حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

تحریر : سلمان غنی


مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔

 ایک طرف اتحادی حکومت میں پیپلزپارٹی بدستور حکومت کا حصہ بننے کو تیار نہیں اور مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر حکومت میں شامل کرنے کی سنجیدہ کوشش کررہی ہے تاکہ دونوں بڑی  جماعتیں ملک کے مسائل کو مل کر حل کریں ،لیکن لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اختیارات تو لینا چاہتی ہے مگر حکومت میں ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں اور یہ بات مسلم لیگ (ن) کیلئے خوش آئند نہیں ۔ دوسری جانب ایک حکومت مخالف اتحاد بھی سامنے آگیا ہے جو’’ تحفظ آئین پاکستان‘‘ موومنٹ کو بنیاد بنا کر تشکیل دیا گیا ہے ۔ اس اتحاد کی سربراہی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کے پاس ہے جو اس وقت پی ٹی آئی کی سیاست کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں ۔ اسی بنیاد پر پی ٹی آئی نے اُن کو آصف علی زرداری کے مقابلے میں صدر کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا تھا ۔حالانکہ ماضی میں پی ٹی آئی  محمود خان اچکزئی پر تنقید کرتی رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حالات نے نہ صرف محمود خان اچکزئی کو بلکہ سردار اختر مینگل کو بھی حکومت مخالف اتحاد کا حصہ بنادیا گیا ہے ۔ ان رہنماؤں کو گلہ ہے کے مقتدرہ نے ان کے مقابلے میں بلوچستان سے ایسے لوگوں کو منتخب کیا ہے جو بلوچستان میں عوامی مینڈیٹ کا حق نہیں رکھتے بلکہ خاص قوتوں کی مدد سے سامنے آئے ہیں ۔ اس اتحاد میں جماعت اسلامی بھی کسی حد تک شمولیت کا ارادہ رکھتی ہے اور جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن حلف اٹھانے کے بعد اس معاملے میں شوریٰ کی مدد سے حتمی فیصلہ کریں گے ۔ یہ اتحاد بنیادی طور پر پی ٹی آئی کی حمایت سے بن رہا ہے او رکیونکہ پی ٹی آئی کو آزادانہ بنیادوں پر سیاست کا موقع نہیں مل رہا تو ایسے میں پی ٹی آئی دیگر جماعتوں کی مدد سے حکومت مخالف تحریک چلانا چاہتی ہے ۔ ابتدا میں جو دو بڑے جلسے بلوچستان میں ہوئے انہوں نے پی ٹی آئی کو نئی سیاسی طاقت دی ہے او روہ ان جماعتوں کی مدد سے جلسوں کا دائرہ پھیلانا چاہتی ہے ۔

اس وقت ملک میں جو حالات ہیں ، خاص طور پر جو معاشی حالات ہیں وہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ۔ ایسے میں مزید مہنگائی یا معاشی بدحالی ہوتی ہے تو لوگوں میں اس کا سخت ردعمل ہوسکتا ہے، اس لیے امکان ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ملک کی موجودہ صورتحال کو بنیاد بنا کر ایک بڑی تحریک کو بڑی شدت کے ساتھ چلاسکتی ہیں ۔ اس تحریک میں صرف حکومت مخالف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ وکلا سمیت دیگر فریقین جو حکومت مخالف مزاج رکھتے ہیں، شامل ہو سکتے ہیں ۔اگر پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو اگلے ایک سے دو ماہ میں ریلیف ملتا ہے اور وہ باہر آجاتے ہیں اور ایسے میں جب آئی ایم ایف سے کوئی بھی نیا معاہدہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں معاشی انتشار سے حکومت مخالف جماعتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں ۔اس لیے حکومت مخالف تحریک کو ناکام بنانا ہے تو حکومت کے پاس سوائے ایک آپشن یعنی حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے، کچھ بھی نہیں ۔حکومت کی جانب سے لوگوں کو معاشی بنیادوں پر ریلیف ملتا ہے تو لوگ کسی بھی ا حتجا جی تحریک کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں ہوں گے ،لیکن   اگرحالات میں بہتری پیدا نہیں ہوتی تو ملک میں جو بڑا سیاسی انتشار پیدا ہوگا اس کا فائدہ حکومت مخالف قوتوں کو ضرور ہو  سکتا ہے ۔اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسے اپوزیشن کی کسی بھی تحریک سے کوئی خوف نہیں لیکن حکومت کو اس کا ضرور اندازہ کرنا چاہیے کہ اگر لوگوں کو معاشی ریلیف نہیں ملے گا تو ان کاحکومت کے بارے میں سخت ردعمل بھی سامنے آئے گا اور اس کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اسی بنیاد پر مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف بھی عملًا موجودہ سیاسی حالات سے کافی نالاں ہیں اور پریشان بھی۔ ان کو اندازہ ہے کہ حکومتی سطح پر عام آدمی کو فوری طور پر کوئی بڑا معاشی ریلیف نہیں دیا جاسکتا ۔پچھلے  دنوں راقم اور چند دیگر سنیئرصحافیوں ، مجیب الرحمن شامی اور حفیظ اللہ نیازی نے لاہور میں نواز شریف سے ایک خصوصی ملاقات کی ۔اس ملاقات میں یہ واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ موجودہ حالات میں نواز شریف ملک کے حالات پر کافی غمگین ہیں ۔ اُن کے بقول جو ملک کے حالات ہیں ان کے حل میں سبھی قوتوں کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا ۔نواز شریف، ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں ایک نئے سیاسی بیانیہ کی تلاش میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ملکی سطح پر اقتدار سے باہر بیٹھ کر کوئی بڑا کردار ادا کریں۔ ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوا کہ وفاق او رپنجاب میں اُن کی جماعت کو حکومت ملنے کے باوجود وہ حمایت اور اختیارات حاصل نہیں جو اس کو ملنے چاہئیں تھے ۔ نواز شریف کا خیال ہے کہ ایک ایسے موقع پر ملک ان کے حوالے کیا گیا جب تمام حالات خراب ہیں اور خرابی کی درستی کے لیے عدم اختیارات کی پالیسی کی وجہ سے شائد حکومت بھی وہ کچھ نہ کرسکے جو وہ کرنا چاہتی ہے ۔نواز شریف ایک سیاسی پوزیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف ان کے سامنے وفاق اور دوسری طرف پنجاب میں ا ن کی حکومت ہے ۔ ایسے میں اقتدار کی سیاست کی موجودگی میں کیاوہ کوئی بڑا سیاسی  کردار ادا کرسکیں گے؟

