لیلتہ القدر اور اس کی فضیلت
اسپیشل فیچر
شب ِ قدر بعض دفعہ 21 ویں رات کو بھی پائی جاتی ہے اور بعض دفعہ 27 ویں رات کو ***لیلۃ القدرکا معنی ’’عزت و شرف والی رات‘‘ ہے چونکہ اس مبارک رات میں قرآن مجید نازل ہوا اس وجہ سے اس رات کو شرافت و بزرگی، بڑائی اور ایک خاص مرتبہ حاصل ہے۔قرآن مجید میں اس بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے پوری ایک سورۃ نازل فرمائی ہے جسے سورۃ القدر کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یقینا ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔ آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں (کی عبادت) سے بہتر ہے اس میں ہر کام کو سرانجام دینے کو اللہ کے حکم سے فرشتے اور روح الامین اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔‘‘دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یقینا ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا۔ بے شک ہم ڈرانے والے ہیں، اس رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ ہماری جانب سے ہے اور ہم بھیجنے والے ہیں‘‘(الدخان:3-5)۔بعض لوگوں نے اس آیت کریمہ کی مراد 15 شعبان کو قرار دیا ہے جسے عرف عام میں شب برأت بھی کہتے ہیں۔ لیکن یہ تفسیر درست نہیں ہے کیونکہ قرآن کی نص صریح سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے یہ قرآن شب قدر میں نازل ہواہے۔ اسے ہی سورۃ دخان میں لیلۃ مبارکہ قرار دیا گیا ہے اور یہ رات رمضان المبارک میں ہی ہے کیونکہ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ماہ رمضان وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘(البقرۃ: 185) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا اور دوسری آیات سے معلوم ہوا کہ وہ اس ماہ کی اس رات میں نازل ہوا ہے جسے شب قدر کہتے ہیں۔ یہ رات بڑی بابرکت ہے۔اس کے چار بڑے بڑے فضائل یہ ہیں:٭اس میں قرآن جیسی کتاب ہدایت کا نزول ہوا۔٭اس میں فرشتوں اور روح الامین جبریل علیہ السلام کا نزول۔٭ اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔٭ اس کی عبادت ہزار مہینے (83 سال 4ماہ) کی عبادت سے بہتر قرار دی گئی ہے۔شب قدرکا قیامنبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے: جس نے شب قدر کا قیام ایمان و ثواب سمجھ کرکیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے گئے۔شب قدر کیلئے محنت و کوشش:سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں عبادت کی جس قدر محنت و کوشش کرتے وہ اس کے علاوہ کسی وقت میں نہیں کرتے تھے۔سیدہ عائشہؓ نے ہی فرمایا: ’’جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اللہﷺ کمربستہ ہو جاتے اور اپنی رات کو زندہ رکھتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے۔شب قدر کی دعا:’’میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر کونسی رات ہے تو میں اس میں کیا کہوں؟ تو آپ نے فرمایا تو کہہاَللّٰھُمَّ اِنِّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْترجمہ: اے میرے اللہ! یقینا تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف کردے!لیلۃ القدر کی تلاشسیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے ان میں سے کوئی خاص رات متعین نہیں یہ بعض دفعہ 21 رات کو بھی پائی گئی ہے۔ اور بعض دفعہ 27ویں رات کو بھی۔لیلۃ القدر کی علاماتلیلۃ القدر کی پہچان کیلئے مندرجہ ذیل چند صحیح علامات بیان کی گئی ہیں:٭سیدنا ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں ’’شب قدرکی صبح کو سورج کے بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی وہ ایسے ہوتا ہے جیسے کہ تھالی۔٭سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے قریب لیلۃ القدر کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کون اسے یاد رکھتا ہے(اس رات) جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ ہو۔٭ایک اور روایت میں ہے کہ شب قدر پرسکون و معتدل رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی۔ اس کی صبح کو سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدہم ہو جاتی ہے۔ شیخ سلیم الہلالی اور شیخ علی حسن عبدالحمید نے اس روایت کو سند کو حسن کہا ہے۔مذکورہ بالا آیات و احادیث سے شب قدر کی بہت زیادہ فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا اس عظیم رات میں قیام، تلاوت قرآن، کثرت دعا جیسے امور بخشش کو ضرور اختیار کیجیے۔ اور اپنی بخشش کا سماں پیدا کیجیے۔ وہ انسان کتنا ہی بدنصیب ہوگا جسے یہ ماہ مبارک نصیب ہو لیکن وہ اپنی بخشش اور جہنم سے رہائی نہ کروا سکے۔٭٭٭٭٭٭