چمگاڈر کی کہانی

تحریر : سائرہ جبیں


یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

ایک شیر اپنے غار کے باہر شکار کئے ہوئے جانور کے گوشت کا ٹکڑا لئے بیٹھا تھا اور کھانے ہی والا تھا کہ اچانک ایک باز نے جھپٹا مارا اور پورا گوشت پنجوں میں دبا کر اڑ گیا۔ باز کی اس حرکت پر شیر آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے عہد کر لیا کہ وہ جنگل کے سارے پرندوں کو کھا جائے گا۔ 

شیر نے اپنے درباری جانوروں کو بلا کر کہا ’’سنو! آج سے ہم پرندوں کے خلاف جنگ کرینگے، میں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ اس جنگل کے تمام پرندوں کا شکار کر لو، میں اس جنگل میں ایک بھی پرندہ زندہ دیکھنا نہیں چاہتا، میں خود شکار کروں گا اور تم بھی اس مہم پر نکل جاؤ‘‘

 شیر کے ساتھی تو پہلے ہی ان پرندوں سے پریشان تھے کیونکہ وہ ان کا مارا ہوا شکار لے اڑتے تھے۔ چنانچہ یہ جنگ فوراً شروع ہوگئی۔ رات کو پرندے جب اپنے گھونسلوں میں سو رہے ہوتے تو جنگلی جانور ان کو کھا جاتے۔ اکثر پرندوں کو رات کو نظر نہیں آتا اس لئے وہ آسانی سے قابو میں آجاتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پرندے کے گھونسلے کا ایک دروازہ ہوتا ہے۔ جب جانور دروازے پر آجاتا تو پرندے کو نکلنے کا موقع نہ ملتا اور جنگلی جانور پرندے اور اس کے معصوم بچوں کا شکار کر لیتا۔

 اُلّو ایسا پرندہ ہے جسے رات کو صاف نظر آتا ہے۔ الّو نے جب دیکھا کہ رات کو جنگل کے جانور پرندوں کو ختم کر رہے ہیں تو اسے ان پر بڑا ترس آیا۔ الّو نے پرندوں کو جمع کیا اور انہیں بتایا کہ ’’بھائی! میں رات بھر جاگتا ہوں اور دور دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ میں چند روز سے دیکھ رہا ہوں کہ جنگل کے جانور شیر کے کہنے پر تمہارا شکار کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک چھوٹی سی بات تھی کہ ایک باز شیر کے سامنے سے گوشت کا ٹکڑا لے اڑا تھا، باز تو پہاڑ پر رہتا ہے اور ہم چرند پرند ہمیشہ سے جنگل میں رہ رہے ہیں، ہمیں مل جل کر رہنا چاہئے۔ بہرحال جب تک حالات معمول پر نہیں آجاتے میں تمہاری مدد کروں گا۔ جب کوئی جانور کسی پرندے کے گھونسلے کی طرف بڑھے گا تو میں آواز لگاتا ہوا اس کے گھونسلے کے قریب سے گزر جاؤں گا تم لوگ ہوشیار ہوجانا اور کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو جانا‘‘۔ الّو کی مدد کے بعد پرندے حملوں سے کافی حد تک محفوظ ہوگئے۔

 ایک چمگادڑ جو پرندوں کے شکار ہو نے کی وجہ سے بہت پریشان تھی۔ وہ ایک روز شیر کے دربار میں گئی اور کہا ’’جناب بادشاہ سلامت! آپ جانتے ہیں کہ میں چوہوں کی نسل سے ہوں اور میرا پرندوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ میری التجا ہے کہ آپ مجھے جانوروں کے غول میں شامل کرلیں، میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ پرندوں کا شکار کیا کروں گی‘‘۔ شیر نے جب چمگادڑ کی یہ بات سنی تو اسے اپنے شکاری جانوروں میں شامل کر لیا۔ اب یہ چمگادڑ بھی یوں ہی جھوٹ موٹ شکاری جانوروں کے ساتھ پرندوں کا شکار کرنے میں شریک ہوگئی۔

