کیریئرپلاننگ

کیریئرپلاننگ

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد اللہ غنی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

اندرونِ سندھ فنّی تعلیم کا جائزہدنیا مکمل طور پرسائنس و ٹیکنالوجی کے رحم و کرم پر ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل ہے۔ لہٰذا آج کے دور میںکوئی ملک ٹیکنیکل ایجوکیشن کو نظر انداز نہیں کرسکتاکیوںکہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال ہی میں کام یابی اور ترقی مضمرہے۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کو قابل استعمال بنانے اور روزمرّہ کی مرمّت اور خرابیاں دور کرنے کے لیے انجینئر، سپر وائزر، ٹیکنیشن اور ہنر مند افراد کی تیاری کے لیے انجینئرنگ یونیورسٹیاں ‘ پولی ٹیکنک اداروں کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ووکیشنل سینٹرز کا ہونا لازمی ہے۔ ان میں تربیت یافتہ اساتذہ جدید ترین مشینری سے آراستہ ورک شاپس اور ضروری اوزاروں کے علاوہ تربیت یافتہ عملہ لازمی ہے۔ تین سالہ ڈپلوما انجینرنگ کی تعلیم کے لیے قیام پاکستان کے بعد 1956میں پہلا پولی ٹیکنک ادارہ کراچی کے صنعتی علاقے سائٹ ایریا میں امریکا کی فورڈ فائونڈیشن کے تعاون سے شروع کیاگیا۔ بعد ازاں حیدر آباد اور خیر پور میرس میں سول ‘ الیکٹریکل اور میکنیکل ٹیکنالوجیز کے شعبوں کی تعلیم شروع کی گئی۔نجی سطح پر نواب شاہ میں حبیب انسٹی ٹیوٹ میں کیمیکل ٹیکنالوجی کا اجرا کیاگیا۔ بعد ازاں ٹھٹھہ،مٹیاری، بدین‘ سانگھڑ‘ میر پور خاص،سکھر‘ دادو، جیکب آباد، لاڑکانہ‘ پریٹ آباد، ہالہ، میر پور بٹھورو، ماتلی، ٹنڈ و آدم، عمر کوٹ، پنوںعاقل، گھوٹکی، میہڑ، شکار پور، گڑھی یاسین، رتو ڈیرو، نوشہروفیروز، فیض گنج، پڈ عیدن، کنڈیارو، ٹھری میرواہ، سکرنڈ، مٹھی، سیہون،ٹنڈوجام اور بدین میںتین سالہ ڈپلوما پروگرام کے ادارے وجود میں آئے جن میں آٹو ڈیزل، سول الیکٹریکل ، میکنیکل، الیکٹرونکس، کیمیکل اور ریفریجریشن وائیر کنڈیشنگ،کمپیوٹرانفارمیشن ، پیٹرولیم‘ مائننگ اور شوگر ٹیکنالوجیز کی تعلیم دی جاتی ہے۔ طالبات کے لیے حیدر آباداور سکھر میں پولی ٹیکنک ادارے قایم ہیںجہاں گارمنٹس اور الیکٹرونکس ٹیکنالوجیز قایم ہیں۔ انٹر میڈیٹ کامرس کے مساوی ڈپلوما ان کامرس کے ادارے پہلے دور میں حیدر آباد، دادو، سکھر، نواب شاہ، لاڑکانہ اورخیر پور میرس میں قایم کیے گئے۔ بعد ازاں ٹھٹھہ، سانگھڑ، بدین، میر پور خاص، میرو خان، جیکب آباد، شکار پور، قاسم آباد، میہڑ ، ٹنڈوالہٰ یار، گھارو، سجاول، عمر کوٹ، مٹھی، ٹنڈ وآدم، روہڑی، ٹھری میر واہ، نوشہرو فیروز، پیر جو گوٹھ ‘ قاضی احمد، کنڈیارو، ہالہ، لکھی، کندھ کوٹ، شہداد کوٹ اور ڈگری میں ادارے قایم کیے گئے۔ تیسرے پنچ سالہ منصوبے میں لڑکوں کے لیے میٹرک کی سطح پر فنی تعلیم ( میٹرک ٹیکنیکل) دینے کے لیے نواب شاہ، دادو، سکھر، جیکب آباداور شکار پور میں آٹو جنرل الیکٹریشن، مشینسٹ اور ریڈیو الیکٹرونکس کی کلاسوں کا اجرا کیاگیا ہے۔جب کہ لڑکیوں کے لیے ٹیلرنگ اور مشین ایمبرائیڈری سکھانے کے لیے میٹرک لیول پر میر پور خاص اور سکھر میں کلاسوں کا اجرا کیاگیا ۔ لڑکیوں کے لیے پانچویں جماعت کے بعد سلائی‘ کڑھائی اور بُنائی کے فنون سکھانے کے لیے حیدرآباد،خیر پور میرس، سکھر اور لاڑکانہ میں ادارے قایم کیے گئے۔ جہاں ایک سالہ سرٹیفکیٹ اور دوسالہ ڈپلوما کورس کرائے جاتے ہیں ۔ بعد ازاں تعلقہ لیول پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے 45ادارے قایم کیے گئے جن میں بدین، وٹری، ہالہ ، ٹنڈو آدم، دادو، سیہون، جام شورو، میر پور خاص، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو غلام علی، ڈیپلو، ڈگری ، لطیف آباد ، میہڑ، جیکب آباد، نوشہرو فیروز، پنوں عاقل، گھوٹکی، قمبرعلی خان، شکار پور، تھڑی محبت، گڑھی یاسین، روہڑی، ماتلی، ٹنڈوغلام علی، عمر کوٹ، شہداد پور، مٹھی اور کنڈیارو نمایاں ہیں۔1976میں ولیج ورک شاپ اسکیم کے تحت پٹنی، بجرگی، شاہ پور چاکر، ہالہ اورسجاول میں غیر ہنر مند افراد کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا بندوبست کیاگیا۔ کمپیوٹروانفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک سالہ ڈپلوما کورس اور دیگر شاٹ کورسز کے لیے نجی اداروں نے تعلیم دینے کے لیے حیدر آباد، میر پور خاص، محراب پور، سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکار پور اور خیر پور میرس میں جدید ترین تعلیم وتربیت فراہم کی۔ بیچلر آف ٹیکنالوجی کی تعلیم گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کی تعلیم گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی حیدر آباد اور خیر پور میرس میں شروع کی گئی ۔ ڈپلوما اِن بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم دینے کے لیے سکھر میں نجی اداروں نے مخلوط طرز تعلیم کے تحت اس کام کی ابتدا کی۔ ان سرکاری اداروں کے قیام کی ذمّے داری ڈائریکٹریٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن نے انجام دی۔ جن کے ذمے داروں میں محمد ایچ ماما، ڈاکٹر میر محمد علی، انجنیر انعام الحق، انجینئر امام علی سومرو اور محمد عشرت محمود بیگ نمایاںہیں جن کی ان تھک کاوشوں کی وجہ سے پاکستان آج بھی ہنر مند افرادی قوت کے ذریعے کثیر زرمبادلہ کمارہاہے۔وزارت محنت کے ذیلی ادارے مین پاور ٹریننگ نے اندرون سندھ ایک سالہ اور دوسالہ سرٹیفکیٹ کورس کی تربیت کے لیے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر، ووکیشنل ٹریننگ سینٹر اور اپرنٹس ٹریننگ سینٹرقایم کیے جن کی تعداد بیس کے لگ بھگ ہے۔ ان اداروں کی ترویج کا سہرا گلزارعلی شاہ اور موجودہ ڈائریکٹر کریم بخش صدیقی کے سر ہے ۔ وزارت محنت کے تحت اسمال انڈسٹری نے قریباً ستّر ادارے قایم کیے جو کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن میںضم ہوچکے ہیں۔ سماجی بہبود کی وزارت نے لڑکیوں کے لیے کڑھائی سلائی کے دس ادارے قایم کیے ۔ نیزکمرشیل بنکوں اور پیٹرومین نے کمپیوٹرٹریننگ کے ادارے کھولے تھے ۔ نجی شعبے نے بھی اندرون سندھ فنی تعلیم کے فروغ کے لیے قابل قدر نمایاں خدمات انجام دیں۔ مختصر دورانیے کے ٹائیپنگ و شارٹ ہینڈ کورسز کا قدیم ترین ادارہ شکار میںقایم ہے جو قیام پاکستان سے قبل یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
قرآنی خطاطی روحانی وجمالیاتی روایت

