اپنا حتمی مؤقف سامنے رکھیں گے۔ سنی تحریک کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ ہمارا بنیادی  مقصد ملک میں سول سپرمیسی قائم کرنا ہے، کب تک جمہوریت میں مداخلت ہوگی ،مینڈیٹ کو چوری کیا جائے گا، یہ ایک بڑی تحریک کے صورت میں سامنے آئے گی۔تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیر اہتمام پہلا جلسہ پشین میں اور دوسرا چمن میں۔ اگرچہ پشین کے جلسے میں شدید بارش کے باعث لوگوں کی تعداد زیادہ نہ تھی ،تاہم چمن میں کامیاب جلسے کے انعقاد کا سہرا یقینا پی کے میپ کو جاتا ہے۔اس جلسے میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے خطاب کرتے ہوئے حکومت مخالف تحریک کو  مزید وسعت دینے کا اعلان کیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

اے حمید: خوشبوئوں کے اسیر

اے حمیدبرصغیر پاک و ہند کے وہ نامور ناول نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں جنھوں نے اردو کے ادبی خزانے میں اضافہ کیا۔گزشتہ روزان کی13 ویں برسی تھی اور علم و ادب کی متعدد محفلوں میں انہیں یاد کیا گیا۔

ادب میں تمثیل نگاری

فنکار حسین اشیاء کے درمیان فطری تعلق،مشابہت اور یک رنگی کا بھی احساس کر لیتا ہے اور اس کے اظہار کیلئے وہ ایک کے پردے میں دوسرے کو پیش کرتا ہے

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز:ناتجربہ کار کیویز نے شاہینوں کا پول کھول دیا

امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے آئی سی سی’’ٹی 20 ورلڈ کپ 2024ء‘‘ کے آغاز میں صرف 34دن باقی رہ گئے ہیں لیکن پاکستان اس عالمی ایونٹ کیلئے اپنی قومی کرکٹ ٹیم کے حتمی سکواڈ کا انتخاب ہی نہیں کرسکا ہے اور تاحال تجربات کاسلسلہ جاری ہے۔

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