پنڈی بھٹیاں
اسپیشل فیچر
پنڈی بھٹیاں کی وجہ شہرت دُلا بھٹی ہے جس کی نسل کے بھٹی اب بھی پنڈی بھٹیاں میں آباد ہیں لیکن دُلے بھٹی کا گھر یہاں سے دو میل پر ’’دُلے کی‘‘ میں تھا۔یہاں ہم نے وہ کنواں دیکھا جہاں لوگوں کے مطابق دُلے کا گھر تھا۔ یہاں دُلے کے پوتے کی اولاد اب بھی موجود ہے۔ یہاں کے مراثی اور عام لوگ دُلے کی دار گاتے ہیں۔ خاص طور پر مراثیوں کو دلے کا شجرہ بھی یاد ہے۔ دُلے کی کہانی دُلے کی کہانی جو اُس کے گائوں میں مشہور ہے۔ دُلا اپنے بزرگ مستی خاں کے ساتھ شکار کھیل رہا تھا کہ اس کی ملاقات اکبر بادشاہ سے ہوئی۔ دُلے نے ان سے پوچھا تم کون ہو، اس نے جواب دیا میں اکبر بادشاہ کا بھٹ ہوں۔ دُلے نے کہا تو پھر بھٹ کو سلام کیا کرنا اور ساتھ ہی آگے بڑھ گیا۔ دُلا اکبر بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو اکبر نے ایسا دروازہ لگوا رکھا تھا جس میں اندر جانے کے لیے سر کو جھکا کر داخل ہونا پڑتا ہے لیکن دُلے نے پہلے ٹانگیں اندر کیں اور پیٹھ کا رخ اندر کی طرف کرکے سر بعد میں اندر کیا اور اکبر بادشاہ کو سلام بھی نہ کیا اکبر نے اُس سے کہا 24 سال کے ٹکے تمہیں معاف‘ اگر سلام کرو۔ دُلے نے کہا اگر تم اس سے بھی زیادہ سال کے ٹکے معاف کردو تو بھی میں تمہیں سلام نہیں کروں گا کیوں کہ تم نے اپنے آپ کو بھٹ کہا ہے اور میں مراثیوں کو سلام نہیں کیا کرتا۔جب دُلے کی اکبر سے مخالفت شروع ہوگئی تو اکبر بادشاہ کے سپاہیوں نے دُلے کی ماں ’’لدھی‘‘ کو پکڑلیا۔ جب وہ اسے لے جارہے تھے تو وہ باربار پیچھے مڑکر دیکھتی تھی۔ سپاہیوں نے اس سے پوچھا پیچھے مڑکر کیا دیکھتی ہو؟ وہ بولی میرے دو بیٹے ہیں۔ میں نے انہیں اچھی طرح پالا ہے۔ انہیں دیکھتی ہوں وہ ضرور آئیں گے اور ان کے آنے کی نشانی یہ ہے کہ اوپر باز اُڑیں گے اور نیچے پستے (گھوڑے) بھاگیں گے۔ اور واقعی یہی ہوا۔ وہ آئے اور انہوں نے اپنی ماں کو سپاہیوں سے چھڑا کر واپس بھیجا۔ لیکن دُلے کو کسی طرح قید ہوگئی… راوی یہاں آکر چپ ہوگیا اور کچھ دیر بعد بولا ساری دنیا جانتی ہے کہ پھر کیا ہوا ۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے پھر کبھی وقت نکال کر آئو تو سن لینا۔ دُلّے بھٹی کی بستییہاں کی گھوڑوں کی کاٹھیاں بڑی عمدہ مضبوط اور خوب صورت ہوتی ہیں۔ جو ملک کے مختلف حصوں میں بھیجی جاتی ہیں یہاں سے ہم نے ایک کاٹھی خریدی جسے میوزیم کے لیے دیا گیا ہے۔یہاں میاں خیر محمد نون کا مزار ہے ۔ آپ قادریہ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ روایت ہے کہ ہلال پور کے رہنے والے تھے۔ ایک مرتبہ سکھ لوٹ مار کرتے ہوئے ہلال پور پہنچے تو انہیں مقابلہ سخت محسوس ہوا۔ اور منہ کی کھانی پڑی۔ لوگوں سے پتا چلا کہ یہاں میاں خیر محمد نون رہتے ہیں۔ سکھوں نے سازش کرکے آپ کو اغوا کر لیا اور پنڈی بھٹیاں میں قیام کے بعد لاہور کی طرف بڑھ گئے لیکن انگریزوں سے کسی نوعیت گولیوں کا تبادلہ ہوا اور بہت سے سکھ مارے گئے انہوں نے سوچا کہ یہ سب کچھ میاں خیر محمد نون کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے انہوں نے آپ کو شہید کردیا۔ آپ کا ایک مرید پنڈی بھٹیاں میں رہتا تھا آپ کو لینے پہنچا تو دھڑ ملا سر نہ ملا آپ نے خواب میں آکر اُسے سر کی نشان دہی کی۔ آپ کی آخری آرام گاہ پنڈی بھٹیاں میں ہے۔ اس کے بارے میں روایت ہے کہ مرید قبر بنا کر جاتا تو رات کو یہاں کے ایک اور بزرگ میاں مروان گرا دیتے۔ میاں خیر محمد نون نے اپنے مرید کی پریشان دیکھ کر خواب میں اس سے کہا۔ مردان کے پاس جائو اور وہی کرو جو وہ کہتا ہے، مرید نے ایسا ہی کیا اور ان کی تجویز کردہ جگہ پر آپ کو دفن کیا۔آپ کا مزار بھی پنڈی بھٹیاں میں ہے۔ آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ زمین داروں کی زمینوں کو پانی دینے کے لیے کنوئیں پر بیلوں کو ہانکتے تھے۔ کنواں چلانا اور پانی نکالنا آپ کی ڈیوٹی تھی۔ ایک مرتبہ کنواں چل رہا تھا شب قدر تھی اور آپ کو وہ خالص لمحہ دیکھنا نصیب ہوا جب کنوئیں کا پانی دودھ بن گیا۔ آپ نے وہ دودھ پیا اور اپنے ساتھی کو بھی آواز دی لیکن وہ صرف چلو بھر پی سکا۔ آپ نے اس سے کہا جائو تم بھی گھنگھینوں جتنے ہوگئے ہو (گھنگھنیاں گندم کے اُبلے ہوئے دانوں کو کہتے ہیں)بھٹی آج کل بھی کسی دوسری قوم کو لڑکی کا رشتہ نہیں دیتے۔ ہم نے ایک بھٹی سے پوچھا کہ دُلا بڑا خوب صورت جوان تھا لیکن یہ بھٹی جو ہم دیکھتے ہیں اتنے خوب صورت جوان نہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ بولا اس کی وجہ یہ ہے کہ بھٹی مردوں نے دوسری قوموں میں شادیاں کرلیں اپنی بیٹی کا رشتہ تو نہیں دیتے لیکن خود باہر سے شادی کرلیتے ہیں۔دوسرا سوال کرنے پر اس نے بتایا کہ بھٹیوں نے لودھی اور کول قوم کی عورتوں سے شادیاں کر رکھی ہیں لیکن اگر بیوی اپنی قوم میں رشتہ کرنا چاہے تو بھی مرد اجازت نہیں دیتے۔