قرآنی خطاطی روحانی وجمالیاتی روایت

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہے جو رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ امتِ مسلمہ نے اس مقدس کتاب کی حفاظت و اشاعت کے لیے بے مثال کوششیں کی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کو حفظ اور کتابت دونوں صورتوں میں محفوظ کیا‘ بعد ازاں خلفائے راشدین نے قرآن کریم کو ایک مرتب و مستند کتابی صورت میں امت کے لیے محفوظ کر دیا۔ہر دور کے مسلمانوں نے قرآن کریم کی انتہائی خوبصورت خطاطی کا اہتمام کیا۔ خلفائے عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ اور مغلیہ دور میں قرآنی خطاطی اپنے عروج پر رہی۔ فنِ تذہیب اور خطاطی کی مدد سے قرآنی نسخوں کو نہایت حسین انداز میں پیش کیا جاتا تھا تاہم نوآبادیاتی دور میں اسلامی ثقافتی ورثہ انحطاط کا شکار ہوگیا اور قرآنی خطاطی کی تابندہ روایت برقرار نہ رہ سکی۔ مغلیہ دور کے بعد قرآنی خطاطی کی سرکاری سرپرستی تقریباً ختم ہو کر رہ گئی یوں برصغیر میں قرآن مجید کے خوبصورت خطاطی شدہ نسخے تیار کرنے کی روایت کمزور پڑ گئی نتیجتاً مقامی سطح پر ''نسخِ ہندی‘‘ نامی ایک سادہ خط رائج ہو گیا جو جمالیاتی اعتبار سے دیگر مسلم دنیا کے معیار سے کم تر تھا۔یہی احساس' مصحفِ پاکستان پراجیکٹ ‘کی بنیاد بنا۔ اس منفرد منصوبے کا مقصد قرآن کریم کو اعلیٰ ترین اسلامی خطاطی، تذہیب کاری اور فنونِ لطیفہ کی روایت کے مطابق تخلیق کرنا ہے۔اس کام کا آغاز نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے فارغ التحصیل فنکار نصیر احمد بلوچ کی کاوشوں سے ہوا اور معروف خطاط عرفان احمد قریشی (سلطان رقم) بھی اس کا حصہ بن گئے۔ مصحفِ پاکستان کی منفرد خصوصیات میںاعلیٰ ترین فنِ خطاطی، خطِ ثلث اور خطِ نسخ کا حسین امتزاج، نیزیاقوت مستعصمی، احمد قرہ الحصاری اور عبدالباقی حداد جیسے اساتذہ خطاط کے طرزِخطاطی سے استفادہ اور عہدِ عثمانیہ کے خطاطوں کے اندازِ کتابت کی جھلک دکھانا شامل ہے۔روایتی تذہیب اور پائیداری اس میںبرصغیر کے روایتی اسلامی فنِ تعمیر میں استعمال ہونے والے نقوش اور خطاطی کے امتزاج پر مبنی ڈیزائن اور سونے کے ورق اور قدرتی رنگوں اور نایاب جواہرات کے پاؤڈر سے تذہیب کاری شامل ہے جبکہ اس منصوبے کے تحت کاغذ کی تیاری میں شہتوت کے درخت سے حاصل کردہ مواد کا استعمال کیا جاتا ہے جو کم از کم ایک ہزار سال تک محفوظ رہ سکتا ہے نیز اخروٹ کی چھال سے کشید کردہ رنگ، انڈے کی سفیدی اور پھٹکڑی کے محلول سے تیار کردہ سطح جسے عقیق سے مہرہ کرکے ایک سال تک سیزن کیا جاتا ہے اور قدرتی سیاہی اور معدنیات سے حاصل کردہ مستند اسلامی رنگوں کا استعمال شامل ہے۔ قرآن میوزیم اور مستقبل کی راہ مصحفِ پاکستان کو محفوظ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو اسلامی خطاطی اور تذہیب کے عظیم ورثے سے روشناس کرانے کے لیے ''قرآن میوزیم‘‘بھی قائم کیا جا رہا ہے جہاں قرآنی نسخوں کے نادر و نایاب نسخے، خطاطی کے تاریخی نمونے اور اسلامی آرٹ کے شاہکار محفوظ کیے جائیں گے۔یہ منفرد قرآنی نسخہ پاکستان کو عالمی سطح پر اسلامی فنونِ لطیفہ کے میدان میں نمایاں کرے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے پاکستان دنیا بھر میں قرآنی خطاطی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قرآنی خطاطی عہد بہ عہدقرآنی خطاطی کی تاریخ مسلسل ارتقا کی داستان ہے۔ ہر دور نے اس میں جدت، خوبصورتی اور نکھار پیدا کیا۔قرآنی خطاطی کی تاریخ مختلف ادوار میں ارتقا پذیر رہی ہے، جس میں ہر دور نے اپنے مخصوص طرز اور تکنیک کو جنم دیا۔ آج بھی قرآنی خطاطی اسلامی ثقافت کا ایک لازوال جز ہے اور اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے دنیا بھر میں خطاط کام کر رہے ہیں۔ ابتدائی اسلامی دور (7ویں-9ویں صدی) اسلام کے ابتدائی ایام میں قرآنی خطاطی زیادہ تر حجازی اور کوفی خط میں تھی۔ حجازی خط سادہ اور قدرے ترچھا تھا جبکہ خطِ کوفی زیادہ مربع اور زاویہ دار تھا جو بعد میں مختلف شکلیں اختیار کر گیا۔ عباسی دور (8ویں-13ویں صدی) عباسی خلافت میںخطِ کوفی نے مزید ترقی کی اور اس میں مشرقی کوفی، مغربی کوفی اور مزخرف کوفی جیسے انداز متعارف ہوئے۔ اسی دور میں خطِ نسخ کی بنیاد رکھی گئی جو بعد میں قرآن مجید کی کتابت کے لیے معیاری خط قرار پایا۔ مملوک اور اندلسی دور (13 ویں - 16 ویں صدی) مملوک سلطنت میں قرآنی نسخے زیادہ تر خطِ ثلث اور خطِ نسخ میں لکھے جاتے تھے جبکہ اندلس میں مغربی خط اور مرَبَّع خط کا رجحان رہا جو آج بھی شمالی افریقہ میں مقبول ہے۔ عثمانی دور (15ویں-20ویں صدی) خلافت عثمانیہ میں قرآنی خطاطی میں بے پناہ ترقی ہوئی اور خطِ دیوانی،خطِ ریحانی،خطِ طغرا اورخطِ تعلیق جیسے خط متعارف کرائے گئے۔ حمد اللہ اماسی اور شیخ حفیظ آفندی جیسے عظیم خطاطوں نے عثمانی دور میں قرآنی خطاطی کو لازوال شہرت دی۔ مغلیہ اور صفوی دور (16ویں-18ویں صدی) مغلہ دور میں فارسی طرز پر خطِ نستعلیق کو فروغ ملا مگر قرآنی کتابت زیادہ تر خطِ نسخ اورخطِ ریحانی میں ہوتی رہی۔اُدھر ایران میں صفوی دور میں خطاطی کے لیے زیادہ نفاست اپنائی گئی اور خطِ شکستہ نستعلیق جیسے اسلوب سامنے آئے۔ جدید دور (20ویں-21ویں صدی) جدید دور میں عرب دنیا، ترکی، ایران اور پاکستان میں کمپیوٹر خطاطی کو فروغ ملا مگر روایتی خطاطی اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سید محمد زکریا، شفیق الزمان اور عثمان طہٰ جیسے خطاطوں نے جدید قرآنی خطاطی میں نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں۔    

