عرب عورت کے بھیس میں کفرا کی جانب سفر
اسپیشل فیچر
روسیٹا فوربس نوجوان اور دل کش مطلقہ تھی… مہم جوئی کے خطرات سے گھبرانے والی نہیں تھی۔ اُس نے بے آب صحرا میں اپنا سفر ایک عرب خاتون کی حیثیت سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصدکے لیے اس نے عربی زبان سیکھی، قرآن پاک کا مطالعہ کیا۔ اور اسلامی رسم و رواج سے آگاہی حاصل کی۔ تاکہ وہ صحیح معنوں میں ایک عرب خاتون کا روپ دھار کر منظر عام پر آسکے۔ اس نے کھانے پینے، اُٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، لباس زیب تن کرنے اپنے تمام تر کاموں میں عرب خواتین جیسا انداز بھی سیکھا، اپنا نام خدیجہ رکھا۔ اور خود کو ایک مصری تاجر عبد اللہ فہمی کی بیٹی بتایا اور یہ ظاہر کیا کہ وہ حال ہی میں بیوہ ہوئی تھی۔روسیٹا فوربس نے پہلی بار کفرا کے بارے میں اس وقت سنا تھا جب وہ 1919 میں صحرا کا سفر طے کررہی تھی۔احمد حسنین بے اس کے سفر کا ساتھی تھا، جو مصر کے شاہ فواد کا چیمبر لین تھا۔ اس کے علاوہ وہ سینٹ مچل اور سینٹ جارج کا اس وقت نائٹ کمانڈر بھی تھا۔سینسی اسلامی اخوت کا ایک طاقت ور مقام تھا۔ اس علاقے پر سینسی خاندان کی حکومت قائم تھی۔ یہ مذہبی لوگ عیسائیوں اور ترکوں دونوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حق میں نہ تھے۔ ان کی قوت کا راز در حقیقت مشرقی سہارا کی وسعت میں پنہاں تھا۔19 ویں صدی کے آخر میں سینسی پسپائی اختیارکرتے ہوئے کفرا کے الگے تھلگ اور ناقابل رسائی مقام تک محدود ہوکر رہ گئے اور فرانس کے شمال مغربی افریقا میں نو آباد دیاتی فتح کے خلاف شدید مسلح مزاحمت کر رہے تھے۔ سینسی اپنی لڑاکا صلاحیتوں کی وجہ سے شہرت پاچکے تھے۔1918 میں سیدی محمد الادریس سینسی کا رہنما بنا، وہ امن پسند شخص تھا۔ اس نے برطانیہ اور اٹلی کے ساتھ معاہدے کیے، ساحل کے عقبی علاقے میں سینسی اثر و رسوخ کا چرچا تھا، اور ادریس کے الفاظ قانون کا درجہ رکھتے تھے۔مسز روسیٹا فوربس کسی قسم کی اتھارٹی کی عدم موجودگی میں کفرا کا سفر طے کرنا نہیں چاہتی تھی۔ شمالی افریقا کے سفر کے دوران ان دونوں نے اٹلی کے راستے سفر اختیار کیا۔ جہاں پر امیر فیصل مقیم کو فرانسیسی حکام نے شام میں اس کے تخت سے معزول کرکے جلا وطن کردیا تھا۔ فیصل شریف مکہ تھا۔ اور اسلامی دنیا میں زبردست اثر ورسوخ کا حامل تھا۔اس نے امیر فیصل سے ملاقات کی جس نے اسے سیدی محمد ال ادریس کے نام ایک تعارفی خط دیا، اور یہ خط اس کے لیے انتہائی کار آمد ثابت ہوا۔مسز فوربس اور حسنین بذریعہ ریل گاڑی ٹیلپس کی جانب روانہ ہوئے دوران سفر گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ اور ان کو اپنے سامان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ انہیں اپنے سازو سامان کی واپسی کے لیے کافی جنگ لڑنا پڑی تھی۔ بن غازی پہنچنے کے بعد انہیں سینسی کے امیر ادریس سے ملاقات کرنی تھی۔ اور کفرا کے سفر کی اجازت لینی تھی۔ اسے اس سفر کی اجازت دینا امیر کا اپنا وقار دائو پر لگانے کے مترادف تھا۔ اس لیے ادریس اور اس کے بھائی کو اس سفر کی اجازت فراہم کرنا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ انہیں خفیہ طور پر بن غازی سے نکلنا تھا، کیوں کہ اگر اہل اٹلی کو ان کے ارادے کی خبر ہوجاتی تو وہ اسے بن غازی سے نکلنے ہی نہیں دیتے۔ وہ ڈجی ڈابیا کی جانب روانہ ہوئے، ایک عرب دیہات جو صحرا کے کنارے واقع تھا جہاں ادریس کا بھائی سید ردا سینسی قیام پذیر تھا ردا نے مسز فوربس کے ساتھ گرم جوشی اور دوستانہ انداز میں ملاقات کی، اور انتہائی راز داری کے ساتھ سفر کی تیاری میں اس کی معاونت کی۔سنسی کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ زندہ سلامت مقدس کفرا انہیں پہنچ سکتے۔ ان کو راستے میں ہی ہلاک کردیا جائے گا۔ یا پھر وہ صحرا میں ریت کے طوفان کی نذر ہوجائیں گے ورنہ بے آب صحرا میں پیاس سے دم توڑ دیں گے۔ بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ ان کے کیمپ میں گائیڈ عبداللہ ایک غدار ہے۔ ان کو ہلاک کرنے ذمے داری اس کو دی گئی ہے۔ ردا کے دو وفا دار خادم محمد اور یوسف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اور ردا نے ان کو سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ:۔’’اس مرد اور عورت کے تخفظ کے ذمے دار تم دونوں ہو‘‘چناں چہ وہ 8 دسمبر1920 کو رات کے اندھیرے میںڈی ڈابیا سے روانہ ہوئے۔سامان اونٹوں پر لدا ہوا تھا، ریت کے وسیع سمندر میں تقریباً دو میل فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کر رہے تھے۔ ان کی زندگی کا دار و مدار پانی پر تھا۔ کبھی وہ صحرا کے اس حصے میں محو سفر ہوتے جہاں کسی کنویں کا نام و نشان بھی نہ ہوتا اور کبھی آنکھوں کو اندھا کردینے والا طوفان ان کے اونٹوں کو بیمار کردیتا ۔ وہ بے خوابی کی حالت میں… دکھتے ہوئے پیروں کے ہمراہ 17 گھنٹے کا سفر طے کرتے ہوئے جب آبادی کے حامل علاقے میں پہنچے تو ان کو مخالفانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔دوران سفر ہی ان پر غدار کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ:۔کیا انہیں عبداللہ کو موت کے گھاٹ اُتار دینا چاہیے۔ اگر وہ یہ انتہائی اقدام اُٹھا لیتے تو ان پر کوئی الزام نہیں دھرتا۔ لیکن انہوں نے اس سے گریز کیا لیکن وہ محتاط ضرور ہوگئے تھے۔ عبداللہ کو اب اپنی موت واضح طور پر نظر آرہی تھی بالخصوص وہ محمد کی جانب سے متفکر تھا، جو اس کو گولی سے اُڑا دینے کے حق میں تھا۔