امام احمد رضا خان فاضل بریلوی
اسپیشل فیچر
مُجدّددین ملت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃُاﷲعلیہ کی ذات چودہویں صدی میں اہل دنیا کے لیے دینی ،علمی اور روحانی لحاظ سے ربّ کریم کی نعمت تھی ۔ولادت 10شوال المُکرم 1272ھ/جون 1856کوہندوستان یوپی کے شہر بریلی میں ہوئی ۔والدین نے آپ کا نام محمد جب کہ آپ کے جَد اَمجد نے احمد رضا تجویز کیا اور یہی نام مشہورہوا ،تاریخی نام المختار ہے۔ آپ نے اپنی ولادت کا سن ہجری قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے نکالاجس کا ترجمہ ہے، ’’یعنی یہ ہیں وہ لوگ جن کے دِلوں میں اﷲنے ایمان نقش فرمایا اور اپنی طرف کی رو ح سے ان کی مدد فرمائی۔‘‘آپ نے اپنی خُداداد صلاحیت اور ذہانت کی بناء پر 14سال سے کم عمر میں علوم کی تکمیل فرمائی ۔آپ کی ذہانت کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آٹھ سال کی عمر میں جب فن نحوکی مشہور کتاب ’’ہدا یۃ النحو‘‘ پڑھی تو اُسی عمر میں اِس کی عربی میں شرح بھی لکھ دی،اعلیٰ حضرت ؒنے جن علوم وفنون کی تحصیل فرمائی اِن کی تعداد 59سے زائد ہے ،اِن تمام علوم کا ذکر آپ نے اپنی اُس عربی سند اجازت میں کیا ہے جو آپ نے مکہ کے حافظ کتب الحرم مولانا سید اسماعیل خلیل مکی کو 1324ھ میں دی تھی ۔اُن علوم کے نام یہ ہیں علم قرآن ،علم تفسیر ،علم حدیث ،اُصول حدیث ،فقہ حنفی ،کتب فقہ جملہ مذاہب ،اُصول فقہ ،علم العقائد والکلام (جو مذاہب باطلہ کی تردید کے لیے ایجاد ہوا )،علم نحو،علم صرف ،علم معانی ،علم بیان ،علم بدیع ،علم منطق ،علم مناظرہ ،علم فلسفہ ،علم تکسیر،علم ہیئت ،علم حساب ،علم ہندسہ ،قرأت ،تجوید ،تصوف ،سلوک ،علم اخلاق ،سیر ،تواریخ ،لُغت ،ادب ،علم توقیت ،مناظرہ ،زیجات ،مثلث کُرَوی ،مثلث مسطح ،ہیئت جدیدہ ،مربعات ،علم جفر ،علم فرائض ،نظم عر بی ،نظم فارسی ،نظم ہندی ،نثر عربی،نثر فارسی ،نثر ہندی ،خط نسخ ،خط نستعلیق ،تلاوت مع تجوید ،جبرومقابلہ ،حساب سنن،لوغارثمات ،اسماء الرجال ۔ اِن علوم میں سے بعض پر آپ کو عبور حاصل تھا جس کا اندازہ اِن علوم فنون پر لکھی جانے والی آپ کی مطبوعہ وقلمی کتب ورسائل سے ہوتا ہے ،جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے ۔علوم قرآن میں آپ کا ترجمہ قرآن ’’کنزالایمان فی ترجمۃالقرآن ‘‘امتیازی حیثیت کا حامل ہے ۔علم حدیث میں بھی آپ کو تبحرحاصل تھا۔ حرمین شریفین کے قیام کے دوران وہاں کے کئی علماء ومشائخ نے آپ سے حدیث کی اجازت حاصل کی اور فَن وحدیث میں آپ کا اعلیٰ مقام دیکھتے ہوئے شیخ یٰسین احمد الخیاری المدنی نے آپ کو امام محدثین کہا ۔علم فقہ میں آپ کی مہارت کا اندازہ آپ کے مجموعہ ٔ فتاویٰ ،فتاویٰ رضویہ کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔جسے جدید ترتیب کے ساتھ رضا فاؤنڈیشن لاہور نے 30جلدوں میں شائع کیا،فقہ میں آپ کی مہارت نے آپ سے اختلاف رکھنے والوں کو بھی حیران اور ششدرکردیا اور اِنہیں بھی آپ کی جلالتِ علمی کا اعتراف کرنا پڑا،چناں چہ ناظم ندوۃ العلماء لکھنو،عبدالحسن علی ندوی نے لکھا،’’فقہ حنفی اور اِ س کی جزئیات پر مولانا احمد رضا خان ؒ کو جو عبور حاصل ہے ۔اِس کی نظیر شاید ہی کہیں ملے اور اس دعوے پر ان کا مجموعہ فتاویٰ شاہد ہے،نیز اِن کی تصنیف ’’کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراھم ‘‘جو انہوں نے 1323ھ میں مکہ معظمہ میں لکھی تھی۔‘‘ایک اور جگہ لکھتے ہیں، ’’حرمین شریفین کے قیام کے زمانے میں بعض رسائل بھی لکھے اور علماء حرمین نے بعض سوالات کیے ،تو اُن کے اِن جوابات بھی تحریر کیے ،متون فقیہہ اور اختلافی مسائل پر ان کی ہمہ گیر معلومات ،سرعت تحریر اور ذہانت دیکھ کر سب ششدررہ گئے ۔‘‘شاعرِ مشر ق ڈاکٹر اقبال کو بھی کہنا پڑا،’’ہندوستان کے دورِ آخر میں اعلیٰ حضرت جیسا طباع اور ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا، میں نے اِن کے فتاویٰ کے مطالعے سے یہ رائے قائم کی ہے۔ اِن کے فتوے اِ ن کی ذہانت ،فطانت ،جودت طبع ،علوم دینیہ میں تبحر علمی سے شاہد ہیں ،مولانا ایک دفعہ جو رائے قائم کرلیتے ہیں ،اِس پر مضبوطی سے قائم ہیں ،یقیناً وہ اپنی رائے کا اظہار بہت غوروفکر کے بعد کرتے ہیں ،انہیں اپنے شرعی فیصلوں اور فتاویٰ میں کسی بھی تبدیلی یا رجوع کی ضرورت نہیں پڑی۔ان کی طبیعت میں شدت زیادہ تھی اگر یہ چیز درمیان میں نہ ہوتی تو مولانا احمد خان ؒ گویا اپنے وقت کے امام ابوحنیفہ ؓ تھے ۔‘‘جس مسئلے پر قلم اٹھاتے ،لکھنے کا حق ادا کردیتے۔ اعلیٰ حضرت ؒکے پاس سوالات نہ صرف ہندوستان بلکہ افریقا،امریکا ،چین اور عرب ممالک سے بھی کثیر تعداد میں استفتاء آتے ۔خود فرماتے ہیں،فقیر کے ہاں علاوہ دیگر مشاغل کثیرہ دینیہ کے فتویٰ اس درجہ وافر ہیں کہ دس مفتیوں کے کام سےزائدہے۔ہندوستان وبنگال،پنجاب،مالابار،برما،چین،غزنی ،امریکا اورافریقا حتٰی کہ حرمین وشر یفین سے استفتاء آتے ہیں اور ایک وقت میں پانچ پانچ سوجمع ہوجاتے ہیں ۔اعلیٰ حضرت کا کمال دیکھیے کہ سوالات کے انبار کے باوجود جس زبان میں سوال کیا جاتا اِسی زبان میں جواب بھی ارسال فرماتے ،حتٰی کہ کسی نے اگر منظُوم سوال بھیجا تو جواب بھی منظُوم ہی ارشاد فرماتے۔ یہ تمام جوابات فتاویٰ رضویہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔آپ کے فتوے دیکھ کر مکہ مکرمہ کے فاضل حافظ کتب الحرم مولانا سید اسماعیل خلیل نے کہا،’’ میں قسم کہا کر کہتاہو ں کہ یہ فتوے امام ابوحنیفہ ؒ دیکھتے تو یقینا اُن کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی اور اس کے مٔولف کو اپنے تلامذہ میں شامل فرماتے ۔‘‘منقولات کے علاوہ معقولات میں بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ کو مہارت حاصل تھی۔جس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری نے لکھا ،’’1329ھ سے قبل ڈاکٹر سر ضیاء الدین وائس چانسلرمسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے علم المربعات کا ایک سوال اخبار دبدبہ سکندری (رام پور )میں شائع کرایاکہ کوئی ریاضی داں اس کا جواب دے ۔مولانا احمد رضا خاں بریلوی ؒ نے اس کا جواب شائع کروایا اور ساتھ ہی جواب کے لیے اپنی طرف سے بھی ایک سوال شائع کرایا۔ڈاکٹر ضیاء الدین کی نظر سے جب یہ سوال گزراتو انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہواکہ ایک مولوی نے نہ صرف ان کے سوال کا جواب دے دیابلکہ اپنی طرف سے ایک سوال کاجواب شائع کرایالیکن مولانا امام احمدرضا خاں بریلوی ؒنے اس کی غلطی نکال کر ڈاکٹر صاحب کواور حیرت میں ڈال دیا ۔ایک عالم دین ہوتے ہوئے نہ صرف دینی اور فقہی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کی بلکہ زندگی کے جس شعبے سے سوال آیا ،کماحقہ اِس کا جواب دیا ۔آپ مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے مُلکی اورسیاسی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ۔اسلامی اقدار کے خلاف سازشوں کاقلع قمع کیا،چناں چہ ہندؤوں اور کانگریس نواز علماء کی جانب سے گائے کی قربانی ختم کرنے کے حوالے سے جب معاملہ اٹھا تو آپ نے ایک رسالہ تصنیف کیا اور واشگاف انداز سے کہاکہ گائے کا ذبیح اسلام کا طریقہ قدیم ہے اسے تَرک نہیں کیا جاسکتا ۔ایک عالم مُفسر ،محدث مفتی ،فقیہ اور مفکر ہونے کے علاوہ شعر وادب کے میدان میں بھی آپ کسی سے پیچھے نظر نہیں آتے۔اُردو،فارسی اور عر بی میں آپ کا عشق مصطفی ؐ میں ڈوباہوعارفانہ کلام اپنی مثال آپ ہے۔عربی زبان پرآپ کی فصاحت وبلاغت پر اس وقت کے مسجد الحرام کے امام کے والد ابولخیرمیرداد مکی نے لکھا ،’’مولانا بریلوی جیسے شیخ کے وجود پر میں اللہ کا شُکر ادا کرتاہوں‘‘ ۔دنیائے اسلام کایہ عظیم مُجدّد دین وملت فریضہء تجدید ادا کرنے کے بعد 25صفر المظفر 1340ھ 1921/ء کونمازجمعہ کے وقت دنیاسے رُخصت ہوا۔اعلیٰ حضرت رحمۃ ُاﷲعلیہ اپنے دوعظیم فرزند حجۃُالاسلام مولانا شاہ حامد رضاخان اور مُفتی اعظم ہندمولاناشاہ مصطفی رضاخان کے علاوہ خلفاء اور تلامذہ کی ایک کھیپ جلیل القدر علماء کی شکل میں چھوڑ گئے، جنہوں نے آپ کا مشن آگے بڑھایا اور دین متین کی لازوال خدمت انجام دی ۔