تعمیر و ترقی، امکانات اور اقدامات
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں بلو چستان حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل اور صوبے کی ترقی کیلئے سنجیدہ ہے۔
یہ اقدامات صوبے کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔وزیر اعلیٰ بلوچستان نے صوبے میں میرٹ کو فروغ دینے، شفافیت کو یقینی بنانے اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے جو اقدامات کئے ہیں وہ بلوچستان کیلئے مثالی ہیں اور صوبائی کابینہ کے فیصلے حکومت کی عوام دوست پالیسی اور بہترین طرز حکمرانی کا مظہر ہیں۔ گزشتہ دنوں اسمبلی فلور پر وزیر اعلیٰ نے اپنا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں نوکریاں فروخت نہیں ہوں گی۔یہ ایک اہم فیصلہ ہے جو صوبے کے مسائل کے حل کی جانب ایک عملی قدم ہے۔ یہ ان نوجوانوں کیلئے امید کی کرن ہے جو طویل عرصے سے اقرباپروری اور غیر منصفانہ رویوں کا شکار ہیں۔ ورلڈ بینک کے تعاون سے تعلیمی منصوبوں کی منظوری اور سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے اقدامات بھی تعلیمی نظام میں بہتری کیلئے اہم ہیں۔ یہ منصوبے نہ صرف بچوں کے داخلے کو یقینی بنائیں گے بلکہ معیار تعلیم کو بھی بلند کریں گے۔اسی طرح صحت کے شعبے میں اصلاحات اور گرینڈ ہیلتھ الائنس سے متعلق بریفنگ یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت صحت کے میدان میں عوامی فلاح کو ترجیح دے رہی ہے۔
بلوچستان کی موجودہ حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں وہ صوبے کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے اور عوام کے معیار ِزندگی کو بلند کرنے کی جانب اہم پیش رفت ہیں۔ ان پالیسیوں سے نہ صرف اعتماد اور شفافیت کو فروغ ملے گا بلکہ بلوچستان ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا۔وزیر اعلیٰ بلو چستان کی قیادت میں صوبائی کابینہ نے ٹیچرز کی بھرتی اور تبادلے سے متعلق ریگولرٹی ایکٹ 2024 کی منظوری بھی دی ہے جبکہ بلو چستان کابینہ نے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو ترجیح دیتے ہوئے بائی پاس منصوبے کی تاخیر پر این ایچ اے سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے جو حکومتی عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ عوامی منصوبوں میں تاخیر برداشت نہیں کرے گی۔
رواں ہفتے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 45 کوئٹہ کے 15 پولنگ سٹیشز پرہو نے والی ری پولنگ کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے میر علی مدد جتک نے برتری حاصل کی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 6 ہزار 883 ووٹ حاصل کئے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصر اللہ بڑیچ 4 ہزار 112 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، جبکہ جمعیت علماء اسلام کے میرعثمان پرکانی 3 ہزار 731 ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔میر علی مدد جتک کی کامیابی پر جتک ہاؤس میں جشن کا سماں رہا جہاں کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور خوشی کا اظہار کیا۔ تاہم جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبد الواسع کا حلقہ پی بی 45 کے نتائج کے خلاف صوبہ بھر میں احتجاج کی کال دیتے ہوئے کہنا تھا کہ حلقہ پی بی 45 کوئٹہ کے 15پولنگ سٹیشنز پر عام انتخابات کی طرح فارم 47 کے ذریعے نتائج تبدیل کر دیئے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علماء اسلام جمہوریت کا قتل کر نے کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج کرے گی۔
دوسری جانب بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف قیام امن کیلئے چمن میں پشتونخوامیپ کے زیراہتمام دو روزہ قومی جرگہ ہوا۔ جرگے میں تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے علاوہ چمن، قلعہ عبداللہ اوردیگراضلاع سے مندوبین اورقبائلی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس موقع پر تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتونوں کی جو حالت ہے وہ ناقابلِ بیان ہے انہیں مزید تنگ کیا گیا تو ہم لڑ بھی سکتے ہیں، لیکن ہم لڑنا نہیں چاہتے۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ بلوچوں کو جرگوں کے ذریعے اپنے حقوق اور مطالبات منوانے کیلئے آمادہ کریں گے اور مل کر سیاسی، جمہوری جدوجہد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جرگوں کا سلسلہ اس لئے شروع کیا ہے کہ اپنے عوام کو ایک دوسرے کی تکالیف اور مشکلات سے آگاہ کرسکیں۔ بقول ان کے دنیا میں وسائل کی تقسیم کا فارمولا موجود ہے کہ ریاست اور زمین کے مالکوں کاکتنا حصہ بنتا ہے، پشتونوں کو بھی اپنے وسائل میں سے اتنا حصہ دیا جائے اور اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ سب کا سب ہم لوٹ لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں عوامی مسائل کے حل اور صوبے کے ترقیاتی منصوبوں پر مباحثہ کیا گیا جو کہ حکومتی عزم اور عوامی مفادات کے تحفظ کا مظہر ہے۔اجلاس میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کی جانب سے بلوچستان کے واجبات کی عدم ادائیگی پر بحث کیلئے تحریک التوا کی منظوری بھی ایک جرأت مندانہ قدم ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت بلوچستان اپنے وسائل کے حقوق کیلئے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں پی پی ایل نے اربوں روپے کا منافع حاصل کیا مگر صوبے کو اس کا حصہ نہیں ملا۔ اس تحریک التوا کا مقصد نہ صرف عوام کے حقوق کا تحفظ ہے بلکہ حکومتی مؤقف کی مضبوطی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔وزیر اعلیٰ بلو چستان میر سر فراز بگٹی کا بلو چستان اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن وامان کے حوالے سے دو نظام نہیں ہونے چاہئیں، ایک ہی نظام ہوناچاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے لیویز کو جدیداسلحہ ، بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی ہیں۔ پولیس کے اندر چین آف کمانڈ ہے لیکن لیویز فورس کو ایک ریونیو افسر کنٹرول کرتاہے۔ ریونیوآفیسر کس طرح امن وامان کو کنٹرول کرسکتاہے؟ چین آف کمانڈکیلئے جہاں حکومت محسوس کرے گی اس کیلئے اقدام کریں۔ اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے، اس پر بات چیت کریں، لیویز کو جدید خطوط پر استوار کیاجائے۔ قراردادسے سیاسی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے مگر فائدہ نہیں ہوگا، مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کیاجاسکتاہے۔ لیویز کو قبائلی لشکر نہیں بناناچاہتے۔ لیویز فورس اچھی فورس ہے اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے اے اور بی ایریاز پر مثبت بحث کرنے کی ضرورت ہے، کب تک لیویز کو ایک ریونیوآفیسر کے تحت چلائیں گے؟ ایسا کیاتواایک دن یہ خود بخود ختم ہوجائے گی۔ اس کو بہتربنانے کیلئے خصوصی کمیٹی کے تحت کام کیاجائے۔ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن اور پولیس کے ریٹائرڈ آفیسر شامل ہوں۔ وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی کابلو چستان کی امن وامان کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کہنا تھا کہ شعبان اور کوئٹہ سے معصوم بچے مصور کاکڑ کے اغوا کے معاملات حساس ہیں، میں مصور کاکڑ کے والد سے رابطہ میں ہوں۔ شعبان سے لوگوں کو اغوا کالعدم تنظیم نے کیا اور مصور کا اغوا تاوان کیلئے کیاگیا۔