سندھ میں تعلیم کی صورتحال پر سوالیہ نشان
نیا سال شروع ہوچکا لیکن سندھ کے حالات کاغذات میں تو شاید بدل رہے ہوں لیکن زمینی حقائق تبدیل ہوتے نظر نہیں آرہے۔ صوبے کا ہر شعبہ برق رفتاری سے تنزلی کے مراحل طے کر رہا ہے۔
انہی میں سے ایک شعبہ تعلیم ہے، جو آج کل خبروں کی زد میں ہے اور صوبے میں انٹرمیڈیٹ کے نتائج پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ مختلف شہروں کے نتائج دیکھ کر تو دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ محکمہ تعلیم بھی عجیب و غریب وضاحتیں دے رہا ہے۔تین بڑے شہروں کے نتائج کا موازنہ کریں تو کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے نتائج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔انٹر میڈیٹ کانتیجہ حیدرآباد میں 93فیصد، سکھر میں 80فیصد اور کراچی میں 30سے 35فیصد کے درمیان رہا۔چیئرمین انٹربورڈ کراچی شرف علی شاہ کے مطابق میٹرک کے بعد طلبہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں، ہاتھ میں موبائل فون، کلاسز سے غیر حاضری، پرچوں میں جوابات کی جگہ محبت نامے اور گانے لکھتے ہیں۔ ایک اور پتے کی بات انہوں نے یہ بتائی کہ سلیبس میں تبدیلی اور درسی کتابوں کی تاخیر سے بھی کراچی میں نتائج خراب آئے۔ ان کی بات سن کر دل کو تسلی ہوئی کہ کراچی کے طلبہ تو میٹرک کے بعد خراب ہوگئے لیکن شکر ہے کہ حیدرآباد اور سکھر کے طلبہ نے نہ موبائل فون کا استعمال کیا، نہ کلاسوں سے بھاگے اور سلیبس کی تبدیلی یا کتابوں کی تاخیر کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ کراچی کے اساتذہ اور طلبہ دونوں سلیبس کو نہ سمجھ سکے لیکن اندرون سندھ ذہانت نے ڈیرے ڈال دیے۔ انہوں نے کراچی کے طلبہ پر ایک اور احسان بھی کرڈالا کہ اگر کوئی بچہ پرچے کی سکروٹنی کروانا چاہتا ہے تو آدھی فیس جمع کرانی ہوگی، یعنی ایک پرچے کے 500روپے۔ قارئین کیلئے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ سکروٹنی کا مطلب پرچے کی دوبارہ چیکنگ نہیں،صرف پرچے پر درج نمبروں کو دوبارہ شمار کیا جاتا ہے اور اگر مجموعی نمبروں میں کمی ہو تو بڑھا دیے جاتے ہیں۔ کیا شاندار چیکنگ کا نظام ہے۔ جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ نے نتائج کو کراچی کے طلبہ کے ساتھ بدترین زیادتی قرار دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر کے مطابق کراچی میں میٹرک کا پوزیشن ہولڈر انٹر کے امتحانات میں سپلی کا حق دار ٹھہرا۔ متحدہ کے فاروق ستار بولے، صوبے میں بدعنوانی اور نااہلی کا دور دورہ ہے، تعصب انتہا پر ہے، کراچی میں نتائج خراب اور اندرون سندھ بہتر کیے جارہے ہیں۔ اسمبلی میں بھی ایم کیو ایم کے اراکین نے شدید احتجاج کیا۔ صوبائی حکومت پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ کراچی اور دیگر شہروں کیلئے الگ الگ پرچے بنائے جاتے ہیں۔
صوبائی وزیر پارلیمانی امور و داخلہ ضیاالحسن لنجار نے اپوزیشن سے درخواست کی ہے کہ مل بیٹھ کر معاملہ حل کرلیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی شہری یا دیہی کا فرق نہیں کرتی۔ ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے کہا کہ تعلیم کے معاملے پر ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سیاست کررہی ہیں، وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے، کمیٹی بنادی گئی ہے جو تحقیقات کرے گی۔ گزشتہ سال بھی کمیٹی بنی تھی، تحقیقات بھی ہوئیں لیکن اس سال پھر وہی ہوا۔ اگر نتائج کی تفصیلات یہاں لکھی جائیں تو قارئین حیران ہوں گے کہ کراچی کے طلبہ و طالبات کو کیا ہوگیا ہے۔ ایسا بدترین نتیجہ، واقعی کراچی میں طلبہ بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں اور اگر نتائج کی یہی شرح رہی تو زیادہ نہیں صرف چند برس میں کراچی سے تعلیم کا نام و نشان مٹ جائے گا اور وہ شہر جو کبھی تعلیم، سیاست اور صنعت و حرفت کا محور ہوا کرتا تھا، نشانِ عبرت ہوگا۔ یہ کوئی غلطی ہے یا ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے الزامات کے مطابق دانستہ کوشش، اس کا جواب غیر جانبدار تحقیقات سے ہی ممکن ہے اور بے حد ضروری بھی!
اندرون سندھ کا ذکر کریں تو ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں لیکن ڈاکوؤں کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکوؤں نے حال ہی میں اغوا کیے گئے تین افراد کی ویڈیو جاری کی ہیں، مغویوں کے مطابق ڈاکوؤں نے 50لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے، نہ ملنے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی گئی ہے۔ حکومت کو اغوا کی وارداتوں میں کمی اور ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ڈاکوؤں نے بعض علاقوں میں عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں 2024ء میں کتے کے کاٹے کے تین لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ اموات بھی درجنوں میں ہیں، صوبہ بھر میں آوارہ کتوں کی بھرمار ہے اور انہیں تلف کیے جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ حکومت اس سلسلے میں گومگو کا شکار نظر آتی ہے لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ حکومت کتا مار مہم کی جگہ کتا پکڑ مہم شروع کردے اور آوارہ کتوں کو کسی ایک جگہ پر رکھے، ویکسی نیشن کروائے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام کرے، جس طرح ترکی میں میونسپلٹی کرتی ہے جہاں کتوں اور بلیوں کو سرکاری طور پر دیکھ بھال کی سہولت میسر ہے۔کراچی ہی میں چند روز قبل ایک اور بچہ کھلے گٹر میں گر کر جاں بحق ہوگیا اور اس کے بعد ہر طرف ہاہا کار مچ گئی، الزامات کا ڈھیر لگا دیا گیا، رہی سہی کسر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے اس بیان نے پوری کردی کہ گلی محلوں کے گٹروں کے ڈھکن کی نگرانی ان کا کام نہیں ، ڈھکن چوری ہوجاتے ہیں، اگر کباڑیے ڈھکن کا سریا نہ خریدیں تو چوری بند ہوجائے۔ اگر مرتضیٰ وہاب کی بات مان لیں کہ ڈھکن لگانا یا نگرانی ان کا کام نہیں تو وہ بتادیں کہ پھر کس کا کام ہے، نشاندہی بھی کریں اور ضروری اقدامات بھی کیونکہ وہ سندھ حکومت کے بھی اور بلاول بھٹو کے بھی ترجمان ہیں ،جن کی حکومت کا صوبہ سندھ پر چوتھا دور ہے!