نبی آخرالزمان ﷺ کی آمد سے قبل خرق امور کا ظہور
اسپیشل فیچر
پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو آپﷺ کے تودُنیا میں رونق افروزہونے سے قبل ہی حیرت ناک واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے تھے جس سے عرب معاشرے میں ایک عجیب سی کھلبلی مچ گئی۔ مستند اور صحیح روایتوں سے جو اہم واقعات ہمیں ملتے ہیں اُن میں سے چند کا تذکرہ حسب ذیل ہے ۔حضرت خالدؓ بن معدان تابعی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ کچھ صحابہؓ نے آنحضرت ؐ سے دریافت کیا کہ یا رسولؐ اللہ! اپنا حال بیان فرمائیے یعنی آپؐ کی پیدائش کیوں اور کیسے ہوئی؟آپؐ نے فرمایا، میں اپنے باپ ابراہیم ؑ کی دُعا، عیسٰی ؑ کی بشارت اور اپنی ماں (آمنہؑ) کا خواب ہوں۔ میری ماں نے کہ جب میں اُن کے شکم مبارک میں تھا ،خواب دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک نور نکلا ،جس سے شام کے محل روشن ہوگئے۔(تاریخ ابن سعد ) یہی حدیث مستدرک میں کچھ اضافی الفاظ کے ساتھ تحریر ہے، حضرت عرباض ساریہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولﷺ اللہ کو فرماتے سنا کہ میں اللہ کا بندہ اور خاتم انبیا اُس وقت سے ہوں کہ میرے باپ (آدمؑ) آب وگل میں تھے، میں اُس کی تفصیل بتاتاہوں میں اپنے باپ ابراہیم ؑ کی دُعا ، عیسٰی ؑکی بشارت اور اپنی ماں آمنہؑ کا خواب ہوں اور اِس طرح پیغمبروں کی مائیں خواب دیکھا کرتی ہیں ۔آنحضرت ؐ کی والدہ نے آپ ؐ کی ولادت کے وقت خواب دیکھا کہ ایک نور ہے، جس سے شام کے محل روشن ہوگئے پھر یہ آیت پڑھی ’’اے پیغمبرؐ !میں نے تجھ کو گواہ اور خوش خبری سُنانے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف پکارنے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ۔(سورہ ٔاحزاب)۔حضرت ابراہیم ؑ کی دُعا جو قرآن حکیم میں آئی ہے وہ یہ ہے ’’اے ہمارے رب !اُن ہی میں سے رسول بھیج جو اُن کے پاس تیری آیات پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور اُنہیں پاک کرے، یقینا توحکمت والا اور غلبے والا ہے ۔(سورۂ بقرہ) مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ کی آخری دُعا تھی جو قبول ہوئی اور اُن کی ذرّیت سے یعنی اسماعیل ﷺ سے حضر ت محمد مصطفی ﷺ کو قرآن دے کر بھیجا اور پھر آپﷺ نے دین ِاسلام کی تبلیغ بھی کی۔اسی طرح حضرت عیسٰی ﷺ کی بھی پیش گوئی قرآن حکیم میں آئی ہے ،جس میں احمدﷺ نام کے پیغمبر کے بارے میں کہا گیا ہے ’’اور جب عیسٰی ؑبن مریم ؑنے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس خدا کا قاصد بن کرآیاہوں اور مجھ سے پہلے جو تورات آئی ہے میں اُس کی تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد احمدؐ نام کے ایک پیغمبر کی پیش گوئی لے کر آیا ہوں ۔ولادت سے قبل یہودونصاریٰ میں آخری نبی کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں، آپﷺ سے قبل یہودیوں پر حضرت عیسٰی ؑ مبعوث ہوئے تھے، اُن کے دُنیا سے اُٹھ جانے کے بعد نصاریٰ نے یہ یقین کرلیا تھا کہ اب جو نبی آئے گا وہ ہم ہی میں سے ہو گا جب کہ یہودیوں کا خیال تھا کہ نبی ہماری قوم سے آئے گا۔توریت اور انجیل میں آئی ہوئی پیش گوئیوں کی رُو سے ان دونوں کی غلط فہمیاں عروج پر تھیں ان کی مختلف مذہبی کتابوں میں جو آثار لکھے گئے تھے وہ ہو بہو مدینہ اور اس کے قرب وجوار کے نقشے جیسے تھے لہٰذا یہودی مدینہ اور اس کے گرد پھیلے ہوئے سر سبز باغات کے قریب ڈیرہ جما کر نبی ٔ آخرؐ کا انتظار کرنے لگے اور آخر کار وہ وقت آگیا کہ جب آنحضور ﷺ کی ولادت ہوگئی ،یہ دونوں اقوام نہایت صبروتحمل سے آنے والے نبی کا انتظار کرنے لگیں،پھر جب آپﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہودونصاریٰ مایوس ہوگئے کیوں کہ حضرت اسحق ؐ کی نسل سے نبوت کا سلسلہ بند ہوگیاتھا اور حضرت اسمٰعیل ؑ کی نسل سے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ تشریف لے آئے۔ کچھ ایسا ہی ردعمل مکّے کے لوگوں کا بھی رہا۔ان ہی مذہبی کتابوں میں ایک خاص بات یہ بھی ملتی ہے کہ آپﷺ کی آمد سے قبل بت خانوںمیں کئی بار غیبی آوازیں سنی گئیں کہ اب صنم کدوں کے خاتمے کا وقت آچکا ہے اور ایک سچے (صادق) نبیﷺ کا ظہور ہو چکا ہے۔ اس حقیقت سے انکا ر بھی نہیں کیا جا سکتا کہ حضوراکرمﷺ نے نبوت سے قبل یعنی دورِ جاہلیت میں ہی اپنا کردار صادق اور امین والا اپنایا ،جس کی وجہ سے مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو نوجوانی ہی میں ان دونوں القاب سے نوازا تھا ۔ حضرت عمر ان غیبی آوازوں سے متعلق ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں ،جو احادیث کی کتابوں میں ہمیں ملتا ہے ،یہ واقعہ آنحضرت ﷺ کے دُنیا سے وصال کے بعد کاہے کہ ایک مرتبہ حضر ت عمر کہیں بیٹھے تھے کہ سامنے سے ایک خوب صورت شخص گزرا تو حضرت عمر نے اسے بلا کر حال پوچھا ،اس نے کہا کہ’’ میں زمانۂ جاہلیت میں ایک کاہن تھا۔‘‘ آپﷺ نے پھر پوچھا’’ کیا اس زمانے میں کوئی خاص واقعہ تم نے دیکھا یا سنا؟‘‘ اُس نے کہا کہ ’’میں بازار میں تھا کہ میرا مؤکل جن میرے پاس گھبرایا ہوا آیا اور ایک شعر پڑھا،کیا تم ان جنوں کی نا امیدی کو نہیں دیکھتے اور ان کی بیماری کے بعد ان کے ہلاک ہونے کو اور ان کے اونٹنیوں اور ان کے دودھ دوہنے میں مشغول ہونے کو ۔‘‘حضرت عمرؓ نے فرمایا’’ اس نے سچ کہا ۔ خود مجھ پر اس قسم کا ایک واقعہ گزر چکا ہے۔ ایک مرتبہ میں مشرکین کے بتوں کے سامنے سویا ہو اتھا کہ ایک آدمی بچھڑا لے کر آیا اور اس کی قربانی کی ۔ ناگاہ اس کے اندر سے ایک چیخ کی آواز آئی اس سے زیادہ یا بڑی چیخنے کی آواز میں نے کبھی نہیں سنی تھی آواز یہ تھی ،اے جلیج! کام یاب بات ایک فصیح آدمی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور اللہ نہیں ۔‘‘ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ یہ آواز سن کر سب لوگ جو قریب ہی بیٹھے تھے چھلانگیں مار مار کر بھاگ نکلے لیکن میں اپنی جگہ سے نہ ٹلا اور دل میں یہ سوچا کہ حقیقت جان کر ہی یہاں سے ہٹوں گا کہ اچانک دوسری مرتبہ پھر وہی چیخنے کی آواز آئی اور پھر تیسری مرتبہ بھی وہی چیخ سنائی دی۔اس بات کو ابھی کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ مکہ میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ محمدؐ نے اپنی نبوت کا اعلان کردیا ہے۔(صحیح بخاری باب اسلام عمر) روایتوں میں آپ ﷺ کے قدم مبارک ہونے کے بہت سے واقعات مذکورہیں آپﷺ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے وہ پورا ہو جاتا تھا بچپن کا ایک مشہور واقعہ یہ بھی تھا ، جو ایک صحابی ؓ نے اپنے والد سے روایت کیاہے کہ وہ اسلام سے پہلے یعنی ایام ِجاہلیت میں حج کرنے گئے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص طواف میں مصروف ہے اور اس کی زبان پر شعر میں یہ دعا ہے ’’اے میرے پروردگارمیرے سوا ر محمدﷺ کو واپس بھیج اور مجھ پر یہ ایک احسان کر‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ’’ یہ کون ہیں؟‘‘ تو لوگوں نے بتایا کہ’’ یہ عبدالمطلبؑ ہیں ،اِن کا ایک اُونٹ گم ہوگیا ہے ،جسے ڈھونڈنے کے لیے اپنے پوتے (محمدﷺ ) کو بھیجا ہے اور وہ اب تک لُوٹ کر نہیں آیاہے۔ اِن کا یہ پوتا ایسا ہے کہ اُنہوںنے جس کام کے لیے اس کو بھیجا ہے اُن کو کام یابی ہی ہوئی ہے ،نا کامی نہیں ہوئی ۔‘‘کچھ دیر کے بعد آپؐ اونٹ لے کر واپس آتے دکھائی دیے ،عبدالمطلبؑ نے اُنہیں سینے سے لگایا۔(مستدرک حاکم) آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ میں کئی مقامات پر لکھا ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو لہو لعب اور شیطانی اُمور سے نفرت تھی آپﷺ نے ایک مرتبہ حضرت علی ؓسے فرمایا کہ ’’دو مرتبہ مجھے شیطان نے بہکانے کی کوشش کی اور دونوں مرتبہ ناکام رہا اور اللہ نے مجھے بچا لیا۔‘‘آنحضرت ﷺ اعلان ِنبوت کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں مکّہ کے اُس پتھر کو جانتا ہوں جو مجھے نبوت سے پہلے سلام کیا کرتا تھا،میںاب بھی اُسے پہچانتا ہوں۔‘‘(صحیح مسلم) نبوت سے قبل آپ ﷺ کو خواب دکھائی دیا کرتے تھے جو عالم بیداری میں سچ ہوتے تھے یعنی ان کی تعبیر وہی ہوتی تھی جیسا کہ عالم رویاء میں دیکھتے تھے اس کی تفصیل ہمیں بعض مذہبی اور سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے ۔