ایران کی دو خوبصورت مساجد

ایران کی دو خوبصورت مساجد

شاہ مسجد، اصفہانعہدِ صفوی کی یہ مسجد اسلامی فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ ایران کے مشہور شہر اصفہان کے نقشِ جہاں اسکوائر سے جنوب کی جانب واقع ہے۔ اس کی فنی خوبصورتی کے باعث اس مسجد اور اس سے ملحقہ نقش جہاں اسکوائر کو یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ اس کو '' امام مسجد‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس مسجد کی تعمیر 1611ء میں شروع ہوئی۔ اس کی شان و شوکت اس میں لگی ہوئی سات رنگی ٹائلوں کی مرہون منت ہے۔ یہ مسجد1629ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس مسجد کی لمبائی430 فٹ اور چوڑائی330فٹ ہے۔ اس کے گنبد کی بلندی 174فٹ ہے جبکہ اس کے چار مینار ہیں ہر مینار کی بلندی 189فٹ ہے۔ اس میں 60ہزارنمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کا ڈیزائن ایران کے مشہور ماہر تعمیرات شیخ بہائی نے بنایا تھا۔ مرکزی ہال میں قبیلہ والی محراب دس فٹ بلند ہے جس کی پیشانی پر قرآنی آیات تحریر ہیں۔مسجد کا صحن 230فٹ لمبا اور اتنا ہی چوڑا یعنی مربع شکل کا ہے۔ایران عرصہ دراز سے کاریگروں اور ماہر فن کاروں کا گڑھ رہا ہے۔ ماضی میں مغلیہ دور میں اور اس سے قبل یہاں کے فن کاروں نے برصغیر میں ایرانی فن تعمیر اور نقش و نگار کو متعارف کروایا۔ ان ایرانی فنکاروں کے فن پارے آج بھی اپنے تخلیق کاروں کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس مسجد کی تصویر ایران کے بیس ہزار ریال کے نوٹ پر بھی چھپی ہوئی ہے۔مسجد گوہر شاہ، مشہددنیائے اسلام میں جہاں مردوں نے خوبصورت مساجد تعمیر کروانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں خواتین بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے میں پیچھے نہ رہیں۔ انہی میں امیر تیمور کی بیگم کے نام سے مسجد بی بی خانم (سمر قند) تیموری دور کی خوبصورت مساجد میں شمار کی جاتی ہے۔ امیر تیمور اور بی بی خانم کی بہو اور ان کے بیٹے شاہ رخ کی بیگم گوہر شاہ بھی اپنی ساس سے کسی طرح کم نہ ٹھہری۔ ملکہ گوہر شاہ نے اپنے درباری ماہرِ تعمیرات زین الدین شیرازی کو حکم دیا کہ مشہد میں ایک خوبصورت اور عالیشان مسجد تعمیر کی جائے۔1418ء میں مسجدکی بنیاد رکھی گئی۔ اصفہان اور شیراز سے ماہر فن کار اور کاریگر بلائے گئے۔ انہوں نے ملکہ کی خواہشات کے مطابق مسجد تعمیر کرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں۔ استاد شیرازی کی زیر نگرانی یہ مسجد بارہ سال میں مکمل ہوئی۔ مسجد سمر قندی طرز تعمیر سے تیار کی گئی۔ پیازی طرز کا گنبد مسجد کی شان ہے۔ گنبد کا رنگ فیروزی ہے، مسجد کا کل رقبہ 101292مربع فٹ ہے اور صحن 180فٹ لمبا اور 160فٹ چوڑا ہے۔ مسجد کے صحن میں سنگ مر مر استعمال کیا گیا ہے صحن کے تینوں اطراف میں برآمدے بنائے گئے ہیں۔ مسجد کے دو مینار ہیں جو 131فٹ بلند ہیں۔ گنبد کا قطر49فٹ اور اس کا محیط207فٹ ہے صحن سے مسجد کے اندر ہال میں داخل ہونے کیلئے نو محرابی دروازے ہیں۔ گنبد کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ دہری تہہ میں بنایا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں سرخ اینٹوں، ٹائلوں اور سنگ مر مر کا استعمال کیا گیا ہے۔ خطِ کوفی میں قرآنی آیات اتنی خوشخطی سے تحریر کی گئی ہیں کہ چھ صدیاں گزرنے کے بعد بھی زمانے کے حوادث ان کی آب و تاب میں سرموفرق نہیں لا سکے۔ مسجد کا منبر اخروٹ کی لکڑی سے تیار کیا گیا ہے۔ منبر کی تیاری میں کہیں بھی لوہے کی میخ کا استعمال نہیں کیا گیا۔ مسجد کے ہال میں ہاتھ سے تیار کردہ خوبصورت ایرانی قالین بچھائے گئے ہیں۔ مسجد سے ملحق ایک بڑی لائبریری ہے جس میں 35ہزار کتب رکھی گئی ہیں۔ شاہ رخ کے صدر مقام ہرات میں ایک خوبصورت مدرسہ بھی استاد زین الدین شیرازی کی زیر نگرانی مکمل ہوا تھا۔ ملکہ گوہر شاہ امیر تیمور کے پوتے اور شاہ رخ کے بیٹے الغ بیگ کی والدہ تھی۔ الغ بیگ ایک بڑا حکمران، مشہورہیت دان اور سائنسدان تھا۔صفوی حکمران شاہ عباس نے مسجد گوہر شاہ کی مرمت اورتزئین و آرائش پر خاص توجہ دی۔1803ء میں زلزلے نے اس مسجد کے کچھ حصے کو نقصان پہنچایا جس کی بعد میں مرمت کر دی گئی۔  

