سوء ادب :وفادار

تحریر : ظفر اقبال


ایک صاحب کتا خریدنے کے لیے ایک دوکان پر گئے جہاں کتے فروخت ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک کتا پسند کیا جو اگرچہ کافی مہنگا تھا۔انہوں نے دوکاندا ر سے پوچھا کہ یہ مہنگا کتا میں نے پسند تو کر لیا ہے لیکن کیا یہ وفادار بھی ہے ؟

’’وفاداری کا آپ کیا پوچھتے ہیں،اِس کو پندرہ بار فروخت کر چکا ہوں لیکن یہ ہر بار میرے پاس آجاتا ہے ‘‘۔

مقولہ شناس 

ایک صاحب اپنے کسی دوست سے ملنے کیلئے گئے تو انہیں دیکھتے ہی دوست کا کتا زور سے بھونکا جس پر وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے تو دوست بولا ،

’’ڈرنے کی ضرورت نہیں کیا آپ نے وہ مقولہ نہیں سنا کہ بھونکتے ہوئے کتے کا ٹا نہیں کرتے ؟‘‘

’’میں نے تو سنا ہوا ہے لیکن ہو سکتا ہے آپ کے کتے نے نہ سنا ہو اور اگر سنا ہوا بھی ہوا تو اِس کی کیا ضمانت ہے کہ بھونکتا ہوا کتا بھونکنا بند کر کے کاٹنا شروع نہ کر دے‘‘۔

سفیرِ لیلی

یہ ہمارے کافی معروف اور جانے پہچانے شاعر اور ادیب علی اکبر ناطق کے شعری کلیات ہیںجنہیں بک کارنر، جہلم نے شائع کیا ہے۔ اس میں ان کے چھ مجموعے ’’تصویروں کا باغ‘‘، ’’سبز بستیوں کے غزال‘‘، ’’بے یقین بستیاں‘‘، ’’یاقو ت کے ورق‘‘، ’’سر منڈل کا راجا‘‘ اور ’’مارچ کے پھول‘‘ شامل ہیں۔ 

پس سرورق شاعرکی تصویر اور شمس الرحمان فاروقی کی رائے درج ہے، جس کے مطابق ’’علی اکبر ناطق کے بار ے میںاب یہ حکم لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ جدید شعر میں اِن کی اگلی منزل آگے کہاں تک جائے گی کہ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں۔ ان کے پہلے کلام میں تازگی اور مِیرا جی کی قوت اور داخلیت تھی۔روایت اور تاریخ کا شعور بھی حیرت زدہ کرنے والا تھا ۔اب کے کلام میںلہجہ جدید نظم کے کلاسک شعرا سے بالکل الگ بھی ہے ،نیا بھی ہے اور جوشِ درد سے بھی بھرا ہوا ہے۔ صرف اور صر ف ان کا اپنا ہے، اِس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ محبت کی باتیں بہت ہیںلیکن ان میںزیاں اور ضررکا احساس بھی زیادہ ہے۔نظم کا بہائو اور آہنگ کی روانی ایسی ہے کہ حیرت پر حیرت ہوتی ہے۔ خاص کر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اِس وقت اِ ن کے کلام پر پنجابی کا اثر عام سے زیاد ہ ہے ۔اِس کے باوجود یہ پیوند بہت ہی اچھے لگتے ہیں ۔اِس مجموعے کی نظمیں ہماری جدید شاعری کیلئے ایک مطلق نئی چنوتی لے آئی ہیں۔

ابتدا میںدرج تعارف کے مطابق علی اکبر ناطق ایک پاکستانی ناول نگار ،افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔اِن کی وجہ شہرت اِن کا ناول ’’نو لکھی کوٹھی‘‘ہے ۔اب تک اِن کی شاعری اور افسانوں کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔علی اکبر ناطق کا خاندان 1947 ء کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گائوں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ ناطق یہیں 1976ء میں پیدا ہوئے اور اسی گائوں میں موجود ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑہ سے پاس کیا۔ اس کے بعد معاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کئے ۔تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور راج مستری پندرہ سال تک کام کیا۔ اِ سی دوران اردو نثر ،شاعری ، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔1998ء میں کچھ عرصے کیلئے روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب اور مشرق ِ وسطی میں بھی رہے ۔پاکستان واپسی کے بعد چند تعلیمی اداروں سے بطور استاد شعبہ اردو منسلک رہے ۔ 

