خیبرپختونخوا میں امن کا خواب
خیبرپختو نخوامیں امن کی بحالی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ بدقسمی سے سیاسی جماعتیں اس حوالے سے ایک پیج پر نہیں۔ ہر جماعت امن تو چاہتی ہے لیکن اس کیلئے دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔کرم کی مثال ہی لیجئے جہاں صوبائی حکومت اپنی عملداری یقینی بنانے میں تاحال ناکام نظرآتی ہے۔
اگر اس مسئلے کو پہلے ہی سنجیدگی سے لیاجاتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ صوبائی حکومت نے امن کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس نے قبائلی علاقوں کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرنی تھیں۔ کمیٹی تو بن تو گئی مگر اس کی کارکردگی سامنے نہ آسکی۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت شروع دن سے جلسے جلوس اور احتجاج میں پھنس کر رہ گئی۔ اس وقت بھی ضلع کرم کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جارہی۔ جس عجلت میں کرم میں امدادی سامان کے قافلے بھیجنے کافیصلہ کیاگیا اس پر بھی انگلیاں اُٹھ رہی تھیں۔ کہاجارہاتھا کہ صوبائی حکومت خود اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف معاملے پر نظررکھے ہوئے تھے، لیکن صورتحال یہ تھی کہ جس وقت کوہاٹ میں گرینڈ جرگہ ہورہا تھا اس وقت وہ پشاور میں تھے اور ذرائع کے مطابق اس انتظار میں تھے کہ جرگہ کامیاب ہو تو وہ صرف دستخط کیلئے جائیں۔ اسے حکومتی ناکامی ہی کہیں گے کہ وہ کرم کے مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھ نہیں سکی۔ اس گمبھیر مسئلے کے مختلف پہلو ہیں جن کی طرف توجہ دیے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
صوبائی حکومت نے ایک متاثرہ فریق کیلئے امداد کا اعلان تو کر دیا لیکن دوسرے فریق کو نظرانداز کیا گیا۔بگن کے متاثرین کی دادرسی کیلئے حکومتی نمائندے وہاں نہیں گئے۔ اگرحکومت ان کی طرف بھی توجہ دیتی تو شاید ڈپٹی کمشنر کرم پر فائرنگ کا افسوسناک واقعہ پیش نہ آتا۔سکیورٹی فورسز کا کام ہے علاقے کلیئر کرنا،دہشت گردوں کاخاتمہ کرنا،شاہراہوں کو محفوظ بنانا، لیکن پائیدار امن کی بحالی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ سیاسی نمائندوں کا کام ہے کہ فوج کی قربانیوں کے بعدامن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھیں۔24 نومبر کو جس وقت پی ٹی آئی اسلام آباد میں داخل ہونے کے جتن کررہی تھی اُس وقت اس مسئلے کی طرف توجہ دی جاتی تو یہ اتنا نہ بڑھتا۔یوں لگ رہا ہے کہ بعض معاملات کو جان بوجھ کر بگاڑاگیا ہے۔ سیاسی جماعتیں وقتی مفاد کیلئے تماشائی بنی ہوئی ہیں اور امن وامان کی بحالی سمیت لوگوں کے مسائل کے حل کی ذمہ داری مقتدرہ کے سر ڈال دی جاتی ہے۔ منتخب نمائندوں کا یہ حال ہے کہ وہ ان حالات میں بھی اسمبلی کے فلور سے آواز نہیں اٹھا رہے۔ اسمبلی کا سیشن جاری ہے لیکن ارکان ِاسمبلی شرکت نہیں کرتے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں سیشن اب تک گیارہ مرتبہ کورم پورا نہ ہونے کے باعث ملتوی کیاگیا۔ اس سے ارکانِ اسمبلی کی سنجیدگی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان ِاسمبلی تو بالکل ہی لاتعلق سے ہوگئے ہیں اور جو پارلیمنٹیرینز آواز اٹھارہے ہیں ان کی کوئی سننے کو تیا رنہیں۔ یوں صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے اور لوگوں میں احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے مسائل حل نہیں ہورہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کو غلط فیصلہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور قبائل میں اس حوالے سے غم وغصہ بڑھ رہا ہے۔
