شوال کی فضیلت

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

شوّال قمری سال کے دسویں مہینے کا نام ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ربانی ہے: ’’سو پھر لو اس ملک میں چار مہینے‘‘۔ اْردو دائر ہ معارف اسلامیہ (جلد 11، صفحہ 518) کے مطابق مفسرین کے نزدیک ان 4 مہینوں میں شوّال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم کے مہینے شامل ہیں۔ چنانچہ شوّال ان مہینوں میں ہے جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے۔ 

ان چار مہینوں میں عرب اپنے ملک میں بغیر کسی قسم کے حملے بلا خوف چل پھر سکتے تھے۔ اس کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر 5 میں آیا ہے۔ شوّال کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مسرت و انبساط کا مژدہ سناتا ہے۔ خالق حقیقی ایک سخی دریا بن کر صحرا صحرا عصیاں کو سیراب کردیتا ہے۔ گناہوں کے صحرائوں میں جب گردباد کی سیٹیاں بجتی ہیں اور جب عصیاں کے وسیع و عریض صحرا کے باسی جھلستے ہیں تو تھکے ہارے ہانپتے گناہ گاروں اور خطا کاروں کے احساس ندامت کو دیکھ کر خالق حقیقی کی بے کراں شفقت جوش مارتی ہے۔ پیاس کے صحرا میں پھر انہیں یزداں زمزم پلاتا ہے۔ بقول سید ضمیر جعفری!

وقت کے ماتھے پہ جس کی روشنی لکھی گئی

وہ رُخ زیبا ہے ترا وہ ید بیضا تو ہی

کس نے تھاما رات کے ڈوبے ہوئے سورج کا ہاتھ

روشنی کو صبح کی چوکھٹ پہ لے آیا تو ہی

کون ہے تیرے سوا، دکھیا دلوں کا داد رس

خلق کا مولا تو ہی ملجا تو ہی ماوا توہی

مولانا محمد جونا گڑھی و مولانا صلاح الدین یوسف، قرآن حکیم مع ترجمہ و تفسیر، مطبوعہ شاہ فہد قرآن حکیم پرنٹنگ کمپلیکس، مدینہ منورہ، مطبوعہ 1419 ہجری کے صفحہ نمبر 506 پر تحریر فرماتے ہیں کہ چار مہینے ایسے ہیں جو حرمت والے ہیں: (1) رجب، (2) ذوالقعدہ، (3) ذوالحجہ اور (4) محرم۔شوال قمری سال کے دسویں مہینے کا نام ہے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ربانی ہے: ’’پس (اے مشرکو!) تم ملک میں4 مہینے تک چل پھر لو‘‘۔یہاں 9ہجری کا ذکر ہے جس میں 4 مہینوں کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ عرب اپنے ملک کے اندر بغیر کسی قسم کے حملے کے خوف کے چل پھر سکتے تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک شوّال بھی حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ حدیث کے مطابق شوال حج کے مہینوں میں سے ہے۔ (البخاری، کتاب الحج، باب 33، 37)۔

اسلام سے پہلے عرب شوّال کے مہینے کو شادیوں کیلئے موزوں نہیں سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ خیال غلط ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓسے شوّال میں ہی شادی کی تھی۔ (الترمذی، کتاب النکاح، باب 10) ۔اس مہینے کی اسلام میں بڑی فضیلت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور ان کے ساتھ 6 روزے شوّال کے بھی رکھے، وہ گویا صائم الدھر (یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والا) ہے (مسلم، کتاب صیام، حدیث :203)۔

اردو دائرہ معارف اسلامیہ (جلد 11) کا  انگریز مقالہ نگار A.J. WENSINCK صفحہ نمبر 816 پر رقمطراز ہے: ’’ان چھوٹے دنوں کو ’’چھوٹے تہوار‘‘ (العید الاصغر) میں شامل ہونے کی مقدس حیثیت حاصل ہے۔ شوال المکرم ہے۔ یعنی شوّال کا مہینہ قابل احترام ہے۔‘‘ سرخیل علماء و عارفین حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’غنیۃ الطالبین‘ میں اس مہینے کی بڑی فضیلت تحریر فرمائی ہے۔ حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا کہ ’’جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے بعد ماہ شوّال میں چھ نفلی روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا‘‘ (بحوالہ صحیح مسلم)۔ 

رسالہ فضائل الشہود میں لکھا ہے کہ ماہ شوّال میں نوافل پڑھنے کا بھی بہت ثواب ہے۔ نوافل کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد زیادہ سورہ اخلاص اور سلام پھیرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بے حساب ثواب ہے۔ اگر رمضان المبارک کے کوئی روزے خدانخواستہ رہ جائیں تو یہ روزے قضا ادا کرنے کے بعد ہی شوال کے چھ مسنون روزے رکھے جائیں۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ شوّال کی پہلی رات فرشتے نازل ہوکر آواز دیتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ کے بندو! تمہیں خوشخبری ہوکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس لیے بخش دیا کہ تم نے رمضان کے روزے رکھے۔

جب رمضان ختم ہوتا اور یکم شوال ہوتا تو روز عید نبی اکرم ﷺ غسل فرماتے اور صاف اور اجلا لباس زیب تن فرماتے۔ عیدگاہ روانگی سے قبل چند کھجوریں تناوّل فرماتے، جن کی تعداد طاق ہوتی۔ آپﷺ عیدگاہ تک پیدل تشریف لے جاتے۔ عیدگاہ جس راستے سے تشریف لے جاتے واپسی پر راستہ تبدیل فرماتے۔ عیدوں پر کثرت سے تکبیروں کا حکم فرماتے۔ راستے میں چلتے وقت آہستہ تکبیر فرماتے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