الزامات لگاتے رہو،کام نہ کرو!

تحریر : طلحہ ہاشمی


سندھ کی سیاست بڑی عجیب ہے، یہاں ایک دوسرے پر الزامات اور پھر جوابی الزامات کا تسلسل چلتا رہتا ہے۔ اگر نہیں چلتی تو عوام کی نہیں چلتی۔ وہ چلاتے رہیں، روتے رہیں، ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی میں البتہ ایک صلاحیت دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے، اور وہ یہ کہ کم از کم عوام کو بولنے کا موقع تو دیتی ہے۔ شاید وہ اس مقولے پر عمل کرتی ہے کہ بولنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، اور عوام بھی تھک ہار کر ایک بار پھر مہنگائی اور مظالم کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرلیتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں سیاست کی۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پینتالیس ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جلسہ ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کو متنبہ کیا کہ یہ وقت لڑنے کا نہیں، ساتھ چلنے کا ہے۔ کچھ سیاستدان پی این اے پارٹ ٹو بنانے پر کمربستہ ہیں، لیکن انہیں نو ستاروں کی تحریک کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے بعد دس سال تک آمریت کو بھگتنا پڑا اور اگر آج عقل کے ناخن نہ لیے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر سے آمریت در آئے۔ ملک مشکل میں ہے، گالم گلوچ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، سب کو ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔انہوں نے میثاقِ مفاہمت کی تجویز پیش کی۔ اسی طرح صدر آصف زرداری نے بھی سیاستدانوں کو لڑائی سے گریز کی نصیحت کی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہوگئی ہے۔ لاڑکانہ سے بلامقابلہ منتخب ہونے والی آصفہ بھٹو نے رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھا لیا ہے، اب ان کی عملی سیاسی تربیت ہوگی، دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کیا پاکستان کو ایک اور بے نظیر ملنے والی ہے یا پھر موروثی سیاست کا ایک اور چہرہ ہمارے سامنے آیا ہے۔

 آج کل ملک بھر کے میڈیا کی نظریں کراچی پر ڈاکوؤں کی یلغار اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر ہے۔ صرف رمضان المبارک میں ڈکیتی مزاحمت پر 22 افراد کو قتل کیا گیا جبکہ جنوری سے اب تک 62 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔  کراچی کی کوئی گلی، سڑک یا محلہ ڈکیتوں کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ بچہ ہو یا بڑا، خواتین ہوں یا بزرگ، جس پر جب دل چاہے ڈکیت ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ ناظم آباد میں ایم کیو ایم کی بزرگ رکن شاہینہ سہیل سے بھی بیگ چھین لیا گیا۔اس دوران ڈکیت نے عمر کا لحاظ بھی نہ کیا اور اس زور سے دھکا دیا کہ خاتون منھ کے بل گر پڑیں۔ نارتھ  کراچی انڈا موڑ کے قریب ستر سالہ شہری کو گولی مار کر قتل کردیا۔ ڈکیتوں کی دیدہ دلیری کا یہ حال ہے کہ شہر کی ایک مسجد میں  بھی جاگھسے، مؤذن، خادم مسجد اور ایک شہری کو موبائل فونز اور نقدی سے محروم کردیا۔

کراچی کی صورتحال پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے ہیں، متحدہ نے گزشتہ روز نیوز کانفرنس میں کہا کہ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے، عوام کے غصے کو روکنا ہمارے بس میں نہیں رہا، سال بھر میں کراچی سے دس ارب کے موبائل لوٹ لیے جاتے ہیں۔ حکومت نے کارروائی نہ کی تو ایم کیو ایم اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔پیپلز پارٹی کہاں نچلی بیٹھنے والی تھی، ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب اور پی پی رہنما ناصر شاہ سامنے آگئے۔ ایم کیو ایم پر تعصب اور نفرت کی سیاست کا الزام عائد کر  دیا ۔بولے، یہ لوگ عوام سے مخلص نہیں، کسی خاص زبان والے پر جرائم کا الزام لگانا درست نہیں، مجرم کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ زبان۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کو تنہائی کا شکار ہے۔ادھر سندھ میں لوگوں کے اغوا کے  معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے صوبائی وزیرداخلہ ضیا لنجار کا کہنا ہے کہ قبائلی لڑائیوں کے خاتمے کے لیے سرداروں سے ملاقات کی ہے۔ لوگوں کے اغوا اور سرداروں سے ملاقات کا کیا تعلق؟ وزیرداخلہ صاحب کہیں یہ تو نہیں کہہ رہے کہ اغوا کی وارداتیں قبائلی لڑائیوں کی وجہ سے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو معاملہ بالکل صاف ہوگیا یعنی اغوا کی وارداتوں سے ڈاکوؤں کا کوئی تعلق نہیں، اصل مسئلہ قبائلی سردار ہیں ۔تو وزیرداخلہ صاحب کو چاہیے کہ اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالیں۔ 

