حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

تحریر : عدیل وڑائچ


الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

مزید سخت شرائط والے اس پروگرام کیلئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور حکومت کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہونے کو ہیں ۔ اقتصادی ماہرین ہوں یا خود حکومت، سبھی مان رہے کہ یہ پروگرام عوامی مشکلات میں اضافہ کرے گا ۔ ایک طرف پٹرولیم لیوی میں اضافے پر اضافہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں ۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست اثر بجلی کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔اس سے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ مزید بڑھے گی اور عوام پر اربوں روپے کا بوجھ ہر ماہ بڑھتا چلا جائے گا ۔ رہی سہی کسر گیس کی قیمتوں میں اضافہ نکال رہا ہے ۔ عام آدمی کی سکت جواب دے چکی ہے، ایسے میں ریلیف کے بجائے ٹیکسز اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا تو عوامی مشکلات تو بڑھیں گی ہی ساکھ اور مقبولیت کھونے کے بعد حکومتی مشکلات بھی مزید بڑھ جائیں گی ۔ اس کا ادراک حکومتی حلقوں کو بھی ہے اور اس حوالے سے پہلی مثبت کوشش بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کر کے بلوں کا بوجھ گھٹانے کی منصوبہ بندی کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے ۔ دو،تین ماہ سے ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ میں کمی بھی اس کاوش کا ثبوت ہے، تاہم عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو حکومت اس حوالے سے دوبارہ مشکلات سے دوچار ہو سکتی ہے ۔ ایسے میں بجلی کی پیداوار کو  سستے ذرائع جیسا کہ ہائیڈل اور کول پر منتقل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ معیشت کو مستقل بنیادوں پر سنبھالا دینے ،صنعت و تجارت کے استحکام اور عوامی ریلیف کیلئے بجلی کی پیداواری کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظر ثانی بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان معاہدوں میں کیپسٹی چارجز اور مینٹی ننس چارجز سمیت تمام تر اخراجات بلوں میں وصول کرنے جیسی شقیں، حکومتی خزانہ ہو یا عوام کی جیبیں، سبھی کا تیزی سے صفایا کر رہی ہیں ۔ اس حوالے سے ٹھوس پالیسی مرتب کرنے اور معاہدوں میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ گیس سیکٹر میں ہونے والے اللے تللوں پر بھی قابو پانا ہو گا۔ وزیر اعظم خود کہہ چکے ہیں کہ ٹیکسز کا بوجھ اب عام آدمی کے بجائے مراعات یافتہ طبقے پر ڈالنا ہو گا ۔ بلاشبہ یہ انتہائی درست اور حقیقی اپروچ ہے ،لیکن ماضی میں بھی ایسے بیان تو بہت سنے مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جب کبھی بجٹ آئے سارا بوجھ عام طبقے پر ہی پڑتا ہے ، جو پہلے ہی اشیائے خور و نوش اور تمام اشیائے ضروریہ پر ٹیکس در ٹیکس دے رہا ہے ۔   ضروری ہے کہ حکومت نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جاتے ہوئے عوامی مشکلات کو فراموش نہ کرے اور آئندہ کی پالیسیوں میں ٹیکسز مراعات یافتہ اور امیر طبقہ پر لاگو کرے۔ 

معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ حکومت کیلئے آغاز ہی میں سیاسی افق پر بھی کچھ چیلنجز ابھرنے لگے ہیں ۔ قرائن بتا رہے کہ مسلم لیگ (ن) کو صدر اور چیئرمین سینیٹ کے عہدوں کی صورت میں اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے مطالبے ماننے کے بعد بھی قربانیاں دیتے رہنا ہو گا کیونکہ حکومت کیلئے ناگزیر بن جانے والی پیپلز پارٹی کو ایک طرح سے دو دھاری تلوار مل چکی اورایوانِ صدر میں  مقیم پارٹی کے زیرک سرخیل اس کا استعمال بھی خوب جانتے ہیں ۔ ابھی تو خوش قسمتی کہ پیپلز پارٹی وزارتیں لینے کو تیار نہیں، بات وزارتوں تک پہنچی تو وزیر اعظم کو اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کا دباؤ  بھی پریشان کر سکتا تھا۔ اتحادیوں کو خوش رکھنے کے علاوہ شہباز حکومت کو اب پاکستان تحریک انصاف ،سنی تحریک ، ایم ڈبلیو ایم ، جماعت اسلامی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے اکٹھ سے بننے والے چھ جماعتی اپوزیشن الائنس کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کا چیلنج بھی درپیش ہے ۔ پشین اور چمن کے جلسوں سے لگ رہا کہ اپوزیشن الائنس نے حکومت کو شروع ہی سے ٹف ٹائم دینے کی تیاری کر لی ہے ۔ ایسے میں اگر حکومت پی ڈی ایم دور کی ڈگر پر چلتے ہوئے اپنی مقبولیت کھو دیتی ہے تو اپوزیشن کی عوامی حمایت میں اضافے کے امکانات بڑھ جائیں گے ، جو مسلم لیگ (ن) اور شہباز حکومت کیلئے کسی طور سود مند نہیں ۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کیلئے اچھی خبر اور مسلم لیگ (ن) کیلئے خطرے کی گھنٹی یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چار امیدواروں جن کی جگہ قبل ازیں (ن) لیگ کے امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا تھا ،کی اسمبلی رکنیت عدالتی فیصلوں کے بعد بحال ہو گئی ہے ۔ان میں این اے 81سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ بلال اعجاز ، این اے 146 خانیوال سے ظہور حسین قریشی ،این اے 154 سے رانا فراز نون اور پی پی 133سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ محمد عاطف شامل ہیں ۔ 

شہباز حکومت کیلئے مشکل یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف حکومت کی اونر شپ لینے کو تیار نہیں ۔ گزشتہ دنوں وہ مہنگائی ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے پر شہباز حکومت کو تنبیہ کرتے نظر آئے ۔ ان کی جانب سے یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ حکومتی فیصلوں میں شریک نہیں ۔ان کی اس حکمت عملی کو مشکل حالات اور مشکل فیصلوں میں پھنسی حکومت کی غیر مقبولیت کی صورت میں پارٹی بچانے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن (ن) لیگ کی ساکھ بچانے کی یہ حکمت عملی شہباز حکومت کیلئے اپنی کارکردگی منوانے کے حوالے سے مزید چیلنجنگ بن گئی ہے ۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے 29اپریل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے نام عدلیہ میں مداخلت کے حوالے سے لکھے گئے خط نے اقتدار کی غلام گردشوں میں مزید ہلچل مچا دی ہے ۔ سپریم کورٹ معاملے پر سوو موٹو لے چکی ، سات رکنی لارجز بنچ بھی بن چکا ، چیف جسٹس آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دینے کا عندیہ بھی دے چکے لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کے کئی تشنہ معاملات کی طرح یہ معاملہ بھی ادھورا رہ جائے گا یا عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے تحفظات کا کوئی حل نکل پائے گا ؟ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