کثرت دعا کا حکم!

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر سے، غم سے، کم ہمتی سے، کاہلی و بزدلی سے، کنجوسی سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے دباؤ سے‘‘(بخاری و مسلم) اللہ کی پناہ مانگو بلاؤں کی سختی سے ، بدبختی کے لاحق ہونے سے، بری تقدیر سے اور دشمنوں کی ہنسی سے(متفق علیہ)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس طرح دعا فرمایا کرتے ’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر سے، غم سے، کم ہمتی سے، کاہلی اور بزدلی سے، اور کنجوسی سے اور قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے دباؤ سے۔(بخاری و مسلم)

اس دعا میں جن آٹھ چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے، ان میں سے چار ایسی چیزیں ہیں جو حساس اور صاحب شعور آدمی کیلئے زندگی میں بے سکونی اور سخت اذیت کا باعث ہوتی ہیں۔وہ  اس کے کام کرنے کی قوت اور صلاحیتوں کو معطل کرکے رکھ دیتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ دنیا و آخرت کی بہت سی کامیابیوں اور سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ وہ چیزیں ہیں فکر وغم، قرضہ کا بوجھ اور مخالفین کا غلبہ۔ باقی چار ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے آدمی وہ جرات مندانہ اقدامات اور محنت وقربانی والے اعمال نہیں کرسکتا جس کے بغیر نہ دنیا میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ آخرت میں فوزو فلاح اور اللہ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ بھی دعا فرماتے تھے ’’ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی اور کاہلی سے، اور انتہائی بڑھاپے سے، قرضہ کے بوجھ سے اور ہرگناہ سے، اے اللہ میں تیری پناہ لیتا ہوں دوزخ کے عذاب سے اور دوزخ کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے اور دولت و ثروت کے فتنے کے شر سے مفلس و محتاجی کے فتنہ کے شر سے اور فتنہ دجال کے شر سے۔

سنن ابوداؤد میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو ایک انصاری صحابی ابو امامہؓ کو مسجد میں بیٹھے دیکھا، آپﷺ نے فرمایا کیا بات ہے تم اس وقت جبکہ کسی نماز کا وقت نہیں ہے مسجد میںبیٹھے ہو؟ انہوں نے عرض کیا مجھ پر قرضوں کا بہت بوجھ ہے اور فکروں نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا میں تمہیں ایسا دعائیہ کلمہ نہ بتادوں جس کے ذریعے دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں ساری فکروں سے نجات دے دے اور تمہارے قرضے بھی ادا کردے۔ حضرت ابوامامہؓ نے عرض کیا ضرور بتادیجئے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تم صبح وشام یہ دعاء اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو۔

اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَہْرِ الرِّجَالِ

ترجمہ : ’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے، سستی اور کاہلی سے، بزدلی اور کنجوسی سے اور پناہ مانگتا ہوں قرض کے غالب آنے سے اور لوگوں کے دباؤ سے‘‘۔ حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میری ساری فکریں ختم ہوگئیں اور میرا قرض بھی ادا ہوگیا۔

بسا اوقات انسان خصوصاً حق پر قائم رہنے کی کوشش کرنے والے شخص کو ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ وہ وقت کے ارباب اقتدار کے غصہ اور ناراضی کا نشانہ بن جاتا ہے اور ان کی طرف سے ظلم وزیادتی کا خطرہ اس کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے طبرانی میں روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو حاکم وقت کے ظلم وزیادتی کا خوف ہوتو اسے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہئے۔

اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ کُنْ لِیْ جَارًا مِنْ شَرِّ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ وَشرِّ الْجِنِّ وَالا نْسِ وَاَتْبَاعِھِمْ ان یَفْرُطَ عَلَیَّ اَحَدٌ مِّنْھُمْ اَوْاَنْ یَّطْغٰی عَزَّجَارُکَ وَجَلَّ ثَنَائُ ک وَلَااِلٰہَ غَیْرُکَ۔

ترجمہ: ’’اے اللہ، ساتوں آسمان اور عرش عظیم کے مالک فلاں بن فلاں( حاکم) کے شر سے اور سارے شریر انسانوں اور جنوں اور ان کے پیروکاروں کے شر سے حفاظت فرما اور مجھے اپنی پناہ میں لے لے کہ ان میں سے کوئی مجھ پر ظلم نہ کرسکے جو تیری پناہ میں ہے وہ باعزت ہے تیری ثنا باعزت ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ سے متفق علیہ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ کی پناہ مانگو بلاؤں کی سختی سے ، بدبختی کے لاحق ہونے سے، بری تقدیر سے اور دشمنوں کی ہنسی سے۔ اس حدیث میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے درحقیقت دنیا اور آخرت کی کوئی برا ئی اور کوئی تکلیف، کوئی مصیبت ، اور کوئی پریشانی ایسی نہیں جو ان چار عنوانوں کے علاوہ ہو۔