2009 ء میںمعروف ادبی جرائدنے اِن کے افسانے اور نظمیں شائع کیں تو اچانک اِن کی ادبی حلقوں میںشہرت ہوئی۔ 2010ء میں اِن کا پہلا شعری مجموعہ ’’بے یقین بستیوں ‘‘میں چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کیلئے نامزد بھی ہوا۔ 2012ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’قائم دین‘‘ چھپا جسے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا۔ ابتدامیںایک افسانہ ’’معمار کے ہاتھ‘‘ شائع ہوا جس کا انگریزی ترجمہ کر کے محمد حنیف نے امریکہ سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’گرائنہ‘‘ میںشائع کرایا ۔ناطق کی کچھ کتابیں انگریزی اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ناول ’’نو لکھی کوٹھی‘‘ نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے۔ پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں شائع کر رہا ہے۔اِس کے بانی مہتمم اعلیٰ شاہد حمید ہیں جبکہ ناشرین گگن شاہد اور امر شاہد ہیں، خوبصور ت سرورق ابو امامہ نے بنایا ہے۔ انتساب راجا ناصر عباس جعفری کے نام ہے جبکہ دیباچہ زیف سید اور پیش لفظ ارسلان احمد راٹھور کے قلم سے ہے۔ 

پہلے دو مجموعے غزلوں اور باقی چار نظموں پر مشتمل ہیںگیٹ اپ عمدہ اور قیمت 1500 روپے ہے ۔ اب آخر میں ’’سبز بستیوں کے غزال‘‘میں شائع ہونے والی یہ غزل ۔

غزل

گرچہ چالاک ہیں ،ہشیارنہیں رہتے ہیں 

رخ کے سادہ سے سے یہ پرکار نہیں رہتے ہیں 

بے طرح شام و سحر شمس و قمر کی صورت 

تیری گردش کے سفر دار نہیں رہتے ہیں 

دھوپ کے رنگ ہیں پردیس کی گلیوں میں سیاہ 

چہرے سرداروں کے گلنار نہیں رہتے ہیں 

بے وطن شام ڈھلے شاخ کے پہلو سے لگے 

سرمئی وقت میں بیدار نہیں رہتے ہیں 

کوئی آواز نہ سایا نہ کہیں نقشِ عزیز 

بے صدا ایسے بھی گھردار نہیں رہتے ہیں 

ہم نے شہتوت کے باغوں سے چرائی گوہلیں 

فصلِ سربسر میں بے بار نہیں رہتے ہیں

ہو کے زنجیر درِ یار کی کھٹکیں گے اسیر 

تیرے وحشی سرِ بازار نہیں رہتے ہیں

آج کا قطع

چار سو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا 

اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سیاسی مذاکرات بے یقینی کا شکار

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس مذاکراتی عمل کے دوران قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم ہو چکا ہے۔

مذاکراتی عمل ، خدشات و خطرات (ن)لیگ معاشی محاذ پرسرگرم

سیاسی محاذ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل خطرات اور خدشات سے دوچار ہے اور اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی اپنے لیڈر سے ملاقات نہ ہونا ہے۔

سندھ میں تعلیم کی صورتحال پر سوالیہ نشان

نیا سال شروع ہوچکا لیکن سندھ کے حالات کاغذات میں تو شاید بدل رہے ہوں لیکن زمینی حقائق تبدیل ہوتے نظر نہیں آرہے۔ صوبے کا ہر شعبہ برق رفتاری سے تنزلی کے مراحل طے کر رہا ہے۔

خیبرپختونخوا میں امن کا خواب

خیبرپختو نخوامیں امن کی بحالی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ بدقسمی سے سیاسی جماعتیں اس حوالے سے ایک پیج پر نہیں۔ ہر جماعت امن تو چاہتی ہے لیکن اس کیلئے دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔کرم کی مثال ہی لیجئے جہاں صوبائی حکومت اپنی عملداری یقینی بنانے میں تاحال ناکام نظرآتی ہے۔

تعمیر و ترقی، امکانات اور اقدامات

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں بلو چستان حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل اور صوبے کی ترقی کیلئے سنجیدہ ہے۔

جموں و کشمیر میں حق خودارادیت کی پکار

پانچ جنوری کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب بسنے والے اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے اس عزم کے ساتھ’’ یوم حق خود ارادیت‘‘ منایا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارت کے غیر قانونی قبضے سے آزاد کر انے کے بعد اسے پاکستان کا حصہ بنانے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