 ایک دن صبح سویرے جب یہ جانور رات کو پرندوں کا شکار کرکے تھکے ہارے ہری ہری گھاس پر بے خبر سو رہے تھے تو جنگل کے تمام پرندوں نے اپنی اپنی چونچوں اور پنجوں میں اپنی جسامت کے مطابق کنکریاں اور پتھر دبائے اور اکٹھے ہوکر سوئے ہوئے جانوروں پر کنکریوں اور پتھروں کی بارش کر دی۔ تمام جانور ان کنکریوں اور پتھروں کی بارش سے زخمی ہوکر گھبرا گئے اور ادھر اْدھر بھاگنے لگے۔ پرندوں نے اپنی چونچوں اور پنجوں سے انہیں زخمی کرنا شروع کر دیا تو جانور اور بھی تیزی سے بھاگنے لگے۔

 جب چالاک چمگادڑ نے یہ منظر دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ جانور شکست کھا کر بھاگ نکلے ہیں۔ وہ فوراً پرندوں کے بادشاہ باز کے پاس گئی اور کہا ’’اے پرندوں کے شہنشاہ تم تو جانتے ہی ہو کہ میں بھی پرندوں کی نسل سے ہوں اس لئے تم مجھے اپنے گروہ میں شامل کر لو تاکہ میں ان ظالموں کے خلاف پرندوں کے ساتھ مل کر جنگ کروں‘‘۔

 باز کو اس دھوکہ باز چمگادڑ کی بات اچھی لگی چنانچہ اس نے اُسے اپنے گروہ میں شامل کر لیا۔ جنگ اور تیز ہوگئی۔ بندروں نے ہاتھیوں اور گینڈوں پر سوار ہوکر پرندوں پر حملہ کر دیا۔ پرندوں نے اس حملہ سے پناہ لینے کیلئے جنگل کا رخ کیا۔ اب چمگادڑ کا معمول بن گیا کہ جس کی بھی فتح ہوتی وہ اس گروہ میں شامل ہوجاتی۔ اس طرح یہ جنگ جاری رہی۔

 ایک دن الّو نے باز سے کہا ’’اے باز آخر ہم اس لڑائی کو ختم کیوں نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور امن کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟‘‘

 باز نے کہا ’’یہ لڑائی ہم نے نہیں، شیر نے شروع کی ہے اور وہ ہی اسے ختم کرے گا‘‘۔

 الّو نے کہا ’’اگر میں شیر سے بات کروں اور وہ دوستی پر رضا مند ہوجائے تو کیا آپ اس لڑائی کو ختم کر دیں گے‘‘۔ باز جو پہلے ہی جنگ کرتے کرتے تھک چکا تھا اس نے کہا ’’ہاں!‘‘

 الّو شیر کے پاس گیا اور کہا ’’اے جنگل کے بادشاہ! کیا ہم آپس میں محبت اور امن کے ساتھ اس جنگل میں نہیں رہ سکتے؟ کیا یہ جنگ ختم نہیں ہوسکتی؟‘‘

 ’’ہاں! یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے اور ہم تمام جانور آپس میں دوبارہ محبت اور امن سے رہ سکتے ہیں اگر پرندے اس بات کا عہد کریں کہ وہ آئندہ کبھی ہمارا مارا ہوا شکار نہیں لے اڑیں گے‘‘۔ پرندوں نے وعدہ کیا کہ وہ پھر کبھی ان کے شکار پر جھپٹا نہیں ماریں گے۔ جب صلح ہوگئی تو چمگادڑ پھر نکل آئی، اس نے کہا ’’میں بھی اس صلح میں شریک ہوں‘‘۔ 

باز اور شیر نے کہا تم ایک بزدل چمگادڑ ہو، تم نے ہمیشہ جیتنے والے گروہ کا ساتھ دیا ہے اب ہم تم کو اپنے اپنے گروہوں سے نکالتے ہیں‘‘ چمگادڑ اپنی چالاکی پر اتنی شرمندہ ہوئی کہ وہ جنگل کے جانوروں سے منہ چھپاتی پھرتی۔ 

بچو! ہمیشہ محبت اور امن سے رہنا چاہئے۔ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہئے کیونکہ چالاک لوگ ہمیشہ شرمندہ ہوتے ہیں۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