قبائلی اضلاع کوالگ صوبہ بنانے کی تحریک میں بھی اب جان پڑنے لگی ہے۔ اس سے قبل صوبہ ہزارہ کی تحریک بڑے زوروشور سے چلی تھی ،پھر اسے دفن کردیاگیا لیکن اب ایک بارپھر یہ تحریک سر اٹھانے لگی ہے۔ چھوٹے صوبوں کے قیام سے متعلق عوامی مطالبہ زور پکڑتاجارہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہر دور حکومت میں مخصوص اضلاع کو نوازنے کی پالیسی ابھی تک جاری ہے۔ پشاور بدقسمتی سے وہ واحد ضلع ہے جہاں سے ابھی تک اس صوبے کیلئے چیف ایگزیکٹو کو نہیں چنا گیا۔ اکثر وزرائے اعلیٰ پشاور کے علاوہ دیگراضلاع سے منتخب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور کہنے کو تو صوبائی دارلحکومت ہے لیکن اس کی حالت ابترہوتی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنا ہوں گے اورمختلف اضلاع کو ان کاحق دینا ہوگا۔صوبائی حکومت ایک طرف اپنے مطالبات کیلئے اسلام آباد کا رخ کرتی ہے تو دوسری جانب جب اسی صوبے میں بلدیاتی نمائندے اپنے حق کیلئے نکلتے ہیں تو ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے منشور میں شامل تھا کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے جائیں گے۔ بانی پی ٹی آئی خود اس حوالے سے خاصے پرعزم تھے ،لیکن پی ٹی آئی کی تین حکومتوں کے دوران جو بھی بلدیاتی نمائندوں کاماڈل سامنے آیا کامیاب نہ ہو سکا اور صوبائی حکومت نے اختیارات اپنے پاس ہی رکھے۔ موجودہ حکومت بھی اپنے پیشروؤں کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ بلدیاتی نظام قائم تو ہے لیکن اختیارات کچھ بھی نہیں۔ اربوں روپے کے اخراجات کرکے بلدیاتی انتخابات کروائے گئے، ناظمین اور کونسلر چنے گئے لیکن گزشتہ تین سالوں کے دوران انہیں فنڈ نہیں ملے۔ عوام کو گلہ ہے کہ ایک طرف ناظمین کے پاس کوئی اختیار نہیں تو دوسری جانب وزرا کسی کو ملنے کو تیار نہیں۔
علی امین گنڈاپور کی کابینہ کو گزشتہ دو حکومتوں کے مقابلے میں سب سے کمزور کہنا بے جا نہ ہو گا۔ اس کابینہ میں نئے افراد کو شامل کیاگیا ، جن کا کوئی تجربہ نہیں ،بیشتر وزرا اورمعاونین خصوصی پر مختلف الزامات بھی لگے جن کی انکوائری اینٹی کرپشن کی جانب سے کی جارہی ہے۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو صوبے میں اپنی حکومت کاقبلہ درست کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنی کابینہ کو مضبوط کرنا ہوگا اورتجربہ کار افراد کو آگے لاناہوگا ورنہ حکومت کے معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے اور علی امین گنڈاپور کی ٹیم کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ وزرا تو ہیں لیکن انہیں محکمے چلانے کا کوئی تجربہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت ابھی تک کوئی بڑاترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کرسکی۔ فی الوقت دوسرے صوبوں کے ساتھ مقابلہ تو کیاجارہا ہے وہاں جو سکیمیں شروع ہوتی ہے کوشش ہوتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی ویسی سکیمیں شروع کی جائیں لیکن مالی مسائل آڑے آجاتے ہیں۔ مالی وسائل کو پورا کرنے کیلئے صوبائی حکومت وفاق سے بات چیت کرنے پر بھی تیار نہیں۔ حکومت کی جانب سے وفاق کوخطوط لکھے گئے ہیں لیکن باضابطہ طورپر کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ اگلے دو سے تین سالوں میں پی ٹی آئی کو بی آرٹی اور صحت کارڈ سے ہٹ کر کوئی بڑاترقیاتی منصوبہ شروع کرنا ہوگاتاکہ ووٹرز کو مطمئن کیاجاسکے۔