سلیم خاں گمی
سلیم خاں گمی سینٹرل پروڈکشن یونٹ میں ڈپٹی کنٹرولر تھے۔ اپنی نوعیت کے منفرد آدمی۔ قد چھوٹا مگر چاق و چوبند اور متحرک شخصیت کے مالک۔ ان کے بیٹے توقیر خاں گمی گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز میں میرے کولیگ بھی رہے اور ان کی بیٹی شگفتہ جو ٹی وی پروگرام عکس در عکس کرتی رہی میری شاگرد بھی رہی۔ وہ میری انگریزی سے متاثر تھے۔ ان دنوں کی بات ہے جب میں پاکستان ٹائم اور فرنٹئیر پوسٹ میں بھی لکھ رہا تھا۔ ایک دن میں ان کے گھر آیا تو انہوں نے میرے ہاتھ میں اپنا پنجابی کا ناول ’سانجھ‘ پکڑا دیا اور کہنے لگے ’’شاہ جی اس کا ترجمہ کرنا ہے‘‘ میں نے ناول کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔و ہ دوبارہ گویا ہوئے ’’کب تک مل جائے گا‘‘۔ یہ ترجمہ پنجابی سے انگریزی میں کرنا تھا۔ میں نے جواب دیا ’’پرسوں مل جائے گا‘‘۔ میرا جواب سنتے ہی انہوں نے اپنا ناول میرے ہاتھوں سے اچک لیا اور کہا ’’آپ اس بارے میں سیریس نہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’قبلہ آپ بھی تو سیریس نہیں ہیں‘‘۔ ان کے ساتھ ہماری چھیڑ چھاڑ چلتی تھی۔ ان دنوں ناہید شاہد بھی ریڈیو میں پروڈیوسر تھے۔ سلیم خاں گمی کی ان کے ساتھ بھی بیٹھک تھی۔ گمی صاحب کا ایک انداز تھا کہ وہ ٹیبل پر آتے ہوئے اپنا گولڈ لیف کا پیکٹ پھینکتے اور جاتے ہوئے دوسرے کا پیکٹ غلطی سے اٹھا لے جاتے۔ ناہید شاہد نے انہیں واچ کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے ایک دن اپنا پیکٹ جس میں اکثر ایک ہی سگریٹ ہوتا تھا میز پر پھینکا اور رخصت ہوتے ہوئے دوسرے کا یعنی ناہید شاہد کا پیکٹ اٹھا لیا تو ناہید شاہد نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ آپ کا پیکٹ وہ پڑا ہے۔ گمی صاحب نے کہا ’’اوہ بے خیالی میں مغالطہ ہوگیا!‘‘ناہید شاہد نے کہا ’’سر یہ تیسرا مغالطہ ہے‘‘۔ ایک روز مجھے ملے تو کہنے لگے۔ فریدہ خانم کے گھر جانا ہے۔ میرے پاس موٹر سائیکل ہوتی تھی۔ میں انہیں کیا جواب دیتا۔ چنانچہ وہ میرے ساتھ بیٹھ گئے اور ہم فریدہ خانم کے گھر چلے گئے۔ انہوں نے کئی پیغام اندر پہنچائے مگر ہر مرتبہ یہی پتہ چلا کہ وہ سورہی ہیں۔ بے نیل و مرام ہم ریڈیو سٹیشن واپس آگئے۔ CPU کے کنٹرولر صاحب باہر ہی کھڑے تھے۔ کہنے لگے ’’گمی صاحب! کہاں شاہ صاحب کے ساتھ گھوم رہے ہیں آپ؟‘‘ گمی صاحب نے کہا ’’کنٹرولر صاحب! آپ کو تو پتہ ہے کہ میری کسی نہ کسی سواری والے کے ساتھ دوستی ضرور ہوتی ہے‘ میرے پاس کنوینس جو نہیں‘‘۔ مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی میں نے آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا ’’کنٹرولر صاحب میری موٹر سائیکل خراب رہتی ہے اور مجھے موٹر سائیکل کو دھکا لگوانے کے لیے ہمیشہ ایک بندے کی ضرورت رہتی ہے‘‘۔ اس کے بعد تو کنٹرولر صاحب ہنس ہنس کر دہرے ہوگئے اور گمی صاحب شرمندہ اور پھر مجھے ایسے دیکھا کہ آئندہ میری غزل ریکارڈ نہیں ہوگی مگر انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ یہ کمال کے لوگ تھے۔ ٹیلنٹ ڈھونڈتے‘ چاہے انہیں وہاں بھی کیوں نہ جانا پڑے جہاں شریف آدمی کو نہیں جانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے شعبے میں بہت ذہین و فطین سمجھے جاتے تھے اور وہ میوزک سے بہت زیادہ واقفیت رکھتے تھے۔ مگر وہ عام معاملات میں کچھ منفرد تھے مثلاً نسرین انجم بھٹی اور شائستہ حبیب لوگ کبھی کھانا کھانے بیٹھتے تو گمی صاحب وہاں آ جاتے۔ نسرین انجم بھٹی نے انہیں ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ وہ پرہیزی کھانا کھاتی ہیں۔ گمی صاحب نے ان کی اے سی آر میں لکھ دیا کہ وہ السر کی مریضہ ہیں۔ بہرحال ان کا پنجابی ناول میں ایک اہم مقام ہے۔ ’سانجھ‘ اور ’رت تے ریتو‘ غالباً ان کے پہچان ناول ہیں۔ ان دنوں معلوم نہیں وہ کہاں ہیں۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔ ان دنوںان کی سرکردگی میں مجاہد حسین نے میرا مشہور نغمہ کمپوز کیا جسے معروف شاعر اور پروڈیوسر ستار سید نے منتخب کیا اور ترنم ناز اور رجب علی نے دو گانہ گایا تھا:جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھاتمہی کو ہم نے چاہا تھا‘ تمہی ملتے تو اچھا تھا