فلسطین کے قومی شاعر (محمود درویش کی یاد میں)
اسپیشل فیچر
’’ہم اس ستارے سے وداع لے رہے ہیں، جس سے ہم دل و جان سے محبت کرتے تھے۔ نو اگست اس کی موت کا دن ہے۔ نو اگست فلسطین کی تاریخ اور انسانی ثقافت میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘‘۔ یہ الفاظ تھے فلسطین کے صدر محمود عباس نے اپنے قومی شاعراور بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب محمود درویش کے انتقال(9 اگست 2008ء)کے موقع پر۔۔۔فلسطین کے ممتازشاعرمحمود درویش نے زندگی بھر اپنی شاعری کو فلسطینی مسئلے کو اُجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا ،یہی وجہ ہے کہ اُنھیں فلسطین کا قومی شاعر کہا جاتاہے۔وہ فلسطین کے قومی ترانے کے بھی خالق ہیں۔1993 ء میں اُنھوں نے خود سے فلسطینی عوام کے لیے ایک منشور بھی مرتب کیا تھا۔محمود درویش 13مارچ 1941ء کو فلسطین کے ایک گاؤں البرمے میں پیدا ہوئے۔ وہ ابھی سات برس کے تھے کہ اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد اسرائیلی فوجوں نے اپنی غاصبانہ آزادی کے نشے میں بحیرہ قلزم کے ساحلوں پہ آباد سیکڑوں قصبے اور گاؤں ، زندگی کی بہار سے کھلکھلاتی بستیاں برباد کر ڈالی تھیں۔ہنستی بستی گلیوں پر چڑھ دوڑنے والوں نے محمود درویش کا گاؤں بھی جلا ڈالا۔اسی لیے تو اُنھوں نے کہا:مجھے خواہش ہے اپنی ماں کی روٹی کیماں کے ہاتھ کی چائے کیاس کے لمس کی۔۔۔بچپن کی یادیں روز بہ روز مجھ میں توانا ہو رہی ہیںاپنی موت کے وقت کیا میَں اپنی زندگی کے قابل تھا؟کیا میَں اپنی ماں کے آنسوئوں کے قابل تھا؟محمود درویش نے فلسطینیوں کے اپنی ریاست کے خواب کو شاعری کے روپ میں بیان کیا اور سن انیس سو اٹھاسی میں فلسطینی آزادی کے اعلان کو ممکن بنانے کے ساتھ فلسطینی قوم کی شناخت کو اُجاگر کرنے کی سعی کی۔محمود درویش نے ایک مزاحمتی شاعر کی حیثیت سے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز کیا اور بعد میں فلسطینیوںکے ضمیر کی آواز بن گئے۔محمود دورویش کو عصر ِحاضر کے عربی ادب کا نمایندہ شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ناقد ین اُن کو بیسویں صدی کے انتہائی معتبر شاعر قرار دیتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں جنت ِگْم گشتہ یعنی1948ء اور پھر1967 ء میں مقبوضہ ہو جانے والے ارضِ فلسطین کا دُکھ اور صدمہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔محمود درویش اُردو ادب کے عظیم شاعر غالبؔ کی طرح بڑے انا پرست تھے، لیکن ایسے میں وہ معروف یہودی شاعر یہودا آمی شائی کے طرز ِکلام کے بھی مداح تھے اور اُن کو اپنا مد مقابل تصور کرتے تھے۔ درویش کے خیال میں یہ آنے والا وقت تعین کرے گا کہ ایک ہی زمین کے لیے آمی شائی کے خیالات معتبر قرار پائیں گے یا اُن کے۔اپنے وطن سے بے وطنی کا عذاب تمام عمر اُن کے ساتھ رہا حتیٰ کہ موت بھی دُور امریکا میں آئی۔محمود درویش نے شاعری صرف عر بی زبان میں کی، لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی بڑی روانی سے بولتے تھے۔اُن کو کئی ادبی انعامات سے نوازا گیا، جن میں لوٹس پرائز کے علاوہ فرانسیسی حکومت کا ایک اعلیٰ تمغہ بھی شامل ہے۔ اُن کے شعری مجموعے کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اُن کی شاعری پر کئی ایک طویل مضامین اُردو جراید میں شائع ہونے کی وجہ سے وہ ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی نظموں میں عربی ادب کی روایت کے مطابق غنائیت کا عنصر بے بہا تھا اور اسی وجہ سے عرب دنیا کے نمایاں موسیقاروں نے اُن کو خاص انداز میں کمپوز بھی کیا ہے۔٭…٭…٭