رمضان کے پکوان:فرائیڈویجیٹیبل مونگ پھلی کے ساتھ

رمضان کے پکوان:فرائیڈویجیٹیبل مونگ پھلی کے ساتھ

اجزاء :مونگ پھلی بھنی ہوئی ایک پیالی ،ہری پیاز آٹھ عدد ،کھیرا ایک عدد( چھیل کر بیج نکال لیں )،سیم کی پھلی بارہ عدد (باریک کاٹ لیں )،گاجر دوعدد( سلائس کرلیں)،ہلدی دوچائے کے چمچ،لہسن کے جوئے دوعدد( کچل لیں )،کچی پیاز آٹھ عدد( باریک کٹی ہوئی )،نمک حسب ذائقہ ،آم (اگر موسم ہو تو)ایک عدد( سلائس کرلیں)،سفید سرکہ دوکھانے کے چمچ،چکن یخنی آدھی پیالی ، کوکنگ آئل دوکھانے کے چمچترکیب :مونگ پھلی کو چھیل کر ہلکا سا کچل لیں۔ ہری پیاز آدھی آدھی کاٹ کر لمبی لمبی کاٹ لیں ۔ کھیرے کے سلائس کرلیں۔ ایک کڑاہی میں کوکنگ آئل گرم کریں، پھر اس میں ہری پیاز اور گارجریں ڈال کر ہلکا سا برائون کرلیں پھر کچی پیاز ہلدی، شکر، سرکہ، نمک، لہسن ڈال کر ایک منٹ کیلئے اسٹرفرائی کریں پھر آم، کھیرا، پھلی اور مونگ پھلی ڈال کر مزید دو منٹ کیلئے اسٹرفرائی کریں پھر یخنی ڈال کر پانچ منٹ کیلئے پکا کر اتار لیں۔ گرم گرم پیش کریں۔ مقدار:یہ ڈش چارافراد کیلئے کافی ہے۔  

حکایت سعدیؒ :سوداگرکا حرص

حکایت سعدیؒ :سوداگرکا حرص

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار ایران کے جزیرہ کیش میں میری ملاقات ایک مال دار سودا گر سے ہوئی۔ اس کا سامان تجارت 40 اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔کارواں سرائے میں یہ سوداگر آرام کرنے کے لیے ٹھہرا تو مجھے اپنے ساتھ اپنی کوٹھڑی میں لے گیا اور ساری رات باتوں کا چرخہ چلائے رکھا۔ کبھی کہتا میرا ایسامال ترکستان میں ہے۔ فلاں شے ہندوستان میں ہے۔ میں نے اتنی زمین سکندر یہ میں خریدی ہے اور فلاں شخص کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔پھر بولا: اے سعدی ان دنوں تو مغربی سمندروں میں طوفان ہے۔ موسم ٹھیک ہو گا تو میں اپنی زندگی میں بس ایک سفر اور کروں گا۔ اس کے بعد اطمینان سے اپنی دکان پر بیٹھ جاؤں گا اور باقی عمر یا دِ خدا میں گزار دوں گا۔میں نے پوچھا:وہ کون ساسفر ہے جس کا تو نے ارادہ کر رکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا: میں ایران کی گندھک چین لے جاؤ گا۔ وہاں سے چینی کے برتن خرید کر روم پہنچاؤں گا۔ روم کا ریشم ہندوستان اور ہندوستان کا کوئلہ حلب لے جانے کا ارادہ ہے۔ حلب کا شیشہ یمن اور یمن کی چادریں ایران میں فروخت کروں گا۔اس حریص سوداگر کے لیے لمبے چوڑے ارادے سن کر میں تو حیراں رہ گیا۔ سچ ہے:مال کتنا بھی ملے ہوتا نہیںیہ مطمئن اپنی محرومی کا سوتے جاگتے کرتا ہے شورکچھ بھی کر لیں چشم دنیا دار رہتی ہے حریصیا قناعت اس کو پُر کرتی ہے یا پھر خاص گورحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اس سچائی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مال کی حرص میں مبتلا ہو جانے والا شخص کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔اس کی حالت استسقا کے مریض کی سی ہوتی ہے کہ وہ خواہ کتنا بھی پانی پی لے اس کی پیاس نہیں بجھتی۔٭٭٭٭   