بلاء ہر اس حالت کا نام ہے جو انسان کیلئے باعث تکلیف اور موجب پریشانی ہو، جس میں آزمائش ہو یہ دنیوی بھی ہوسکتی ہے اوردینی بھی، روحانی بھی ہوسکتی ہے اور جسمانی بھی، انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی لہٰذا بلاء کا لفظ تمام مصائب تکالیف اور آفات کو شامل ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز جس سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے وہ بدبختی کا لا حق ہونا۔ تیسری چیز بری تقدیر سے، اور آخری چیز جس سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا ۔آج ہم ان تمام مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں جن سے آپ ﷺ نے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا کہیں دولت کا فتنہ سیلاب کی طرح آرہا ہے، ہر فرد قرض کے بوجھ تلے دبا نظر آتا ہے ۔ گھر کا غم، اولاد کا غم، دفتری اور کاروباری فکر، ہر شعبہ میں کاہلی اور سستی کا وجود،پھر ہر شخص اپنے اوپر دوسرے لوگوں کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔  بزدلی کے خول کو اتار کر مسلمان کشمیر اور افغانستان میں اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے خواب دیکھ رہا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ دشمن ہماری اندرونی کشمکش اور ملکی فسادات پر خوش ہو رہا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ان تمام چیزوں سے پناہ مانگیں۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احمد راہی ترنجن سے رگ جاں تک

احمد راہی نے تخلیق فن کا آغاز اردو شاعری سے کیا تھا۔ بعد میں وہ پنجابی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں بڑا نام پیدا کیا۔ اپنی پنجابی شاعری کی ہمہ گیر مقبولیت کے باوجود وہ اردو شاعری سے کبھی دست کش نہ ہوئے۔

سوء ادب : دو گویّے

مشہور امریکی سنگر ایلویس پریسلے کہیں جا رہے تھے کہ ایک گائوں سے گزرتے ہوئے اُنہیں سو ڈالر کی ضرورت پڑگئی ۔وہ ایک مقامی بینک میں گئے اور وہاں سو ڈالر کا چیک پیش کیا جس پر بینک والوں نے کہا کہ چیک کیش کرنے کیلئے آپ کی شناخت ضروری ہے جس پرایلویس پریسلے نے کہا : ’’بھائی میں ایلویس پریسلے ہوں کیا آپ مجھے نہیں جانتے اور آپ نے میرا گانا کبھی نہیں سُنا ؟‘‘

ICC CHAMPIONS TROPHY 2025,روایتی حریف کا پاکستان آنے سے انکار

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ء میگا ایونٹ کا نواں ایڈیشن ہو گا، یہ ایک بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ ہے جس کا مقابلہ ایک روزہ بین الاقوامی(او ڈی آئی)کی مردوں کی قومی ٹیموں کے درمیان ٹاپ آٹھ درجہ بندی پر ہوتاہے، اس کا اہتمام انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی)کرتاہے اور اس کی میزبانی پاکستان 19 فروری سے 9 مارچ 2025ء تک کرے گا۔ پاکستان دفاعی چیمپئن ہے، جس نے 2017 ء میں چیمپئنز ٹرافی کا پچھلا ایڈیشن جیتا تھا۔

علامہ محمد اقبالؒ کا کلام پیغامِ خود افروزی و جگر سوزی

اقبالؒ کے مطابق خودافروزی ذات کے امکانات کی دریافت کا نام ہے اور جگر سوزی ان امکانات کے حصول کیلئے تسلسل اور محنتِ شاقہ سے تگ و دو کرنے سے عبارت ہے

علامہ محمد اقبالؒ اور مسئلہ فلسطین

جس طرح آج دنیا کاہرحساس فرد غزہ پر ہونے والے حملوں پر مضطرب ہے نصف صدی قبل جب اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی عالم اسلام میں اس سے زیادہ اضطراب پیدا ہوا تھا جس کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ اس وقت اقبالؒ اپنی قوم کی آزادی کے مسئلے پر برطانوی حکومت کی بلائی ہوئی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گئے ہوئے تھے۔

اقبالؒ کی سائنسی فکر و تصورات

شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ ایک ایسے فلسفی اور مدبر ہیں جن کہ ہمہ جہت شخصیت کے مختلف رنگ ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ہم نے ان کو محض شاعر سمجھ کر رٹ لیا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ کئی صدیاں بھی اقبالؒ کی ہیں افسوس کا مقام ہے کہ ہماری نئی نسل اقبالؒ کے کلام کو نہیں سمجھ پا رہی لیکن وہ اقبالؒ سے بہت پیار کرتی ہے۔