معروف شاعر کی بیسویں برسی نگار صہبائی
گیت نگاری کوسنجیدہ صنف بنانے والےانہوں نے تازہ اور نادر تصورات سے اپنے نگار خانہ فن کو سجایا
اردو میں گیت لکھنے کی روایت چند ہلکے پھلکے، میٹھے اور رنگین جذبات کی مرہون منت رہی ہے۔ گیت لکھنے والے پوری زندگی اور پورے تجربے کو پیش کرنے کے بجائے چند مخصوص قسم کے تجربات کو الگ کر لیتے اور انہیں ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرتے اس لئے اردو گیتوں کو کبھی سنجیدہ تخلیق کا درجہ نہیں دیا گیا۔
علامہ آرزو لکھنوی نے گیتوں کو ایک نیا مزاج آہنگ اور ذخیرہ الفاظ دیا اور اپنے زمانے کے بعض نئے تجربات کو گیتوں میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے گیت بہرحال فلموں کی ضرورت سے پیدا ہوئے تھے اور انہی کی حدود میں اپنا جادو جگاتے رہے۔ ایک زمانے میں ہندوستان کے بچے بچے نے ان کے گیت گائے، ان کے گیت سنے اور ان کے رنگ و آہنگ میں اپنے دلوں کی دھڑکنیں محسوس کیں۔ کچھ اور لوگوں نے بھی گیت لکھے لیکن انہیں مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔
اردو گیت کی روایت میں نگار صہبائی پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس صنف کو اردو کی سنجیدہ تخلیقی صنف بنا دیا۔ انہوں نے اپنا آغاز آرزو کی پیروی سے کیا تھا اور مروجہ اسلوب میں ہلکے پھلکے گیت لکھے تھے جو اس اعتبار سے کامیاب تھے کہ گائے گئے اور پسند کئے گئے لیکن رفتہ رفتہ نگار میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی اور ان کی جذباتی اور روحانی زندگی کے عمیق تر اور پیچیدہ تر تجربات خودبخود ان کے گیتوں میں در آنے لگے۔ وہ گیت کو ایک نئی زبان بولنے کا سبق پڑھا نے لگے۔ اس زمانے میں نگار کے گیتوں کو سن کر محسوس ہواکہ وہ آہستہ آہستہ کچھ ایسے تجربات کی طرف بڑھ رہے ہیں جنہیں جدید اردو شاعری کی روایت میں ابھی کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
نگار کا پہلا مجموعہ’’جیون درپن‘‘ تھا۔ اس مجموعہ میں انہوںنے ہمیں اپنی سچی جذباتی زندگی کی جھلکیاں دکھائی تھیں لیکن اس کے بعد اچانک انہیں درپن پار کے درشن نظر آنے لگے اور لوگوں کو ایسا لگا جیسے وہ روایت کے ایک ایسے رنگ کا آغاز کر رہے ہیں جو صرف نگار ہی کر سکتے ہیں۔نگار صہبائی نے گیتوں میں اتنے تازہ اور نادر تصورات سے اپنے نگار خانہ فن کو سجایا کہ گویائی کی حدود اس فضائے سکوت کو چھونے لگتی ہیں جو ماورائے سخن وجود رکھتی ہے۔ نگار کی گیت نگاری اس سنجیدہ تر تخلیقی فضا کا ایک حصہ ہے جسے ہم اردو شاعری کے اعلیٰ سے اعلیٰ تر معیار پر پرکھ کر قبول کر سکتے ہیں ۔
نگار صہبائی کی ذاتی زندگی کے بارے میں مطالعہ کریں تو وہ خود لکھتے ہیں ’’دوسری جنگ عظیم اپنی انتہا کو چھو کر لوٹنے والی تھی یہ 1943ء تھا اور میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اپنے شہر ناگپور سے مدراس جا چکا تھا اور مدرسہ اعظم مدراس میں ہائی سکول کے پہلے زینے پر پہنچ چکا تھا، میرے مکان کے قریب ملٹری بیرکس تھے جہاں ہندوستان کی فوج کا ایک دستہ تعینات تھا جس میں کچھ سپاہی دہلی کے رہنے والے تھے۔ مدراس میں عام طور پر مقامی باشندے تامل یا انگریزی بولتے تھے۔ صرف وہاں کے مسلمانوں کی زبان اردو تھی، جسے ہم عرف عام میں دکنی اردو کہتے ہیں۔ فوج میں دہلی کے اہل زبان فطرتاً قرب وجوار کی آبادی میں زبان کے رشتے سے مسلمانوں میں گھل مل گئے۔ ان حضرات میں چند صاحبان سخن گو بھی تھے۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ اس شہر میں مشاعروں کی نشستوں میں اپنی ہفتہ وار چھٹی کی شامیں گزارنے کے متمنی تھے۔ میں ان میں سے دو حضرات کو لے کر اپنے مکان آیا اور اپنے ماموں عبدالوہاب سے ان کا تعارف کرایا، میرے ماموں کے والد یعنی میرے نانا دہلی کے باشندے تھے، ان حضرات سے مل کر میرے ماموں بہت خوش ہوئے‘‘۔
اب یہ روز کا معمول تھا کہ یہ صاحبان ٹہلنے کی غرض سے نگار کے ماموں کے مکان پرآ بیٹھتے اور سخن گوئی اور سخن فہمی کے موضوع پر طویل گفتگو ہوتی۔ ان ادبی صحبتوں نے ان کے ذوقِ شعری کو بیدار کیا اور سونے پر سہاگہ ان کے ماموں کی سرپرستی بنی۔ان کے ماموں بہت اچھے فارسی داں تھے اور بنیادی طور پر علامہ اقبال ؒ کی شاعری کے پرستاروں میں سے تھے۔ اور بالخصوص اقبالؒ کی فارسی شاعری اگرچہ مزاجاً سخت گیر آدمی تھے لیکن نگار کے حق میں وہ تمام تر محبت شفقت اور معلومات کا ایک سمندر تھے۔ کسی مقامی مشاعرے میں جانے سے قبل نگارپر یہ فرض عائد تھا کہ دو زانو ہو کر ان کے سامنے غزل اس طرح ترنم سے سنانی پڑتی تھی گویا بھرے مشاعرے میں سنائی جا رہی ہو۔ اس طرح ماموں کی سرپرستی کی چھائوں میں ان کی سخن گوئی کا پودا ہولے ہولے پرورش پاتا رہا۔ اس پودے کی نشوؤنما اور آبیاری میں پروفیسر غلام محی الدین اثر کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔
مدراس میں نگار صہبائی کی انتہائی خوش قسمتی تھی کہ ان کے اساتذہ میں پروفیسر غلام محی الدین اثرجیسے عالم فاضل اور قابل لوگ تھے۔ جب نگار نے اوّل اوّل اپنا کلام انہیں اصلاح کی غرض سے دکھایا تو انہوں نے سرپرستی اور حوصلہ افزائی فرمائی اور یہاں تک دلچسپی لی کہ انہیں محمد سعید سے نگار صہبائی بنایا۔جب وہ ہائی سکول کی آخری جماعت میں پہنچے تو پروفیسر غلام محی الدین اثر گورنمنٹ محمڈن کالج مدراس میں تبدیل ہو کر جا چکے تھے، یہ کالج بھی اسی احاطہ میں تھا جہاں میرا سکول مدرسہ اعظم تھا۔
نگار کے ہیڈ ماسٹر عبدالقادر ولایت سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ یہ ان کی بھرپور توجہ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ان سے رابندرناتھ ٹیگور کی نوبل انعام یافتہ مشہور تصنیف’’گیتان جلی‘‘ پڑھی۔ دوسری طرف ان کے استاد محترم پروفیسر غلام محی الدین اثر بذریعہ اصلاح ان کی شعری تربیت فرماتے رہے۔1946ء میں ہائی سکول کی تعلیم سے فارغ ہو کر وہ ناگپور لوٹ آئے۔ یہاں پروفیسر منظور حسین شور ان کی گہری دلچسپی اور شعری توجہ کا مرکز بنے، جس کے نتیجہ میں ان کارجحان اردو نظم کی طرف بڑھا۔ 1947ء میں جب ناگپور سے رائے پور پہنچے تو وہاں عزیز حامد مدنی جیسے صاحب علم و ادب کی محفل میسر آئی۔ اکتوبر1947ء میں پاکستان آ گئے اور تادم مرگ کراچی میں مقیم رہے۔
