مغرور شہزادی

تحریر : اقصیٰ چو ہدری


یہ قصہ ہے ایک شہزادی نامی لڑکی کا، جو ایک حویلی میں رہتی تھی۔ حویلی کی اکلوتی وارث یعنی سردار احمد خان کی اکلوتی بیٹی کا اصل نام گل بخت تھا۔ اس کا نام شہزادی حویلی کی خادمائوں نے رکھا تھاجو وہ آپو میں استعمال کرتی تھیں۔ وہ گل بخت کو شہزادی اس لئے کہتی تھیں کہ ان کے خیال میں گل بخت کے انداز شاہانہ تھے۔ وہ کہتیں ’’ شہزادی تو ابھی سے ایسی ہیں، نجانے بڑی ہو کر کیا کرے گی‘‘۔ دوسری کہتی’’ اپنی ماں پر جائیں گی‘‘، تیسری کہتی ’’ پوری ماں کی کاپی ہیں، وہ بھی ایسے ہی حکم چلاتی تھیں ‘‘۔

شہزادی کی عمر آٹھ سال تھی جب اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ شہزادی نے محسوس کیا کہ ابا جان حویلی کے کاموں میں پہلے کی طرح دلچسپی نہیں لیتے۔ ہر وقت کھوئے کھوئے رہتے ہیں لہٰذا گل بخت جو اب دس برس کی ہو چکی تھی نے حویلی کے سارے کام اپنے ذمے لے لئے۔ ماں سے ورثے میں ملنے والا غصہ،غرور، حکم چلانے کی عادت، کام وقت پر نہ ہونے پر چیخنے چلانے نے سب کو دن میں تارے دکھانا شروع کر دیئے۔

دھیرے دھیرے گل بخت کا رویہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا۔ ایک بارگل نے دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ خادمہ اپنی بیٹی سے سر کی مالش کروا رہی ہے، بس پھر کیا تھا، دس سال کی گل بخت نے پوری حویلی کو سر پہ اٹھا لیا اور خادمہ کو سخت باتیں سنائیں، ’’ ہم جانتے ہیں کہ آپ اس حویلی کی پرانی ملازمہ ہیں ، حویلی کے سو کام پڑے ہیں، وہ کرنے کے بجائے آپ مالش کروا رہی ہیں، اس کی آپ کو سزا دی جائے گی‘‘ گل بخت نے غصے سے کہا۔

’’ ہم معافی چاہتے ہیں، آئندہ ایسا نہیں ہوگا‘‘ پرانی خادمہ ہاتھ جوڑ کر گڑ گڑانے لگی۔’’ بس ہم آگے ایک بات نہیں سنیں گے، اناج خانے میں جتنی اناج کی بوریاں ہیں، ان کا اناج آپ کو اکیلے چکی میں پیسنا ہوگا‘‘، گل نے سزا سنائی تو خادمہ کے چہرے کی رنگت ہی بدل گئی۔ شہزادی کو بخوبی معلوم تھا کہ خادمہ کی بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان نہیں رہی لیکن اس نے جان بوجھ کر انہیں یہ سزا دی تھی۔

یہی نہیں اگر کسی دن گل بخت کی سکول کی سہیلیوں کی حویلی میں دعوت ہوتی تو بھی بیچارے ملازمین کی جان عذاب میں مبتلا ہو جاتی تھی۔ شہزادی کھانے کی لمبی فہرست خانساماں کو تھما دیتی اور اسے ہر صورت میں کھانے کی میز پر سارے کھانے تیار چاہئے ہوتے۔ پچھلی مرتبہ خانساماں کی طبیعت خراب تھی اور وہ کچھ ہی کھانے پکا سکا لیکن شہزادی نے رحم کھائے بغیر اسے ملازمت سے فارغ کردیا۔

خادم اور خادمائیں اب سردار کے پاس شکایتیں لے جا کے بھی تھک چکے تھے۔ اب تو الٹا انہیں گل بخت سے ڈر لگتا کہ وہ ان کی شکایتیں لگاتے ہیں۔ ایک دو بار بابا جانی نے اپنی بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔’’بابا آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ ان کو کچھ نہیں کہتے، میں بھی کچھ نہ کہوں، ایسے تو یہ سر چڑھ جائیں گے۔ آپ کو یاد نہیں، امی جان ان سے کیسے کام کرواتی تھیں‘‘۔

