نافرمان قوموں کے عبرت ناک انجام
اسپیشل فیچر
قرآن مجید اِنسانیت کے واسطے ماضی ،حال اورمستقبل کاآئینہ دار ہے،جس میں نصیحت آمیزاورعِبرت انگیز واقعات موجود ہیں ۔قرآن کریم ہمیں تنبیہ کرتاہے کہ روئے زمین پروہ قومیں نشانِِ عبرت بنادی گئیں جنہوں نے فطرت کے متعین اُصولوں کا انکار کرکے اللہ پاک کے منتخب نمائندوں (رسولوں اور انبیائے کرام )سے بغاوت کی۔یہ قومیں مال ودولت ،عزت وثروت ،سلطنت وحکومت ،شان وشوکت ،طاقت وقوت میں اپنی مثال آپ تھیں ۔اُن جیسی قومیں دُنیا میں کبھی وجود میں نہیں آئی تھیں،مگر جب انہوں نے نظام قدرت کے خلاف بغاوت کرکے شہوانی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کواپنا نصب العین بنایا تووہ قومیںایسا نشانِ عبرت بنادی گئیں کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو بھی ان کی داستان عبرت سنائی ،تاکہ آنے والی نسلیں اپنی کام یابی کی منزلیں تلاش کرنے سے قبل ایک نظر ماضی کے ان صفحات عالم پر بھی ڈال لیں کہ کہیں تم بھی عزت کی معراج ان اشیاء کو نہ سمجھ لو جیسے ماضی کی برباد قوموں نے سمجھا تھا ،پھر ان کے ہاتھ سوائے ناکامی ونامرادی کے کچھ بھی نہ آیا ۔حکومت کام یابی کی علامت نہیں ہے ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ہی تمام کام یابیوںکا منبع ہے وہ فرعون ،نمرود ،شدّاد ،چنگیز ،ہلاکو ،سکندر اعظم کے انجام بھی دیکھ لیں کہ ان جیسی طاقت ورحکومتیں آج تک کسی کو میسر نہ آسکیں ،توکیا وہ حکمران کام یاب ہوگئے تھے؟فرعون سے اللہ نے نہ تو اُس کی حکومت چھینی اور نہ ہی اُس کی فوج ۔تمام طاقتیں ہونے کے باوجود اللہ پاک نے فرعون کودریابرد کیا ،صرف یہ بتانے کے لیے کہ دیکھ لو! اگر فرعون کو فوجوں اور نہ ختم ہونے والے لشکروں پر گھمنڈ تھا تو یہ سب مل کر بھی اسے غرق ہونے سے نہیں بچاسکے،فوج تو خود کو نہ بچا سکی توفرعون کوکیابچاتی؟بے شک فرعون کے انجام میں لوگوں کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے ۔حکومت حصولِ عزت کاذریعہ بھی نہیں،دیکھ لو نمرود کوکہ تخت نشین ہے اور ملک گیری کرنے والی سپاہ بھی اسلحوں سے لیس ساتھ کھڑی ہے ،مگر نمرود کے ایوان میں کسی کوبھی اُس وقت تک داخلے کی اجازت نہیں ہے جب تک آنے والا نمرود کے سر پر زوردار ایک جوتا نہ مار دے،بتائو اسے کون عزت کہے گا؟کیا یہ عزت ہے؟ خالقِ کائنات تمام طاقتوں اور عزتوں کادینے والا ہے ۔ اللہ تعالی کی حکمتوں پرغورکیجیے کہ نمرود کو اُس کی فوجوں کے سامنے سر پر جوتے لگائے جارہے ہیں،اور فوج مارنے والے کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی ،بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہے سلطنت دے کربھی ذلیل کردے ۔ملک گیری کی خاطر حرص وہوس کے پُتلوں نے لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کیا ،مگر کیا اس کے بعد وہ خودکو موت سے بچا سکے ،کیا دنیا نے اُنہیںعبرت ناک انجام سے دوچار ہوتا ہوا نہیں دیکھا،یزید کو دیکھیے کہ جس نے حکومت کی خاطر کائنات کا افضل ترین خون بہایا اور حکومت حاصل کرلی ،چار سال بھی حکومت نہ کی، اُسے بھی موت کی خوف ناک وادی میں اترنا ہی پڑا۔صفحات عالم پر جن حکومتوں کی دہشت وہیبت کا راج تھا ،آج اُن کا دور دور تک نام ونشان نہیں ملتا ،آج اُن پر کوئی رونے والا بھی موجود نہیں،اُن کی قبروں کے نشان تک مٹ گئے ،بلکہ زمانے نے اُن ظالموں سے ایسا انتقام لیا کہ اُن کے حسین وجمیل جسم مٹی کھا گئی ،پھر ہوائوں نے اُن کی جسم خوردہ مٹی فضائوں میں اڑادی اور یوں اُن کی ہستیاں کائنات میں ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دی گئیں کہ’’ ہم سے زیادہ ہے کوئی طاقت ور؟‘‘کا نعرہ لگانے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے ۔ جن لوگوں نے مال ودولت،اقتدار اورعہدوں کوطاقت اور کام یابی سمجھا ،ان کے زعم میں اللہ کو بھول گئے اور رسولوں سے بغاوت کی ،اُن کا مال وزر اُنہیں اللہ کی پکڑ سے اور موت کے آہنی شکنجے سے نہ بچا سکا ۔حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اپنی تجارتی اور اقتصادی حیثیت پر بڑا نازاں تھی،چناں چہ اُنہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی تعلیمات کا انکار کردیا اور کہنے لگے کہ’’ اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں اس بات کا حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے اَموال میں اُس طرح کا طرزِ عمل اپنائیںجس طرح تم چاہتے ہو ،تم تو بڑے بھلے آدمی ہو،اے شعیب! جائو تم اپنا کام کرو اور ہمارے تجارتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرو۔‘‘یہ اُن کی قوم کا سچی تعلیمات کے مقابلے میں باغیانہ جواب تھا ،پھر اللہ کا غیبی نظام حرکت میں آیا اور قوم شعیب تین طرح کے عذابوں کا شکار ہو کر دُنیا سے مٹ گئی ،اُس وقت جب وہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہو چکی تھی، تجارتی منڈیاں اور اُن کے مال وزر سے بھرے شہر اُنہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے ۔یہ قوم سبا ہے جسے اپنی زراعت پر بڑا فخر ہے ، دائیں بائیں تاحدنگاہ اُن کے باغات کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے ،پانی سے بھرے ہوئے ڈیم، شہر میں ہر طرف امن وسکون ہے اور وہ قوم پروردگار کی مہربانیوں سے بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہے،اللہ کے رسولوں نے اُن سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں میںسے کھائو پیو اور اللہ کا شُکر ادا کرو ،مگر انہوں نے سَرکشی کا راستہ اپنایا اور نبیوں پر غُرانے لگے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو اُسے لے آئو،تمہاری باتیں ہماری سمجھ نہیں آتیں ۔ اللہ پاک نے اُن کی بھر پوراور پُر لطف زندگیاں موت سے بدل دیں اور ایک رات جب یہ قوم آنے والے عذاب سے بے خبر مطمئن سوئی ہوئی تھی،اچانک اُن پرموت نے رقص شروع کیا۔ڈیم کے دہانے ٹوٹ گئے اور پانی نے ساری قوم تہس نہس کرکے رکھ دی ،اگلے روز وہاں زندگی کا نام ونشان مٹ چکا تھا۔یہ قوم عاد ہے جنہیں اپنے طاقت ور ہونے پر بڑا غرور تھا ،اُن کا بچہ تین سو سال کے بعد جا کر عمربلوغ تک پہنچتا تھا،ان کی عمریںہزار ہزار سال ہواکرتی تھیں،اس پورے عرصے میںنہ اُن کے سر میں درد ہوتا تھا نہ بخار۔،زمین میں جمے ہوئے مضبوط کھجور کے درخت ایک ہاتھ مار کراُکھاڑ کر پھینکتے،حضرت ہود علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ’’ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کی طاقت کی ہوا نکالنے کا فیصلہ کیا؟فرشتوں کو حکم ہوا کہ ہوا کا رُخ قوم عاد کی طرف کردیا جائے،چناں چہ سات راتیں اور آٹھ روز تک قوم عاد پر تندوتیز ہوائیں چلیں،اُن ہوائوں نے قومِ عاد کے نافرمانوں ،سَر کَشوںاور باغیوں کو زمین سے اٹھایا،فضائوں میں اڑایا اور اُنہیں آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرایا ،اُن کے سر الگ دھڑ الگ ہوگئے ،ماتھے پھٹ گئے،بھیجے سر سے اورآنتیں پیٹ سے باہر ،گوشت ہڈیوں سے جدا اور وہ زمین پر ایسے ٹوٹ کر بکھر گئے جیسے کھجور کے تنے زمین پر گرے ہوئے ہوں ۔اب اللہ تعالیٰ حضرت ھود علیہ السلام سے ارشاد فرماتے ہیں کہ ان کی نعشوں پر کھڑے ہو کر ان سے کہو کہ طاقت پر غرور کرنے والو!بتائو،تمہاری طاقت کہاں چلی گئی ؟ بے شک جس اللہ نے تمہارے جیسی قوم بنائی ہے وہی سب سے زیادہ طاقت ور ہے ۔ طاقت کے نشے میں مست ہونے والوںکے لیے اس عبرت ناک انجام میں بہت بڑا سبق ہے ۔یہ چند مثالیں ہیں وگرنہ عبرت پانے والوں کے لیے ہر سو نمونے موجود ہیں ۔بس دنیا کے رنگ وبو نے بے شمار لوگوں کو اندھا کردیا ہے ،جوں ہی یہ آنکھ بند ہوگی ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔گذشتہ قوموں کے واقعات کااسی لیے قرآن کریم میں ذکر کیاگیاہے تاکہ لوگ ان کے انجام سے سبق حاصل کریںاور اللہ سے ڈریں،ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا؟ اللہ پاک ہمیں اس دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی پائیدار زندگی کا یقین کامل نصیب فرمائے۔آمین