نگار کے والد کے چچا عبدالرحیم محن بھی شاعر تھے اور ان کا کلام ’’پیام یار‘‘ لکھنو میں 1870ء سے 1874ء تک چھپتا رہا جس کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ شاید شاعری کا ورثہ نگار کو انہی بزرگ سے ملا ۔
جہاں نگار کی زندگی میں دو بڑی شخصیتوں یعنی ان کے ماموں عبدالوہاب اوراستاد پروفیسر غلام محی الدین اثر نے ان کی شخصیت کو فن کے سانچے میں ڈھالنے کا قابل قدر کام انجام دیا وہیں معروف شاعر،نقاد ااور دانشور سلیم احمد کی دہنی اور روحانی تربیت نے بھی انہیں شعر کے ناتے سے مالا مال کیا۔ نگار کو ان کی صحیح اور طبعی فنی صلاحیت سے آگاہ کیا۔ یعنی ان کی شاعری کا رخ گیت کی طرف موڑ دیا۔1955ء میں نگار صہبائی نے پہلی بار گیت کا سب سے پہلا مصرع لکھا ’’پون کے رتھ پر بیٹھ کر آئے ساون بھادوں میرے دوار‘‘۔
دوسری طرف ان کے کراچی کے دیرینہ دوست قمر جمیل نے ریڈیو پاکستان کیلئے گیت لکھنے کی دعوت دی اور انہوں نے گیت کی صنف کو مکمل طور پر اپنا لیا۔ یہاں ذوالفقار علی بخاری جیسے جوہر شناس بزرگ نے بھی ان کی صلاحیتوں کی داد دی۔1964ء میں ان کے گیتوں کا پہلا مجموعہ ’’ جیون درپن‘‘ شائع ہوا۔ یہ ان کی خوش قسمتی رہی کہ ان کے ادبی رفقاء میں شمیم احمد، ساقی فاروقی، اطہر نفیس، سرشار صدیقی اور جمال پانی پتی ان کاحوصلہ بڑھاتے رہے ۔ نگار صہبائی کے گیتوں کے تین مجموعے ’’جیون درپن‘‘،’’ من گاگر‘‘ اور’’ انت سے آگے‘‘ شائع ہوئے۔
گیت نگاری کے میدان میںنگار صہبائی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ بیس سال قبل 8جنوری 2004ء کراچی میں وفات پاگئے ۔
گیت
میرے ہر دے میں سویا ہے کوئی
گھر جو پہنچوں تو جاگے گا کوئی
پیڑ کیسا تھا اس کی دَیا کا
پوچھتے ہیں مسافر ڈگر کے
ایک جھونکے سے آنگن میں جس کے
گر پڑے کیا کواڑے تھے گھر کے
دھوپ کرتی ہے پت جھڑ کے پھیرے
یوں لگے ہے کہ آئے گا کوئی
بھاگ رُت کے جگا دے گا کوئی
کون آیا ہے اتنے سویرے
کون کرتا ہے دھڑکن کے پھیرے
دیپ کس نے اچانک جلایا
تل میں آنکھوں کی سمٹے اندھیرے
مکھ پہ کتنے سویروں کی آشا
میری پوجا کو آیا ہے کوئی
گورے پیروں پہ مہندی کی دھار
میرے من کے ہیں رستے ہزار
اوڑھے مٹی نے چمپا کے پھول
ہو ہی جاتی ہے بادل سے بھول
سونا آنگن ہے پت جھڑ کی رِیت
بیتی شاموں کے دکھیارے میت
میری چھایا میں کوئی چھپا
سن ذرا تجھ سے کہتا ہے کیا
تیرے نینوں میں کاجل سنگھار
میرے درشن ہیں درپن کے پار
بند پلکوں کی کیاری سجائے
تیرے پچھتاوے کیوں من کو بھائے
جانے کس نے بچھایا ہے جال
میرے من کو دیا ہے اُجال
کتنے رستوں کا سنگم ہوں میں
کتنی آنکھوں کا موسم ہوں میں
تن کی پگڈنڈیوں سے پرے
آ کے جاتی نہیں ہے بہار
منتخب اشعار
جوڑے میں گوندھے ہوئے یہ سرخ پھول
کس نے ظلمت میں جلائے ہیں چراغ
٭٭٭
زینت آغوش وہ جب سے بنے
دھڑکنیں سننے کی عادت ہو گئی
٭٭٭
زینۂ تخیل سے دل کے محلوں میں اترتا ہے کوئی
آہٹ سی سنائی دیتی ہے چپ چاپ حنائی پیروں کی
٭٭٭
گورے پیروں پہ مہندی کی دھار
میرے من کے ہیں رستے ہزار
اوڑھے مٹی نے چمپا کے پھول
ہو ہی جاتی ہے بادل سے بھول
٭٭٭
قطعہ
کیسی جھنکار ہے یہ زینہ دل پہ اے نگار
کہیں ارمانوں کے ساغر تو نہیں ٹوٹ گئے
سالہا سال جو زنجیر میں یادوں کی رہے
کہیں وہ دلربا قیدی تو نہیں چھوٹ گئے