میری رائے میں تو سیاسی رہنما ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا سلسلہ بند کردیں، عوام روز روز کی تقریروں سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے اور عوام کا حمایتی ہونے کا منجن بیچنا بند کریں، سیاستدان دکھاوے کے لڑائی بند کریں، مل بیٹھ کر کراچی سمیت سندھ کے عوام کو ڈاکوؤں سے نجات دلائیں۔ باقی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، بجلی اور پانی نہ ہونے کے ساتھ عوام نے جینا سیکھ لیا ہے۔ایک اور خبر بھی سن لیجیے، کراچی سے بذریعہ ٹرین پنجاب جانے والی انتیس سالہ خاتون کی موت معمہ بنی ہوئی ہے۔ پہلے تو خاتون پر ٹرین میں پولیس اہلکار کے تشدد کی تکلیف دہ ویڈیو سامنے آئی، پھر اہلکار اس خاتون کو ساتھ لے گیا، بعد میں پٹری کے قریب سے اُس خاتون کی لاش ملی۔ ورثا قتل کا مقدمہ درج کرانے کے لیے دربدر ہیں اور پولیس حدود کے تنازع میں الجھی ہوئی ہے۔کیا کوئی اس خاتون کو انصاف دلائے گا، کیا یہ حدود کا تنازع کبھی ختم ہوگا؟ اور کیا حکومت کوئی ایسا نظام نہیں بناسکتی کہ جرم کہیں بھی ہوا ہو، رپورٹ  درج ہوجائے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عالمی یوم مزدور!

’’ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات‘‘ 1200 فیکٹریوں کے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مزدوروںنے خود پر ہونے والے ظلم کیخلاف آواز اٹھائی دنیا بھر میں آج بھی مزدورانتہائی نامساعد حالات کا شکار ہیں اور دن بدن مزدوروں کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے

شکاگو واقعہ کیوں اور کیسے ہوا!

احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ سے 3مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے

پاکستانی مزدور اور فکر اقبالؒ

’’ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا‘‘ وہ پاکستان کے مزدوروں کے حقوق کی بجا آوری کا خواب دیکھ رہے تھے

لیبر قوانین پر موثر عمل درآمد ضروری!

یکم مئی کو دنیا بھر میں محنت کشوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ امریکہ کے شہر شکا گو میں کارکنوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے تا کہ سماج میں محنت کش جو اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں ان کی فلاح و بہبود کی جدوجہد کامیاب ہوسکے۔ پاکستان میں بھی یہ دن جو ش و خروش سے جلسے منعقد کر کے اور جلوس نکال کرمنایا جاتا ہے، ملک و ملت کی کامیابی اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود ، عزت نفس اور ان کے حقوق پر عمل درآمد کرانے کا عہد کیا جاتا ہے ۔

اے حمید: خوشبوئوں کے اسیر

اے حمیدبرصغیر پاک و ہند کے وہ نامور ناول نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں جنھوں نے اردو کے ادبی خزانے میں اضافہ کیا۔گزشتہ روزان کی13 ویں برسی تھی اور علم و ادب کی متعدد محفلوں میں انہیں یاد کیا گیا۔

ادب میں تمثیل نگاری

فنکار حسین اشیاء کے درمیان فطری تعلق،مشابہت اور یک رنگی کا بھی احساس کر لیتا ہے اور اس کے اظہار کیلئے وہ ایک کے پردے میں دوسرے کو پیش کرتا ہے