مذاکراتی عمل ، خدشات و خطرات (ن)لیگ معاشی محاذ پرسرگرم
سیاسی محاذ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل خطرات اور خدشات سے دوچار ہے اور اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی اپنے لیڈر سے ملاقات نہ ہونا ہے۔
ملاقات کا فیصلہ مذاکراتی عمل کے دوران دوسری میٹنگ میں پی ٹی آئی کے اراکین کی خواہش پر کیا گیا تھا ،جس میں پی ٹی آئی کی کمیٹی نے چارٹر آف ڈیمانڈ کے حوالے سے کہا کہ وہ اس ضمن میں حتمی فیصلہ اپنے لیڈر سے ملاقات کے بعد کریں گے ۔ مذکورہ ملاقات سے حکومتی اراکین نے اصولی اتفاق کیا اور اس کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری سپیکر ایاز صادق کی تھی لیکن مذاکرات کے روز انہیں اپنی اہلیہ کے آپریشن کے باعث دبئی جانا پڑا اور اب تک مذکورہ ملاقات کا اہتمام نہیں ہو سکا۔لیکن پی ٹی آئی کے ذمہ داران یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر ان کی اپنے لیڈر نے ملاقات نہیں ہوتی تو پھر کیسے مطالبات اور مذاکرات؟ دوسری جانب وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بانی پی ٹی آئی کی ایک ٹویٹ کو جواز بناتے ہوئے کہا کہ اب ان مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ۔ خواجہ محمد آصف پہلے روز سے اس مذاکراتی عمل کے مخالف تھے ۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی چوہدری احسن اقبال بھی تحفظات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خود پی ٹی آئی کے اندر بھی کنفیوژن کا ایک سلسلہ ہے اوربانی پی ٹی آئی کو ہائوس اریسٹ کرنے کے حوالے سے بھی مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔اگرچہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سرے سے اس بات سے انکاری ہیں کہ انہوں نے ایسی ہی کسی پیشکش سے بانی پی ٹی آئی کو آگاہ کیا ، تاہم بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ یہ آفر بانی پی ٹی آئی کو ہوئی تھی۔ صاحبزادہ حامد رضا بھی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو آفر ہوئی تھی کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں ۔ پہلے یہ آفر تین سال کی تھی بعد ازاں دو سال اور پھر چھ ماہ کیلئے، لیکن انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ مذکورہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مذاکراتی عمل شروع ہونے کے باوجود دونوں جماعتوں میں کنفیوژن ہے۔ دوسری جانب مذاکراتی عمل میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ،لیکن کیا صورتحال ایسے ہی رہے گی؟ ایسا نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ فریقین کے درمیان مذاکراتی عمل سے سیاسی درجہ حرارت کم ہوا اور حکومت معاشی محاذ پر زیادہ سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔یوں ایک امید بندھی کہ مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں بات آگے چلے گی اور سیاسی قوتوں کے درمیان افہام و تفہیم سے معاملات طے پا جائیں گے جس سے ملک میں سیاسی استحکام آ ئے گا ۔یہ تاثر بھی عام تھا کہ مذاکراتی عمل کو فیصلہ سازوں کی تائید حاصل ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے انہیں مذاکرات جاری رکھنے کیلئے کہہ دیا ہے۔مگر کیا مذاکرات آگے چل پائیں گے، یہ دیکھنا ہوگا۔ اگر واقعتاً یہ عمل کسی بڑی قوت کے اشارے پر ہوا تو ڈیڈ لاک نہیں ہو گا۔ یہ تاثر بھی تھا کہ شاید امریکہ کی نئی حکومت پاکستان پر دبائو ڈالے، لیکن اب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا ایک بیان آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے کیسز پاکستانی آئین اور قانون کے تحت چلیں گے۔ کیا امریکہ کا یہی مؤقف رہے گا؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا اصولی مؤقف تو یہی رہے گا البتہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے حکومتوں کو دبائو میں لانے کیلئے مختلف اقدامات کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی مذاکراتی عمل کے باوجود اب بھی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے حوالے سے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت سے توقعات رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کے حلقوں سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ اپنے معاملات خصوصاً مقدمات اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے حوالے سے اندر کی بجائے باہر دیکھ رہی ہے اور اب کی بار اس کا تکیہ نئی امریکی حکومت پر ہے اور اس مقصد کیلئے وہ یہاں ایسا ماحول قائم کرنا چاہئے گی کہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ یہاں انہیں سیاسی کردار ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ لہٰذا اسلام آباد پر چڑھائی کے آپشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مقصد یہ کہ اسلام آباد مارچ کا اعلان کرکے دنیا کو دکھایا جائے کہ اسے کس طرح روکا جا رہا ہے ۔ کیا یہ حکمت عملی کارگر ہو گی؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی معاملات کے سیاسی حل اور عدلیہ اور اداروں پر اعتماد نہیں کرے گی اس کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ پی ٹی آئی جن مسائل سے دوچار ہے یہ سب اس کا اپنا کیا دھرا ہے اور پاکستان میں سیاست اور اپنے کردار کیلئے اسے یہیں اپنے مثبت کردار سے اپنا راستہ بنانا ہوگا۔ جہاں تک امریکہ سے توقعات اور نو منتخب امریکی صدرسے امیدوں کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ یہ دور کے ڈھول سہانے والی بات ہے کیونکہ امریکہ یا اس کی حکومت کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنے گی جس سے کسی ایک فرد کیلئے وہ کسی ملک اور اس کی حکومت سے تعلقات خراب کرلے۔ پاکستان کی ایک علاقاتی اہمیت و حیثیت ہے اور جب پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک ایجنڈا پر نظر آئے تو اس پر اثر انداز ہونا مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی کی توقعات خواہش تو ہو سکتی ہیں حقیقت نہیں بن سکتیں۔پی ٹی آئی کا باہر دیکھنا اپنے سیاسی عمل میں حکومتوں سے باہر رہنے یا رکھنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ادھرپنجاب کے سیاسی محاذ پر نظر دوڑائی جائے تو وزیراعلیٰ مریم نواز اور ان کی حکومت اپنی حکومتی کارکردگی میں اضافہ کیلئے مفاد عامہ میں اقدامات کرتی نظر آ رہی ہیں۔ خصوصاً صحت کی سہولیات شریف خاندان کی ہمیشہ سے ترجیح رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی ہر حکومت میں ہسپتالوں کی صورتحال میں بہتری اور عوام کیلئے ضروری سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے گئے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے بھی 150مراکز صحت کو ’’مریم نواز ہیلتھ کلینک‘‘ میں تبدیل کرنے کا پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔ پنجاب میں صحت عامہ کیلئے دونوں صوبائی وزرا خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر ہسپتالوں کے انتظامات اور سہولتوں کی فراہمی کیلئے سرگرم نظر آتے ہیں ۔ان نئے پراجیکٹ کے بعد ڈاکٹرز اور نرسوں کیلئے بھی چیلنج ہے کہ وہ کس طرح حکومتی اعتماد پر پورا اترتے ہیں کیونکہ یہ شعبہ خدمت کا شعبہ ہے اور دکھی نسانیت کی خدمت سے بڑا اجر کوئی نہیں۔ نئے مراکز کی افتتاحی تقریب سے وزیراعلیٰ مریم نواز کے خطاب کے دوران ہسپتالوں کی حالت زار اور ڈاکٹروں کی غفلت سمیت دیگر امور پر ان کے خیالات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کی نظر ان تلخ حقائق پر ہے ۔