نیکی اور بدی کی پہچان کیسے ہوتی ہے
اسپیشل فیچر
’’حضرت نواس بن سمعانؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جوتمہارے من میںکھٹکے اور لوگوں کو اس کی اطلاع ہونا تجھے اچھا نہ لگے‘‘۔ وابصہ بن معبدؓ نے کہا کہ ’’ میں نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا ’’تم نیکی کے بارے میں پوچھنے کیلئے آئے ہو؟ میں نے کہا ’’جی ہاں!‘‘ اس پر آپﷺ نے فرمایا ’’ اپنے دل سے فتویٰ پوچھ، نیکی وہ ہے جس پر نفس(من) میں اطمینان ہو اور اس پر دل مطمئن ہو جائے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور سینے میں بے چینی ہو اگرچہ (مفتی) لوگ تجھے (اس کیلئے جائز ہونے کا) فتویٰ دے دیں۔‘‘اس حدیث میں بر (نیکی) کا جو تصور دیا گیا،وہ بہت وسیع ہے اس میں حقوق اللہ، حقوق العباد اور حقوق النفس سب شامل ہو جاتے ہیں۔ امام نوویؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی کی کتنی ہی قسمیں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 177 میں بیان کی ہیں۔’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کرو بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ، یوم آخرت، ملائکہ، اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں اور اس کے پیغمبروں کودل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں پر، مدد کیلئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے،نمازقائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں، حق اور باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی متقی لوگ ہیں‘‘۔(البقرہ 177:)ابن دقیق العید (م702ھ) حسن اخلاق کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:’’حسن اخلاق سے مراد معاملات میں انصاف کرنا، برتائو میں نرم خوئی کرنا، فیصلوں میں عدل اور احسان کرنا ہے‘‘۔اس کے بعد اس نے قرآن مجید کی درج ذیل سورتوں اور آیتوں کے حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ نیکی اور نیکی کے عمل معلوم کرنے کیلئے ان کا مطالبہ کیا جائے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوںکی صفات کھول کر بیان کی ہیں: سورۃ انفال آیت 3 سے 4 تک، سورۃ توبہ آیت 112، سورۃ المومنون آیات 1 تا 10 اور سورۃ فرقان آیات 63 تا 77۔یہ حوالے دینے کے بعد یہ بزرگ لکھتے ہیں:’’جس شخص کو اپنے نیک ہونے اور اپنی نیکی کا جائزہ لینا ہو تو ان آیات کو معیار (کسوٹی) بنا کر اپنے آپ کو پرکھے اگر اس میں یہ تمام صفات ہیں تو مکمل حسن خلق کا پیکر ہے اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے توہ مکمل سوء الخلق (بداخلاق) ہے۔ مومن کو چاہیے کہ ان میں سے جو صفات اس میں موجود ہیں، ان کی حفاظت کرے اور جو نہیں ہیں، ان کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے اور یہ بھی کوشش کرے کہ آج کا دن کل گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو‘‘۔اس حدیث میں دوسری اہم بات یہ بتائی گئی ہے کہ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے ہر انسان کی فطرت میں ضمیر نام کا ایک قاضی رکھا گیا ہے۔ یہ قاضی یعنی ضمیر اگر ماحول، بداعمالیوں اور بدکرداریوں کی وجہ سے مرا نہیں ہے تو ہر انسان کو کوئی کام کرنے سے پہلے بتا دیتا ہے کہ یہ کام اچھا ہے یا برا ہے، نیکی کا ہے یا بدی کا اور ثواب کا باعث بنے گا یا عذاب کا سبب ہوگا، لہٰذا انسان باہر کے مفتیوں سے پوچھنے سے پہلے اندر کے مفتی سے فتویٰ لے۔ یہی بات آپ ﷺ نے وابصہؓ کو ارشاد فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اگرچہ تمہیںکسی کام کا جائز اور حلال ہونے کا فتویٰ دیں لیکن اصل فتویٰ ضمیر کا ہے بس شرط یہ ہے کہ ضمیر زندہ ہو، صحیح و سلامت اور ایمان والا ہو۔ایک روایت میں آیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:’’تم کوئی کام کرنے کا ارادہ کرو تو پہلے تین باتیں پوری کرلو۔ اول وہ کام کرنے سے پہلے اپنے دل کی حالت دیکھو اور اگر یہ مطمئن نہیں ہے تو یہ کام نہ کرو کیونکہ میں جب منع کردہ درخت کی طرف گیا تو میرا دل بے چین ہوگیا۔ دوم: اس کام کی عاقبت اور انجام کو دیکھو، میں اگر ممنوعہ درخت کے پھل کھانے کے انجام کو دیکھتا تو اسے ہرگز نہ کھاتا۔ سوم: اس کام کے بارے میں اچھے اور نیک لوگوں سے مشورہ کرو، اگر فرشتوں سے مشورہ کرتا تو وہ لازماً اس کے نہ کھانے کا مشورہ دیتے‘‘۔آپﷺ کا یہ فرمانا’’گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میںکھٹکے اور لوگوں کو اس کی اطلاع ہونا تمہیں اچھا نہیں لگے‘‘ اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اسلام لوگوں میں اجتماعی شعور بیدارکرتا ہے۔ اور لوگوں کو نیکی اور بدی کا تصور ذہن نشین کراتا ہے تاکہ وہ لوگ اچھے کام کو اچھا کہیں، برے کو برا کہیں اور انہیں اچھائی اور نیکی کے کام سے خوشی و اطمینان ہو اور مجموعی معاشرے کی طرف سے اچھائیوں کی ہمت افزائی اور پشت پناہی ہو۔ نیز برائی کرنے والوںکو شرم آئے اور لوگوں کی طرف سے لعن طعن اور گرفت کا خوف رہے۔حدیث میں آمد لفظ ’’الناس‘‘ یعنی لوگوں سے مراد اچھے اور نیک لوگ ہیں جن میں نیکی و بدی کا شعور اور اللہ و رسولﷺ پر ایمان ہو اور ایسے باوقار و سنجیدہ ہوں کہ ان کی سوچ صحیح ہو اور ان کی رائے کو وزن ہو۔ برے، مجرم، بے ضمیر اور ہلکے لوگ نہ ہوں۔ کسی نسلی، لسانی، گروہی، مسلکی اور قومی مصیبت اور شرک و کفر میں مبتلا نہ ہوں لیکن اگر یہ بری صفات کے حامل ہیں تو پھر ان کی رائے کا کوئی وزن نہیں ہے۔’’اگرچہ (مفتی) لوگ تجھے اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیں۔ اس سے ایسی باتیں اور کام مراد ہیں جن میں شک اور شبے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہونے کا فتویٰ نہ دیا جاسکے۔ جیسے تمہارے پاس کسی ایسے آدمی کے پاس سے ہدیہ اور تحفہ آئے جس کی اکثرکمائی حرام کی ہے۔ مفتی کی طرف سے ایسا ہدیہ قبول کرنے کے جواب کا فتویٰ ملے گا لیکن انسان کا ضمیر مطمئن نہیں ہوگا۔ لہٰذا مومن کا محتاط کردار یہ ہے کہ اس ہدیے کو قبول نہ کرے یا قبول کرے تو اسے استعمال میں نہ لائے اگرچہ مفتی کا فتویٰ جواب پر ہی ملا ہے۔اس حدیث سے زندگی کے ہر معاملے اور کام میں رہنمائی لی جا سکتی ہے اور آدمی شریعت کے حکم پر عمل کرنے میں تاویلوں، بہانوں اور عذرات سے بچتے ہوئے پاکیزہ زندگی آسانی سے گزار سکتا ہے۔٭٭٭