دلدار پرویز بھٹی
اسپیشل فیچر
دلدار پرویز بھٹی مرحوم اپنی ہی طرز کے آدمی تھے۔ سراپا فنکار‘ بے ساختہ اور برجستہ جملہ کہنے میں اپنی مثال آپ۔ خاص طور پر پنجابی پروگرامز کی کمپیئرنگ میں بے بدل‘ ’ٹاکرا‘ اور ’پنجند‘ ان کے یادگار پروگرام تھے۔ گفتگو پر انہیں اس قدر دسترس تھی کہ ”اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں“۔ دلدار کمپیئر اور فنکار ہی نہیں کالم نگار بھی تھے۔ آمنے سامنے ان کے کالموں کا مجموعہ بھی چھپا تھا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل کہ انہوں نے بھی مجھ سے پندرہ سال پہلے میرے انگریزی ڈیپارٹمنٹ یونیورسٹی آف دی پنجاب سے ایم اے انگریزی کیا تھا۔ مزے کی بات تو یہ کہ وہ اپنی تمام تر پنجابیت کے باوجود انگریزی بھی اچھی خاصی جانتے تھے۔ مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب وہ چائینیز وفد کی آمد پر اتنی روانی سے انگریزی بول رہے تھے اور ادیب شاعر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدن کی مثال بنے ہوئے تھے۔ اصل میں دلدار ورسٹائل تھے۔ آپ کو اچنبھا ہوگا کہ انہوں نے کئی اردو نظموں کے انگریزی تراجم کیے تھے۔ میں نے بنفس نفیس ان کے گھر بیٹھ کر ان سے یہ ترجمے سنے۔ اس دن وہ بہت دانشورانہ اور شاعرانہ باتیں کرتے رہے۔ جب میں اجازت مانگ کر باہر آیا تو میری موٹر سائیکل باہر دھوپ میں کھڑی تھی۔ میرے پیچھے پیچھے دلدار پرویز بھٹی لوٹا پکڑے آ رہے تھے۔ انہوں نے گرم سیٹ پر پانی بہانا شروع کیا کہ ٹھنڈی ہو جائے۔ یہ دلداری دلدار کو اور بھی طرح دار بناتی تھی۔ ایک دفعہ منو بھائی سے دلدار نے پوچھا تھا کہ ”منو بھائی آپ کو ہماری بھابھی گھر میں کیا کہہ کر پکارتی ہے“ منو بھائی نے برجستہ کہا ”میری بیوی مجھے کہتی ہے اے مرے دلدار“۔ غالباً ۱۹۹۰ءکی بات ہے میرے شعری مجموعے ”تمہی ملتے تو اچھا تھا“ کی تقریب رونمائی انٹرنیشنل ہوٹل میں ہو رہی تھی۔ ہمیں ٹی وی سٹیشن سے ہوٹل آنا تھا۔ چھوٹے بھائی ثناءاللہ شاہ نے دلدار پرویز کو دیکھتے ہی آہ بھری کہ اے کاش اس تقریب کی میزبانی وہ کرتے۔ میں نے کہا عقل کی بات کرو وہ ایک بڑے فنکار ہیں اور پھر ان کا نام تو دعوتی کارڈ میں بھی نہیں۔ دوستوں کے اصرار پر میں نے ڈرتے ڈرتے دلدار صاحب سے درخواست کر دی اور حیرت زدہ رہ گیا کہ وہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ترنم ناز اور زبیر تاری کو اپنی گاڑی میں بٹھا لیا کہ انہیں وہاں میری غزل پیش کرنا تھی۔ اصل بات میں اب بتاﺅں گا کہ وہاں تقریب سے پہلے احمد ندیم قاسمی‘ منیر نیازی‘ شہزاد احمد‘ قتیل شفائی ‘ امجد اسلام امجد اور دوسرے دوست لابی میں ہی چائے کے لیے بیٹھ گئے۔ خلیج کی جنگ کے حوالے سے باہر کوئی جلوس تھا۔ جس کے باعث ہمیں تقریب پوسٹ پون کرنا پڑی۔ میں مہمانوں کے پاس کھڑا تھا۔ دلدار آئے اور کہنے لگے ”سعد! چائے کا بل Repeatنہ کرنا“ میں ہکا بکا رہ گیا اور عرض کیا” دلدار صاحب یہ سب میرے مہمان ہیں“۔ انہوں نے مجھے فقرہ مکمل نہیں کرنے دیا اور کہا ”تم میرے بھائی ہو‘ بس“۔ ایسی مہربانیاں وہ اکثر دوستوں کے ساتھ کرتے تھے۔ ان کی وفات پر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔ وہ معلوم نہیں کتنے ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے۔ جب وہ چلڈرن کمپلیکس کے ڈائریکٹر تھے۔ ایک غریب بچہ ان کے پاس ملازمت کے لیے آیا وہ ایف اے کا طالب علم تھا۔ دلدار صاحب نے کہا ٹھیک ہے تمہاری نوکری تین ہزار روپے پکی مگر تم نے دفتر میں آکر کام نہیں کرنا۔ سامنے لان میں بیٹھ کر ایف اے کی تیاری کرنی ہے۔ جب اس نے ایف اے کر لیا تو دلدار نے کہا جاﺅ بی اے میں داخلہ لے لو۔ پتہ چلا کہ نوکری ووکری کوئی نہیں تھی۔ دلدار اسے جیب سے تین ہزار روپے دیتے رہے۔ اب ”ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے“۔