آج کا دن

آج کا دن

7ممالک کی نیٹو میں شمولیت2004ء میں بلغاریہ، ایسٹونیا، لٹویا، لیتھوینیا، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووینیا نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ نیٹوکو مغربی فوجی اتحاد بھی کہا جاتا ہے اور اس اتحاد میں شامل ممالک ایک دوسرے کاکسی بھی مشکل صورتحال میں دفاع کرنے کے ذمہ دار ہیں۔موجودہ روس یوکرین تنازع بھی نیٹو میں شمولیت کے معاملے پر ہی شروع ہواتھا ۔ نیٹو میں شامل ممالک اس کے قواعد و ضوابط کے بھی پابند ہوتے ہیں۔عالمی جنگ میں جرمنی کو شکست 1945ء میں سوویت یونین کی فوج نے جرمنی کی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔عالمی جنگ کے دوران سوویت یونین نے پیش قدمی کرتے ہوئے جرمن افواج کو یرغمال بنایا اورآخر کار جرمنی کی فوج کو شکست کھانا پڑی۔یہ دوسری عالمی جنگ کا وہ موقع تھا جب جرمنی کو مختلف مقامات پر پسپائی کا سامنا تھا۔ ہپناٹائز قتل1951ء میں کوپن ہیگن میں دو افراد‘ جو ناکام بینک ڈکیتی کے ملزم تھے‘ کو ہپناٹائز کر کے قتل کیا گیا۔قاتلوں کو بھی گرفتار کرلیاگیا۔تحقیقات کے بعد دونوں افراد کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔اس مقدمے میں عدالت نے ماہر نفسیات کی معاونت بھی حاصل کی جواس نتیجے پر پہنچے کہ اس قتل کیلئے ملزمان نے ہپناٹزم کا استعمال کیا ۔ سگریٹ پر پابندی2004ء میں برطانیہ اور آئرلینڈ نے پبلک ہیلتھ ایکٹ کے ذریعے عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی ۔دفاتر میں بھی سگریٹ پینے کو ممنوع قرار دیا گیا۔جن جگہوں پر سگریٹ پینے پر پابندی عائد کی ان میںگاڑیاں، دفاتر، کلب، ریسٹورنٹ اور کمرشل و رہائشی عمارتیں شامل تھیں۔ یہ اقدام برطانیہ اور آئر لینڈ میں سگریٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے کیلئے کیاگیا۔اس کے ثمرات بھی دیکھنے کو ملے۔ اس فیصلے پر عمل کرنے کے باعث برطانیہ میں سگریٹ سے ہونے والی بیماریوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔  

دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

الصالح مسجد صنعاء یمنالصالح مسجد صنعاء میں رمضان کے مبارک مہینے (ستمبر2008ء میں کھول دی گئی تھی۔ یہ مسجد صنعاء شہر میں اسلامی تعمیرات کا ایک بہت بڑا شاہکار ہے۔ یمن کے سابق صدر عبداللہ صالح نے اپنے ذاتی خرچ سے یہ مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجد اپنے عالیشان چھ میناروں اور پانچ گنبدوں کی وجہ سے بہت شہرت کی حامل ہے۔ اس مسجد کے دو بڑے مینار328فٹ اور چار چھوٹے مینار67فٹ بلند ہیں۔مرکزی گنبد 130فٹ بلند ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 27300مربع میٹر ہے جبکہ بڑے مرکزی ہال کا رقبہ13596مربع میٹر ہے۔ ہال کی چھت 24میٹر بلند ہے۔ مرکزی ہال میں 44 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ خواتین کیلئے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں مقامی یمن کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ڈیزائن کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یمن کے روایتی فن تعمیر اور جدید فن تعمیر کو اس طرح یک جا کردیا گیا ہے کہ مسجد کے حسن میں گرانقدر اضافہ ہو گیا ہے۔سلطان عمر علی سیف الدین مسجد برونائی شاہی مسجد سلطنت برونائی کے دارالحکومت بندرسری بیگوان میں واقع ہے۔ یہ ایشیائی بحرالکاہل کے خطے کی ایک خوبصورت مسجد شمار کی جاتی ہے اور برونائی کے 28ویں حکمران سلطان عمر علی سیف الدین سوم کے نام سے موسوم ہے۔ دنیائے اسلام کی یہ قابل دید مسجد 1958ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں مغل اور اطالوی فن تعمیر کا عکس نمایاں ہے۔یہ مسجد ایک مصنوعی جھیل میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے مرمریں مینار، نہری گنبد، سرسبز درخت، رنگ برنگ پھولوں سے لدے لان اور ان کے درمیان اٹھیلیاں کرتے ہوئے سینکڑوں فوارے، جنت اراضی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ پاس ہی دریا کے اوپر مسجد میں داخل ہونے کیلئے ایک خوبصورت طویل پل بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ایک طرف جھیل ہی میں ایک خوبصورت پل بحری جہاز کے مشابہ بنایا گیا ہے جس میں قرأت کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ مسجد کے مینار 171 فٹ بلند ہیں۔ لفٹ کے ذریعے ان کے اوپر چڑھ کر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ مسجد کا بڑا گنبد خالص سونے سے مزین ہے۔ اس میں استعمال ہونیوالا سنگ مر مر اٹلی سے، سنگ خارا شنگھائی سے، فانونس برطانیہ سے اور ہال میں بچھانے کیلئے قالین سعودی عرب سے منگوائے گئے تھے۔مسجد الکبیر کویتمسجد الکبیر ملک کی ایک خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے اس کو سرکاری مسجد کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اسلامی فن تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ اس کا کل رقبہ 45ہزار مربع میٹر ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد 1979ء میں رکھا گیا اور یہ 1986ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر 14ملین کویتی دینار خرچ ہوئے۔ مسجد کا مرکزی ہال 236میٹر لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہے۔ ہال میں قدرتی روشنی کیلئے 144کھڑکیاں نصب کی گئی ہیں۔21 دروازے ساگوان کی لکڑی کے ہیں۔ مسجد کے گنبد 141فٹ اونچا ہے جس کے اندر اسماء الحسنیٰ نہایت خوبصورتی سے تحریر کئے گئے ہیں۔ مسجد کا واحد مینار243فٹ اونچا ہے۔اس مسجد میں دس ہزار حضرات اور ایک ہزار خواتین بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد سے ملحقہ ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے، نیز صحن کے سامنے چھ سو کاروں کی پارکنگ کا انتظام بھی موجود ہے۔الا مین مسجد، بیروت لبنان یہ مسجد بیروت شہر کے مرکز میں واقع میدان شہداء میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق جریری کے ہاتھوں 2002ء میں رکھا گیا تھا ۔ مسجد کا افتتاح رفیق حریری کے صاحبزادے سعد حریری نے 17اکتوبر 2008ء کو کیا یہ مسجد 2007ء میں مکمل ہو چکی تھی۔ اس کا ڈیزائن استبول کی سلطان احمد مسجد سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا تھا۔ مسجد کے گنبد اور مینار ہو بہو سلطان احمد مسجد کی نقل ہیں۔ اس کا کل رقبہ 115178مربع فٹ ہے۔ یہ مسجد یوں تو استنبول کی نیلی مسجد( سلطان احمد مسجد) کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کی تعمیر میں ڈیزائنر نے لبنانی فن تعمیر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔مسجد کے چاروں مینار 236 فٹ بلند ہیں جو مسجد الحرام کے میناروں کے ڈیزائن سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والا پتھر بھی سعودی عرب سے منگوایا گیا ہے۔مسجد کے مرکزی ہال میں اتنے شاندار فانوس لٹک رہے ہیں کہ جب وہ جلتے ہیں تو ہال بقعۂ نور بن جاتا ہے۔