’’آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے گل لیکن آپ کو یاد نہیں میں آپ کی امی جان کو بھی یہی بات سمجھایا کرتا تھا کہ ملازموں کو ڈانٹنا، ان کے ساتھ برا سلوک کرنا اچھی بات نہیں۔پیاری بیٹی ہمیں ہر وقت غریبوں ، مسکینوں کی آہ سے ڈرنا چاہئے۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ آپ بے وجہ ہی خادموں پر چیختی چلاتی ہیں۔ یہ عمر آپ کی اپنی پڑھائی پر توجہ دینے کی ہے ناکہ اس طرح کا ردعمل ظاہر کرنے کی‘‘ بابا اسے سمجھاتے۔

 دن یوں ہی گزرتے رہے، نویں جماعت کے داخلے شروع ہوئے تو بابا جانی نے گھر کی سب سے پرانی ملازمہ نوری کی بیٹی کو بھی محلے کے سکول سے نکال کر شہزادی کے ساتھ داخلہ دلوا دیا۔ شہزادی کو معلوم ہوا تو اس نے بابا جان سے پوچھے بغیر نوری کی بیٹی کو سکول سے نکلوا دیا۔ اس دن بابا کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا ۔’’ یہ میں نے کیا سنا ہے گل؟ میں نے نوری کی بیٹی کو آپ کے سکول میں داخل کروایا، آپ نے اسے نکلوا دیا اور میڈم سے یہ کہا کہ میں نے آپ سے کہا ہے‘‘، بابا جان قدرے غصہ سے بولے۔

’’آپ نے ٹھیک سنا ہے ابا! آپ نے  خادمہ کی بیٹی کو میرے سکول میں داخل کیوں کروایا۔ آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر ہماری برابری کرے۔ اگر نوری کی بیٹی میرے سکول میں پڑھے گی تو میں سکول نہیں جائوں گی‘‘، شہزادی نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

 بابا جان سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ دھیرے دھیرے گل بخت کا رویہ خراب تر ہو رہا تھا۔ وہ کسی انسان کو اپنے برابر خیال نہیں کرتی تھی۔ ابا جان نے اس دن خاموشی اختیار کی اور نوری کی بیٹی کو دوسرے سکول میں داخل کروا دیا۔

ایک رات کا ذکر ہے، شہزادی اپنی آرام گاہ میں آرام کر رہی تھی کہ اس نے ایک خواب دیکھاکہ ایک محل ہے، جہاں دستر خوان بچھا ہے اور خوش لباس خادم اور خادمائیں کھانا کھا رہے ہیں اور ان کے سامنے ایک شہزادی کھڑی ہے، وہ شہزادی کوئی اور نہیں بلکہ نوری کی بیٹی ہے۔ شہزادی کے عقب سے ایک شہزادہ نمودار ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹوکری ہے، جس میں خوبصورت اور دیدہ زیب جوڑے ہیں، جنہیں شہزادہ ایک ایک کرکے تقسیم کرتا جاتا ہے۔ 

اس کے بعد گل بخت کیا دیکھتی ہیں کہ شہزادہ اور شہزادی ملازموں کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ جاتے ہیں، ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ شہزادی کہتی ہے ’’ میرے عزیز ساتھیوْ! مجھے ہر پل یہ احساس دلانے کا بہت شکریہ کہ میں اس محل میں اکیلی نہیں، مجھے ہر وقت آرام سکون اور راحت فراہم کرنے کا شکریہ، میری پسند ، نا پسند کا خیال کرنے کا شکریہ، میں آپ کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔ میں اور شہزادہ ہر وقت اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہمارے کسی بھی قول و فعل سے آپ لوگوں کی دل آزری نہ ہو، میں یہ اعلان کرتی ہوں کہ میں آپ سب کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کروں گی، بالکل ویسے جیسے بڑے صاحب نے میری تعلیم کا انتظام کرکے مجھے یہ مقام دلایا‘‘ ۔سامنے بیٹھے خادم اور خادمائیں انہیں دعائیں دینے لگتے ہیں۔ 

گل بخت کی آنکھ کھل جاتی ہے، وہ اپنے بابا کے کمرے کا رخ کرتی ہے۔ بابا اسے رات گئے اپنے کمرے میں دیکھ کر چونک جاتے ہیں اور اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں۔ گل ان کو پورا خواب سناتی ہے اور ساتھ ہی یہ عہد کرتی ہے کہ وہ آئندہ کبھی نوکروں کے ساتھ برا برتائو نہیں کرے گی۔ گل کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے۔ اگلی صبح وہ سب سے معافی مانگتی ہے اور یہ یقین دلاتی ہے کہ آئندہ کسی کے ساتھ برُا برتائو نہیں کرے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