خیبر پختونخوا کے دوہرے مسائل

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا اس وقت بارشوں،مہنگائی، چوری رہزنی اور بدامنی کی زد میں ہے ۔حالات ہیں کہ آئے روز بگڑتے چلے جارہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کی فی الوقت کوئی واضح پالیسی نظرنہیں آرہی۔ تمام صوبہ سوشل میڈیا موڈپر چلتا نظرآرہا ہے ۔سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر بلند وبانگ دعوے کئے جارہے ہیں لیکن زمین پر کچھ بھی نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کا خزانہ خالی ہے لیکن پنجاب کے ساتھ مقابلہ کیاجارہا ہے ۔وزیراعلیٰ کے مشیروں کا گویا یہی کام رہ گیا ہے کہ پنجاب حکومت کے خلاف بیانات دیتے رہیں۔ مشیر خزانہ کی بھی یہی صورتحال ہے ۔بجائے اس کے کہ صوبے کے بقایاجات اور دیگرحقوق کے حوالے سے کیس تیار کرتے ،اسے وفاق کے سامنے پیش کرتے اور بھرپو ر طریقے سے اپنے حق کیلئے لڑتے وہ( ن) لیگ کی مخالفت میں صرف پنجاب اورمرکزی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظرآ رہے ہیں۔ اب لوگ بھی پوچھنا شروع ہوگئے ہیںکہ انہوں نے پی ٹی آئی کو تیسری بار مینڈیٹ دیا، وہ اس صوبے کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے کیاکررہے ہیں ؟رمضان المبارک میں خیبرپختونخوا حکومت نے کوئی سستا بازار نہیں لگایا،کہاگیا کہ احساس پروگرام کے تحت مستحق خاندانوںکو دس دس ہزار روپے دیئے جائیں گے لیکن نصف رمضان تک یہ غریب حکومت کی اس سکیم سے محروم رہے، جب سکیم شروع بھی کی گئی تو اس بے ہنگم طریقے سے کہ ڈھونڈنے سے بھی چند لوگ نہ مل سکے جو اِن پیسوں سے مستفید ہوئے ہوں۔رمضان المبارک میں مہنگائی کے طوفان نے عیدالفطر پر مزید ہولناک صورت اختیار کرلی، ہر چیز آسمان سے باتیں کر رہی تھی،رہی سہی کسر حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے پوری کردی۔ اس تمام عرصے میں یوں لگ رہا ہے کہ علی امین گنڈاپور حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیااقدامات کرے اور کیسے عوام کو مطمئن کرے۔صوبائی کابینہ بھی ایسی ہے کہ ہر وزیرفوٹوسیشن میں مصروف ہے، وزیراعلیٰ کی مشیر مشال یوسفزئی کی غریب خواتین کو امدادی چیک دیتے ہوئے تصاویر اورویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس پر پی ٹی آئی کے اندر سے ہی تنقید کی گئی۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے بھی اس حوالے سے بیان جاری کیاگیا اور انہوں نے اپنے وزرا اور مشیروں کو اس بھونڈے طریقے سے غربا کی مدد کی تشہیر سے روکا ،تاہم یوں لگ رہاہے کہ اس کابینہ میں بعض لوگ وزیراعلیٰ سے بھی زیادہ طاقتور ہیں ۔

اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ علی امین گنڈاپوراپنے حکومتی ترجیحات کی سمت متعین کرے ،تگڑے وزرا اور ایماندار بیوروکریٹس پر مشتمل ٹیم بنائے جو نہ صرف صوبے کے معاشی معاملات کوحل کرنے میں ان کی مدد کرے بلکہ امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے بھی انہیں بہترین تجاویز دے۔صوبائی حکومت کو معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے معاشی پلان بھی لانا ہوگا۔ فی الوقت جو اقدامات کئے جارہے ہیں وہ بالکل مصنوعی ہیں جن کے دور رس تو چھوڑیں مستقبل قریب میں بھی کوئی فوائد نظرنہیں آرہے۔ایسے ہی اقدامات میں سے ایک عوام کو مطمئن کرنے کی خاطر صوبائی حکومت نے جو اٹھایاہے وہ روٹی سستی کرنے کا ہے ۔پنجاب حکومت نے سستی روٹی دینے کا اعلان کیا تو خیبرپختونخوا حکومت نے بھی کچھ ایسا ہی اعلان کردیا۔پنجاب میں روٹی سولہ روپے کی کی گئی تو یہاں پندرہ روپے کردی گئی ہے، لیکن روٹی کا وزن بھی کم کردیاگیا ہے ۔اس سے قبل ایک سو بیس گرام کی روٹی بیس روپے میں ملتی تھی اب روٹی کی قیمت کم پندرہ روپے کردی گئی ہے لیکن روٹی کا وزن بھی ایک سو گرام کرنے کا حکم جاری کیاگیا ہے ،یعنی ایک طرف روٹی کی قیمت کم کی گئی تو دوسری جانب اس کا وزن بھی کم کردیاگیا،تاہم نانبائیوں نے یہ حکم ماننے سے انکارکردیاہے اور تادم تحریر پشاور میں روٹی بیس روپے ہی کی فروخت ہو رہی ہے۔روٹی سستی ہوئی یا نہیں لیکن سوشل میڈیا پر اس کا شوروغوغا خوب کیاگیا۔

