حضرت موسیٰ علیہ السلام
اسپیشل فیچر
حضرت موسیٰ علیہ السلام ،حضرت یعقوب ؑکی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ظالم وجابر بادشاہ فرعون نے حکم دے رکھا تھا کہ میری سلطنت میں جو بھی بچّہ پیدا ہو، اُسے قتل کردیا جائے، کیوں کہ کسی نجومی نے فرعون کو پیش گوئی کررکھی تھی کہ ایسا بچّہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تیری سلطنت اور حکومت ختم کردے گا، چناں چہ جو بچّہ پیدا ہوتا فرعون کے جلّادسپاہی اسے موت کے گھاٹ اُتار دیتے۔اس نے تقریباً 30ہزار بچّے قتل کرادیئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی توآپ ؑ کے والدین سخت پریشان ہوئے کہ بچّے کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟ تین مہینے تک بچّے کی پیدائش سے متعلق کسی کو بھی خبر نہ ہونے دی۔آپ ؑ کی والدہ ماجدہ بہت پریشان ہوتیں اور روتی رہتیں۔ آخراللہ تعالیٰ نے ا ٓپ ؑکی والدہ کے دل میں ایک عجب ترکیب ڈالی کہ تم ایک صندوق تیار کرو، جو مضبوط اورپانی سے محفوظ ہو۔ اس میں معصوم بچّے حضرت موسیٰ ؑ کو رکھ کر دریا میں چھوڑدو،بے فکر رہو۔ دیکھو، میں کیا کرنے والا ہوں۔ عن قریب حضرت موسیٰ ؑکو آپ کی طرف لوٹادوں گا۔ چناں چہ والدہ نے حضرت موسیٰ ؑ کو صندوق میں لٹاکر دریا میں چھوڑدیا اور اپنی بڑی صاحب زادی سے کہا کہ تم بھی دریا کے کنارے چلتی جاؤاور دیکھو یہ صندوق کہاں جاتا ہے؟ آپؑ کی ہم شیرہ دریا کے کنارے چل رہی تھیں کہ صندوق بہتا ہوا اُس نہر میں چلا گیا، جو فرعون کے باغ تک جاتی تھی۔ فرعون اُس وقت اپنی اہلیہ حضرت بی بی آسیہؑ اوردیگرافراد کے ہم راہ باغ کی سیرکررہاتھا۔نہرمیںصندوق دیکھ کر لوگ اُسے فرعون کے پاس لے آئے ،حضرت موسیٰ ؑکی بہن نے یہ تمام حال والدہ کوجاکربتایا۔والدہ غم سے نڈھال ہوکراللہ کے حضور سجدہ ریزہو گئیں ۔اُدھر جب فرعون نے صندوق کھول کر دیکھا کہ ایک نوزائیدہ معصوم بچّہ لیٹاہوا ہے ،اُس نے ہامان سے کہا کہ یہ وہی لڑکا تو نہیں جس کے بارے میں نجومیوں نے مجھے خبر دار کیا تھا۔ اسے فوراً مار ڈالو لیکن فرعون کی اہلیہ نے کہا کہ میں اس خوب صورت بچّے کو قتل کرنے نہیں دوں گی فرعون نے اپنی حضرت بی بی آسیہؑ کی بات مان لی اور بی بی آسیہؑ نے حضرت موسیٰ ؑ کو اپنا بیٹا بنا لیا، دائیوں کو حکم دیا کہ اُسے دودھ پلاؤ ،لیکن آپ ؑ کسی کا دودھ نہ پیتے۔حضرت موسیٰ ؑ کی بہن جوبار بارانجان بن کر فرعون کے دربار میں آتی تھی،اپنی والدہ کو بُلا لائیں ۔والدہ نے جیسے ہی موسیٰ ؑکو لیا تواُنہوںنے اپنی والدہ کا دودھ پینا شروع کردیا۔اللہ تعالی نے اس طرح حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ سے کیا وعدہ پورا کردیا۔جب آپؑ تین برس کے ہوئے تو ایک دن حضرت آسیہؑ نے آپ ؑ کو فرعون کی گود میں بٹھا یا توحضرت موسیٰ ؑ نے اُس کی ڈاڑھی پکڑ کر اس قدر زور سے کھینچی کہ چند بال بھی ہاتھوں میں آگئے۔فرعون غصّے میں لال پیلا ہو گیا اورکہنے لگا: ’’یہی ہے وہ جو میری سلطنت کو برباد کرے گا۔‘‘چناں چہ فرعون نے آپ ؑ کو پھرقتل کرنا چاہا مگر حضرت آسیہ ؑنے ایک بار پھرحضرت موسیٰ ؑ کو بچا لیا ۔ اس کے بعد فرعون نے کبھی حضرت موسیٰ ؑ کی طرف توجّہ نہیں دی، وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ آپ ؑ 23 برس کے ہوگئے۔ (باقی آئندہ) ایک دن حضرت موسیٰ ؑ دریائے نیل کے کنارے نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک فرعون کا نوکر وہاں سے گزرا اور کہنے لگا کہ یہ عبادت کِس کے لیے کر رہے ہو ؟آپؑ نے فرمایا : ’’اپنے رَبّ کے لیے۔‘‘اُس نے کہا: ’’ یہ عبادت اپنے باپ فرعون کے لیے کیوں نہیں کرتے ؟ کیا فرعون کے علاوہ بھی کوئی رَبّ ہے؟‘‘اُ س نے یہ خبر فرعون تک پہنچادی ،بس اُسی وقت سے فرعون کُھلی دشمنی پر اُتر آیا ۔ حضرت موسیٰ ؑ مصر کی سرزمین کو خیر باد کہہ کر مدین چلے گئے۔جب آپ ؑکی عمر چالیس سال سے زیادہ ہو ئی اور نبوّت بھی مل گئی تو فرعون کے دربارمیں دعوتِ تو حید دینے تشریف لائے ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کے سامنے دو باتیں رکھیں، ایک یہ کہ تم خود ایمان لاؤ ،اور دوسری یہ کہ بنی اسرائیل کی قوم جسے تم نے غلام بنا رکھا ہے، اُسے آزادی دے دو۔بنی اسرائیل شام کے باشندے تھے اور وہاں جانا چاہتے تھے لیکن فرعون نے اُنہیں زبردستی روک رکھاتھا،وہ چار سو سال سے اُس کی غلامی کر رہے تھے ،اُ س وقت اُن کی تعداد چھے لاکھ تیس ہزار تھی۔ پیغام ِ حق سُن کر فرعون سے جواب نہ بن سکا،اُس نے بات کو مذاق میں اُڑانے کی کوشش کی ۔حضرت موسیٰ ؑ نے جرأ ت مندی سے کہا: ’’اے فرعون! تیرے پاس اگر کوئی دلیل ہے تو ظاہر کر۔‘‘فرعون لاجواب ہوگیا۔اس لیے اُلٹا مطالبہ کردیا کہ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو اپنے معجزات ظاہر کرو۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی لاٹھی زمین پر ماری۔ لاٹھی زمین پر گرتے ہی نہایت ڈراؤنی شکل والا بڑاسانپ منہ پھاڑے اور پھنپھناتے ہوئے ظاہر ہوااور فرعون کی طرف بڑھا ۔ فرعون تخت سے کُودا اور چلّا کر کہنے لگا: ’’ اے موسیٰ ؑ اِسے روکو۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑنے اُسے پکڑ ا تو وہ پھرلاٹھی بن گئی۔ حضرت موسیٰ ؑنے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تووہ چاند کی طرح چمک رہاتھا۔ فرعون اور اُس کے درباری لاجواب ہوگئے لیکن ضد کی بنا پر ماننے سے انکار کردیا۔ کھلے معجزات دیکھ کر درباریوں نے فرعون سے کہا:’’ موسیٰ بڑا جادوگر ہے، اِس کاارادہ ہے کہ تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال دے۔‘‘اُدھر قوم معجزات دیکھ کر حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لانے لگی، تب اللہ تعالیٰ کا حکم آیا کہ میرے بندوں کو راتوںرات مصر سے نکال کر اپنے باپ دادا کی سرزمین کی طرف لے جاؤَ(یعنی مصر سے فلسطین منتقل کردو)۔ حضرت موسیٰ ؑ چھے لاکھ افراد کو لے کر جب دریائے نیل پہنچے تو اللہ کے حکم سے دریا میں خشکی کے بارہ راستے بن گئے ۔فرعون کو صبح خبر ہوئی تو وہ حضرت موسیٰ ؑاور اُن کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے لیے فوج کے ساتھ دریاکے اُنہی راستوں میںجیسے ہی داخل ہوا، اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریانے اُنہیں چاروں طرف سے آلیا، عذاب آگیا توفرعون پر سکرات کاغلبہ ہونے لگا، وہ کہنے لگا:’’ میں ایمان لاتا ہوں۔واقعی موسیٰ ؑ کے رَبّ کے سوا کوئی دوسراخُدا نہیں ہے ۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ عذاب دیکھنے کے بعد ایمان لانا، نفع نہیںدیتا۔‘‘ چنا ں چہ فرعون پانی میں غرق ہو کر ہلاک ہو گیا، لہروں نے اُ س کی نعش کنارے پر پھینک دی۔ اللہ نے اُس کی نعش کو دُنیا میں قیامت تک کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔ آج بھی اُس کی لاش مصر کے عجائب گھر میں پڑی دعوتِ عبرت دے رہی ہے ۔اس طرح کے دیگر دل چسپ اور حیرت انگیزواقعات قرآنِ مجید میں جا بجا مذکور ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑوہ واحد پیغمبر ہیں جن کا ذکر قرآنِ مجید میں سب سے زیادہ یعنی 28 سپاروں میںموجود ہے ،جب کہ آپؑ کا نام 36 سورتوں میں 36 بار استعمال ہواہے۔حضرت موسیٰ ؑنے تقریباً ایک سو بیس سال کی عمر پائی۔