کسب حلال کی فضیلت
اسپیشل فیچر
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :’’ بے شک رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ حلال رزق کا طلب کرنا دیگر فرائض کے بعد ایک فرض ہے۔ ‘‘اِس حدیثِ مبارک میں اہلِ ایمان کو یہ بتایا گیاہے کہ اُن پر صرف نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی فرض نہیں ہے بلکہ رزقِ حلال کا حصول بھی فرض اور ضروری ہے ۔ قرآنِ مجید میں اللہ جلَّ شانہ نے نہ صرف حلال کھانے بلکہ حلال ہی خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اِس کی وضاحت قرآنِ مجید کی متعدِّد آیاتِ کریمہ سے ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والو! (اللہ کی راہ میں ) اپنی کمائی سے اچھی چیزیں خرچ کرو۔‘‘(سورۂ بقرہ ،آیت 267)یہاںحلال رزق خرچ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے تو ایک دوسری آیتِ کریمہ میں حلال رزق کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اے لوگو! زمین کی اِن چیزوں میں سے کھاؤ،جو حلال طیّب ہیںاور شیطان کی پیروی نہ کرو،بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘(سورۂ بقرہ،آیت 168)صحابۂ کرام علیہم الرِّضوان نے جب رسول ؐاللہ سے پوچھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کن لوگوں پر اور کیا خرچ کریں تو اُنہیں قُلْ مَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ (آپ ؐ کہہ دیجئے کہ جو کچھ بھی تم خرچ کرو، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خیر یعنی حلال و طیّب ہو) کے ذریعے سے یہ بتایا گیا کہ وہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں، اُن کے لیے پہلی شرط یہی ہے کہ وہ طیّب یعنی رزقِ حلال سے حاصل کردہ ہو،یعنی یہ کہنا درست ہے کہ رزقِ حلال کے ساتھ کی گئی عبادتیں ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔جناب رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّمنے اِس اہم بات کی وضاحت اپنی ایک حدیثِ مبارک میں بھی فرمائی ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جس کا کھانا ،پینااور لباس حرام کا ہو اللہ تعالیٰ اُس کی دُعا بھی قبول نہیں فرماتا اور دُعا کوعبادات کا مغز قرار دیا گیا ہے، لہٰذااگر دُعا ہی قبول نہ ہو،تو دیگر عبادات کیسے قبول ہوںگی؟ محنت و مشقّت سے جی چُرانا کسی بھی صورت میں رَوا نہیں، کیوں کہ محنت و مشقت کرکے رزقِ حلال کمانا اِس قدر اہم فریضہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہر نبی نے دین کی تبلیغ کی ذمہ داری ادا کرنے کے ساتھ ہی یہ فریضہ بھی انجام دیا۔سرورِ دو عالم ؐ نے بکریاں چرائیں، تجارت کی غرض سے دو مرتبہ ملک شام کا سفر کیا اورمقامِ جزف پر زراعت فرمائی۔ حضرت آدم اور دیگر انبیاء علیھم السلام نے کھیتی باڑی کی، حضرت ادریس علیہ السَّلام نے کتابت اور درزی کا پیشہ اختیار کیا، حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السّلام تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے، حضرت داؤد علیہ السَّلام زرہ سازی اور لوہے کی صنعت سے وابستہ تھے۔ رسولؐ اللہ نے آپ ؐ کی یہ صفت اپنی حدیث ِمبارک میں بیان فرمائی کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے نبی داود ؑ اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے تھے۔ حضرت نوح ؑ کو اللہ تعالیٰ نے بڑھئی کا ہنر عطا فرمایا تھااوراسی ہنر سے انہوں نے ایک بڑی کشتی تیار کی۔حضرت ابراہیم ؑ نے کھیتی باڑی اور تعمیر کا کام کیا، اُن کے صاحب زادے حضرت اسمٰعیل ؑ تیر کے کاری گر تھے، حضرت یوسف ؑ نے غلّے کا کاروبار کیا، حضرت اسحٰقؑ،حضرت یعقوبؑ اور اُن کے تمام بیٹے بکریاں چراتے اور اُن کی خریدوفروخت کیا کرتے تھے، حضرت ایوب ؑ مویشی پال کر فروخت کرتے اور کھیتی باڑی کیا کرتے تھے، حضرت ہارون ؑ نے تجارت کی ،حضرت زکریا ؑ بڑھئی جب کہ حضرت عیسیٰ ؑرنگ سازی کے پیشے سے وابستہ تھے اور حضرت سلیمان ؑ کھجور کے پتّوں سے زنبیل بناتے اور فروخت کرتے تھے۔ الغرض جملہ انبیائے کرام کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ تھے اور روزی کمایا کرتے تھے۔ اسی طرح جب ہم حضراتِ صحابۂ کرام علیہم الرِّضوان کی سیرتِ طیّبہ کا مطالعہ کرتے ہیں ،تو اُنہیں بھی حصولِ رزقِ حلال میں مصروف پاتے ہیں۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت طلحہ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم کپڑے کی تجارت کرکے روزی کماتے تھے۔ حضرت عبد الرَّحمٰن بن عوف ؓ گھی کی تجارت کرتے تھے ،حضرت عمرو بن عاص ؓ گوشت فروش تھے اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کپڑے سی کر رزقِ حلال کماتے تھے۔فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے بھی اکثر تجارت کے ذریعے رزقِ حلال کماتے تھے،جیسے اِمامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ کپڑے کے تاجر تھے۔اِس کی اہمیت کا اندازہ اِس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جناب سرورِ دو عالم ؐ نے سب سے بہترین کھانا اُسے قرار دیا ،جو انسان محنت سے کما کر کھاتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص دن بھر محنت و مشقت کرکے حلال رزق کماتا ہے اور اُسی تھکاوٹ میں رات گزارتا ہے ،تو اُس کی وہ رات مغفرت میں گزرتی ہے۔ مزید یہ کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک مزدور صحابی کے ہاتھ کو بوسہ دیا، اِس سے بڑھ کر کسبِ حلال کی کیا فضیلت ہوسکتی ہے۔ اِس حدیثِ مبارک میں اُن لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، جو محنت کرنے کی بجائے گداگری اختیار کرکے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور بوجھ بنتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے آپ ؐ نے فرمایا کہ کسی غنی (مال دارشخص)کے لیے صدقہ جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کے لیے جوتوانا اور تن درست ہو۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الزّکوٰہ)