پی ٹی آئی کے گزشتہ دوادوار میں سرکاری اداروں میں جو اصلاحات کی گئیں وہ بھی کہیں نظرنہیں آرہیں۔صوبائی حکومت کو بانی پی ٹی آئی کے منشور کے مطابق سرکاری اداروں میںدوبارہ اصلاحات کے نفاذ کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے ۔وزرا اور  مشیروں کو فوٹو سیشن سے زیادہ اپنے کام پر توجہ دینی ہوگی ۔خیبرپختونخوا حکومت کا مؤقف ہے کہ وفاق نے صوبے کے 1500 ارب روپے ادا کرنے ہیں، اگر یہ بقایاجات ادا کردیئے جاتے ہیں تو صوبے کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہے یہی وجہ ہے کہ فی الوقت وہ صوبے کے معاشی حالات کی بہتری اور وفاق سے پیسے لانے کیلئے مختلف آپشنز پر غور کررہے ہیں۔ رمضان المبارک سے قبل انہوں نے متعلقہ حکام کو یہ معاملات وفاق کے ساتھ اٹھانے کی ہدایت کی اس حوالے سے تمام دستاویزات تیار کرنے کا حکم بھی دیااور ایک ماہ کے اندر لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اے جی این قاضی فارمولا کے تحت وفاق کے ذمے پن بجلی کے خالص منافع جات کی مدمیں1510 ارب روپے بقایاجات ہیں، یہ ایک خطیر رقم ہے اسی طرح نیشنل گرڈ سٹیشن کو بھیجے جانے والی صوبائی حکومت کی بجلی کی مد میں چھ ارب روپے وفاق نے دینے ہیں ۔سب سے زیادہ نقصان خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کا ہوا ہے جنہیں سالانہ 100 ارب روپے دیے جانے تھے لیکن دس سالہ ترقیات پروگرام کے تحت 500 ارب روپے کے بجائے اب تک صرف 103 ارب روپے دیئے گئے ہیں ۔خیبرپختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ  این ایف سی میں صوبے کا حصہ 19.64فیصد بنتا ہے لیکن صرف 14.16فیصد دیاجارہا ہے۔ صوبے کی موجودہ آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں سالانہ 262ارب روپے دیے جانے چاہئیں ۔یہ ایک طویل بحث ہے اور وفاق اور صوبے کے مابین یہ مسئلہ کافی مدت سے چلاآرہا ہے اوریہ معاملہ اب اتنا سیاسی ہوگیا ہے کہ 2018ء کے بعد جب پی ٹی آئی کی  مرکز میں اپنی حکومت تھی تو وہ بھی اسے حل کرنے میں ناکام رہی ۔چاہئے تو یہ تھا کہ مرکز میں اپنی ہی حکومت ہونے کی وجہ سے صوبے کے یہ معاملات تسلیم کئے جاتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔اس وقت کے صوبائی وزرا کا کہناتھا کہ بانی پی ٹی آئی اس حوالے سے زیادہ بات سننا پسند نہیں کرتے اور غصے میں آجاتے ہیں۔خیبرپختونخوا کو دہرے عذاب کا سامناہے، ایک طرف مالی مشکلات اور بیروزگاری ہے تو دوسری جانب امن وامان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال ہے خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ آنے والے چند ماہ انتہائی سخت ہوسکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عالمی یوم مزدور!

’’ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات‘‘ 1200 فیکٹریوں کے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مزدوروںنے خود پر ہونے والے ظلم کیخلاف آواز اٹھائی دنیا بھر میں آج بھی مزدورانتہائی نامساعد حالات کا شکار ہیں اور دن بدن مزدوروں کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے

شکاگو واقعہ کیوں اور کیسے ہوا!

احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ سے 3مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے

پاکستانی مزدور اور فکر اقبالؒ

’’ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا‘‘ وہ پاکستان کے مزدوروں کے حقوق کی بجا آوری کا خواب دیکھ رہے تھے

لیبر قوانین پر موثر عمل درآمد ضروری!

یکم مئی کو دنیا بھر میں محنت کشوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ امریکہ کے شہر شکا گو میں کارکنوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے تا کہ سماج میں محنت کش جو اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں ان کی فلاح و بہبود کی جدوجہد کامیاب ہوسکے۔ پاکستان میں بھی یہ دن جو ش و خروش سے جلسے منعقد کر کے اور جلوس نکال کرمنایا جاتا ہے، ملک و ملت کی کامیابی اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود ، عزت نفس اور ان کے حقوق پر عمل درآمد کرانے کا عہد کیا جاتا ہے ۔

اے حمید: خوشبوئوں کے اسیر

اے حمیدبرصغیر پاک و ہند کے وہ نامور ناول نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں جنھوں نے اردو کے ادبی خزانے میں اضافہ کیا۔گزشتہ روزان کی13 ویں برسی تھی اور علم و ادب کی متعدد محفلوں میں انہیں یاد کیا گیا۔

ادب میں تمثیل نگاری

فنکار حسین اشیاء کے درمیان فطری تعلق،مشابہت اور یک رنگی کا بھی احساس کر لیتا ہے اور اس کے اظہار کیلئے وہ ایک کے پردے میں دوسرے کو پیش کرتا ہے