کیریئرپلاننگ
اندرونِ سندھ فنّی تعلیم کا جائزہدنیا مکمل طور پرسائنس و ٹیکنالوجی کے رحم و کرم پر ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل ہے۔ لہٰذا آج کے دور میںکوئی ملک ٹیکنیکل ایجوکیشن کو نظر انداز نہیں کرسکتاکیوںکہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال ہی میں کام یابی اور ترقی مضمرہے۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کو قابل استعمال بنانے اور روزمرّہ کی مرمّت اور خرابیاں دور کرنے کے لیے انجینئر، سپر وائزر، ٹیکنیشن اور ہنر مند افراد کی تیاری کے لیے انجینئرنگ یونیورسٹیاں ‘ پولی ٹیکنک اداروں کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ووکیشنل سینٹرز کا ہونا لازمی ہے۔ ان میں تربیت یافتہ اساتذہ جدید ترین مشینری سے آراستہ ورک شاپس اور ضروری اوزاروں کے علاوہ تربیت یافتہ عملہ لازمی ہے۔ تین سالہ ڈپلوما انجینرنگ کی تعلیم کے لیے قیام پاکستان کے بعد 1956میں پہلا پولی ٹیکنک ادارہ کراچی کے صنعتی علاقے سائٹ ایریا میں امریکا کی فورڈ فائونڈیشن کے تعاون سے شروع کیاگیا۔ بعد ازاں حیدر آباد اور خیر پور میرس میں سول ‘ الیکٹریکل اور میکنیکل ٹیکنالوجیز کے شعبوں کی تعلیم شروع کی گئی۔نجی سطح پر نواب شاہ میں حبیب انسٹی ٹیوٹ میں کیمیکل ٹیکنالوجی کا اجرا کیاگیا۔ بعد ازاں ٹھٹھہ،مٹیاری، بدین‘ سانگھڑ‘ میر پور خاص،سکھر‘ دادو، جیکب آباد، لاڑکانہ‘ پریٹ آباد، ہالہ، میر پور بٹھورو، ماتلی، ٹنڈ و آدم، عمر کوٹ، پنوںعاقل، گھوٹکی، میہڑ، شکار پور، گڑھی یاسین، رتو ڈیرو، نوشہروفیروز، فیض گنج، پڈ عیدن، کنڈیارو، ٹھری میرواہ، سکرنڈ، مٹھی، سیہون،ٹنڈوجام اور بدین میںتین سالہ ڈپلوما پروگرام کے ادارے وجود میں آئے جن میں آٹو ڈیزل، سول الیکٹریکل ، میکنیکل، الیکٹرونکس، کیمیکل اور ریفریجریشن وائیر کنڈیشنگ،کمپیوٹرانفارمیشن ، پیٹرولیم‘ مائننگ اور شوگر ٹیکنالوجیز کی تعلیم دی جاتی ہے۔ طالبات کے لیے حیدر آباداور سکھر میں پولی ٹیکنک ادارے قایم ہیںجہاں گارمنٹس اور الیکٹرونکس ٹیکنالوجیز قایم ہیں۔ انٹر میڈیٹ کامرس کے مساوی ڈپلوما ان کامرس کے ادارے پہلے دور میں حیدر آباد، دادو، سکھر، نواب شاہ، لاڑکانہ اورخیر پور میرس میں قایم کیے گئے۔ بعد ازاں ٹھٹھہ، سانگھڑ، بدین، میر پور خاص، میرو خان، جیکب آباد، شکار پور، قاسم آباد، میہڑ ، ٹنڈوالہٰ یار، گھارو، سجاول، عمر کوٹ، مٹھی، ٹنڈ وآدم، روہڑی، ٹھری میر واہ، نوشہرو فیروز، پیر جو گوٹھ ‘ قاضی احمد، کنڈیارو، ہالہ، لکھی، کندھ کوٹ، شہداد کوٹ اور ڈگری میں ادارے قایم کیے گئے۔ تیسرے پنچ سالہ منصوبے میں لڑکوں کے لیے میٹرک کی سطح پر فنی تعلیم ( میٹرک ٹیکنیکل) دینے کے لیے نواب شاہ، دادو، سکھر، جیکب آباداور شکار پور میں آٹو جنرل الیکٹریشن، مشینسٹ اور ریڈیو الیکٹرونکس کی کلاسوں کا اجرا کیاگیا ہے۔جب کہ لڑکیوں کے لیے ٹیلرنگ اور مشین ایمبرائیڈری سکھانے کے لیے میٹرک لیول پر میر پور خاص اور سکھر میں کلاسوں کا اجرا کیاگیا ۔ لڑکیوں کے لیے پانچویں جماعت کے بعد سلائی‘ کڑھائی اور بُنائی کے فنون سکھانے کے لیے حیدرآباد،خیر پور میرس، سکھر اور لاڑکانہ میں ادارے قایم کیے گئے۔ جہاں ایک سالہ سرٹیفکیٹ اور دوسالہ ڈپلوما کورس کرائے جاتے ہیں ۔ بعد ازاں تعلقہ لیول پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے 45ادارے قایم کیے گئے جن میں بدین، وٹری، ہالہ ، ٹنڈو آدم، دادو، سیہون، جام شورو، میر پور خاص، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو غلام علی، ڈیپلو، ڈگری ، لطیف آباد ، میہڑ، جیکب آباد، نوشہرو فیروز، پنوں عاقل، گھوٹکی، قمبرعلی خان، شکار پور، تھڑی محبت، گڑھی یاسین، روہڑی، ماتلی، ٹنڈوغلام علی، عمر کوٹ، شہداد پور، مٹھی اور کنڈیارو نمایاں ہیں۔1976میں ولیج ورک شاپ اسکیم کے تحت پٹنی، بجرگی، شاہ پور چاکر، ہالہ اورسجاول میں غیر ہنر مند افراد کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا بندوبست کیاگیا۔ کمپیوٹروانفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک سالہ ڈپلوما کورس اور دیگر شاٹ کورسز کے لیے نجی اداروں نے تعلیم دینے کے لیے حیدر آباد، میر پور خاص، محراب پور، سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکار پور اور خیر پور میرس میں جدید ترین تعلیم وتربیت فراہم کی۔ بیچلر آف ٹیکنالوجی کی تعلیم گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کی تعلیم گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی حیدر آباد اور خیر پور میرس میں شروع کی گئی ۔ ڈپلوما اِن بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم دینے کے لیے سکھر میں نجی اداروں نے مخلوط طرز تعلیم کے تحت اس کام کی ابتدا کی۔ ان سرکاری اداروں کے قیام کی ذمّے داری ڈائریکٹریٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن نے انجام دی۔ جن کے ذمے داروں میں محمد ایچ ماما، ڈاکٹر میر محمد علی، انجنیر انعام الحق، انجینئر امام علی سومرو اور محمد عشرت محمود بیگ نمایاںہیں جن کی ان تھک کاوشوں کی وجہ سے پاکستان آج بھی ہنر مند افرادی قوت کے ذریعے کثیر زرمبادلہ کمارہاہے۔وزارت محنت کے ذیلی ادارے مین پاور ٹریننگ نے اندرون سندھ ایک سالہ اور دوسالہ سرٹیفکیٹ کورس کی تربیت کے لیے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر، ووکیشنل ٹریننگ سینٹر اور اپرنٹس ٹریننگ سینٹرقایم کیے جن کی تعداد بیس کے لگ بھگ ہے۔ ان اداروں کی ترویج کا سہرا گلزارعلی شاہ اور موجودہ ڈائریکٹر کریم بخش صدیقی کے سر ہے ۔ وزارت محنت کے تحت اسمال انڈسٹری نے قریباً ستّر ادارے قایم کیے جو کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن میںضم ہوچکے ہیں۔ سماجی بہبود کی وزارت نے لڑکیوں کے لیے کڑھائی سلائی کے دس ادارے قایم کیے ۔ نیزکمرشیل بنکوں اور پیٹرومین نے کمپیوٹرٹریننگ کے ادارے کھولے تھے ۔ نجی شعبے نے بھی اندرون سندھ فنی تعلیم کے فروغ کے لیے قابل قدر نمایاں خدمات انجام دیں۔ مختصر دورانیے کے ٹائیپنگ و شارٹ ہینڈ کورسز کا قدیم ترین ادارہ شکار میںقایم ہے جو قیام پاکستان سے قبل یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