جماعت اسلامی کے نئے امیر کا انتخاب ہوگیا ہے اور حافظ نعیم الرحمن کو نیا امیر جماعت اسلامی منتخب کرلیا گیا ہے۔ وہ آج 18اپریل کو حلف لینے والے ہیں ۔ حافظ نعیم الرحمن ایک ایسے موقع پرامیر جماعت بنے ہیں جب ملک کے سیاسی حالات میں بہتری کم اور انتشار زیادہ ہے ۔ ایک طرف جماعت اسلامی نے یہ طے کرنا ہے کہ وہ خود کو حکومت مخالف اتحاد کا حصہ بناتی ہے یا تن تنہا حکومت مخالف تحریک کو وہ خود ہی چلائے گی ۔امیر جماعت اسلامی پر ایک طرف موجودہ سیاسی حالات کا دباؤ ہے تو دوسری طرف بطور امیر جماعت انہوں نے اپنی جماعت کی مستقبل کی سیاست کا تعین بھی کرنا ہے کہ اس کی سمت کیا ہو  گی ۔حافظ نعیم الرحمن نے بطور امیر جماعت اپنی جس سیاسی ٹیم کا انتخاب کرنا ہے وہ بھی کافی اہمیت کی حامل ہوگی،اسی سے اندازہ ہوسکے گا کہ مستقبل میں جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی اور وہ کس حد تک موجودہ سیاسی بحران کے حل میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکے گی۔جہاں تک نئے حکومت مخالف اتحاد میں جماعت اسلامی کی شمولیت کی بات ہے تواس کا تعین ہونا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اس اتحاد میں جماعت اسلامی شریک ہوگی اور کیا نئے امیر کا جھکاؤ پی ٹی آئی یا حکومت مخالف تحریک کی طرف ہو گا یا اس نے اپنی انفرادی حیثیت کی بنیاد پر تحریک چلانی ہے؟

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عالمی یوم مزدور!

’’ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات‘‘ 1200 فیکٹریوں کے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مزدوروںنے خود پر ہونے والے ظلم کیخلاف آواز اٹھائی دنیا بھر میں آج بھی مزدورانتہائی نامساعد حالات کا شکار ہیں اور دن بدن مزدوروں کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے

شکاگو واقعہ کیوں اور کیسے ہوا!

احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ سے 3مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے

پاکستانی مزدور اور فکر اقبالؒ

’’ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا‘‘ وہ پاکستان کے مزدوروں کے حقوق کی بجا آوری کا خواب دیکھ رہے تھے

لیبر قوانین پر موثر عمل درآمد ضروری!

یکم مئی کو دنیا بھر میں محنت کشوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ امریکہ کے شہر شکا گو میں کارکنوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے تا کہ سماج میں محنت کش جو اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں ان کی فلاح و بہبود کی جدوجہد کامیاب ہوسکے۔ پاکستان میں بھی یہ دن جو ش و خروش سے جلسے منعقد کر کے اور جلوس نکال کرمنایا جاتا ہے، ملک و ملت کی کامیابی اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود ، عزت نفس اور ان کے حقوق پر عمل درآمد کرانے کا عہد کیا جاتا ہے ۔

اے حمید: خوشبوئوں کے اسیر

اے حمیدبرصغیر پاک و ہند کے وہ نامور ناول نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں جنھوں نے اردو کے ادبی خزانے میں اضافہ کیا۔گزشتہ روزان کی13 ویں برسی تھی اور علم و ادب کی متعدد محفلوں میں انہیں یاد کیا گیا۔

ادب میں تمثیل نگاری

فنکار حسین اشیاء کے درمیان فطری تعلق،مشابہت اور یک رنگی کا بھی احساس کر لیتا ہے اور اس کے اظہار کیلئے وہ ایک کے پردے میں دوسرے کو پیش کرتا ہے