چن وے ( شاہ نور فلمز کی پہلی پنجابی فلم )
چن وے پاکستان کی پہلی فلم ہے جسے کسی عورت نے ڈائریکٹ کیا۔ نور جہاں پہلی ہدایت کارہ تھیں، جنہوں نے ہیروئن کے ساتھ ساتھ اس فلم کی ڈائریکشن کے فرائض بھی انجام دیئے۔ لاہور کے ریجنٹ سنیما میں یہ فلم 24مارچ 1951ء کو ریلیز کی گئی۔ اس کی ابتدائی لمبائی اٹھارہ ہزار فٹ ہوگئی تھی۔ نمائش کے بعد اس میں سے تین ہزار فٹ کا ٹکڑا کاٹ دیا گیا کیونکہ یہ ضرورت سے زیادہ لمبی ہوگئی تھی۔ اس فلم کی کہانی کا آغاز ایک گائوں موراں والی سے ہوتا ہے جہاں پٹواری فضل (غلام محمد) اپنی دوسری بیوی خیراں (نفیس بیگم) بیٹی سیماں (نورجہاں) اور بیٹے چراغ (سلیم رضا) کے ساتھ رہتا ہے۔ چراغ پٹواری فضل کا پہلی بیوی سے بیٹا ہے۔ دونوں باپ بیٹا اس چکر میں رہتے ہیں کہ خیراں کی پراپرٹی اور نقد رقم پر ہاتھ صاف کیا جائے۔ سیماں، خیراں کی پہلے خاوند سے بیٹی ہے جبکہ اس کا ایک بھائی فیروز جنگ پر گیا ہے اور لاپتہ ہے۔ کہنے کو سیماں، چراغ کی سوتیلی بہن ہے لیکن وہ اس پر بری آنکھ رکھتا ہے اور فضل کی مرضی اس میں شامل ہے۔ سیماں اپنے سوتیلے بھائی کی بری نظر کے بارے میں اکثر ماں سے شکایت بھی کرتی ہے۔ دو ایک مرتبہ چراغ ان کی چوری کرتے بھی پکڑا گیا، لیکن باپ درمیان میں دخل اندازی کرا کر معاملہ رفع دفع کر ادیتا۔ایک روز گائوں کے باہر ایک نوجوان کی ملاقات سیماں سے ہوئی۔ وہ اسے اپنا بھائی فیروز سمجھ کر اپنے گھر لے آئی اور ماں سے ملوایا۔ نوجوان فیروز (سنتوش) اس گھر میں گو سیماں کا بھائی بن کر رہنے لگا مگر اندرون خانہ وہ بھی سیماں سے پیار کرنے لگا تھا لیکن سیماں نے کبھی اسے اظہار کا موقع نہ دیا۔ شہر میں ڈاکٹر (ہمالیہ والا) رہتا ہے جس کا ایک بیٹا ڈاکٹر اسلم (جہانگیر خان) ہے، وہ دورے پر جانے کا پروگرام بناتا ہے۔ باپ کو بتاتا ہے کہ وہ موراں والی جارہا ہے۔ ڈاکٹر اسے کچھ رقم دیتا ہے کہ وہاں پٹواری فضل کو قم دے دے۔ ڈاکٹر اسلم گائوں آتا ہے کہ اس کی مڈبھیڑ لڑکیوں سے ہوتی ہے جن میں سیماں سب سے آگے ہے۔ وہ ڈاکٹر کو پانی میں دھکا دے کر بھاگتی ہے لیکن اس کا دوپٹہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں رہ جاتا ہے اور وہ اسے نہیں دیتا تو وہ اس کے بوٹ اٹھا کر بھاگ جاتی ہے۔ ڈاکٹر پائوں سے ننگا ہے۔ وہ اپنے معاون کو کہتا ہے کہ کہیں جوتی لے کر آئے۔ چوپال میں پٹواری احمو خان کے ساتھ چوپٹ کھیل رہا ہے۔ معاون ان کی جوتیاں اٹھا کر لے جاتا ہے، ادھر جب جوتی غائب ہونے کا پتہ چلتا ہے تو اسے وہ بوٹ مل جاتے ہیں جو سیماں ڈاکٹر کے چرا کر لائی تھی۔ ڈاکٹر وہی جوتی پہن کر پٹواری کو رقم دینے آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے پائوں میں اپنی جوتی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر کو پتہ چلتا ہے کہ سیماں فضل کی ہی بیٹی ہے۔ سیماں اور ڈاکٹر میں ملاقاتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک دن فیروز دیکھ کر ناراض ہوتا ہے۔ سیماں کے دریافت کرنے پر کہ وہ کیوں ناراض ہے وہ تو اس کا بھائی ہے اور محبت کرنے کا حق ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ در پردہ اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ محض اس کے قریب رہنے کے لیے بھائی بنا ہوا تھا۔ فیروز ان دونوں کے درمیان سے نکل جاتا ہے۔ اسلم شادی کے بارے میں فضل پٹواری سے بات کرتا ہے لیکن پٹواری تو اپنے بیٹے سے شادی کرانے کے چکر میں تھا۔ وہ جواب دے دیتا ہے۔ اسلم سیماں سے کہتا ہے کہ اس طرح بات نہیں بنے گی دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اگلے روز سیماں پر جن سوار ہوجاتا ہے جسے دور کرنے کے لیے اسلم ہی بزرگ بن کر آجاتا ہے۔ فضل اور اس کے ساتھ رحمو کو مجبور کرتا ہے کہ ابھی اور اسی وقت دونوں کا نکاح کر دیا جائے چنانچہ حافظ کو بلایا جاتا ہے جو اندھا ہے۔ نکاح ہوجاتاہے۔ نکاح نامہ حافظ اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ اسلم سیماں کو لے کر ڈاک بنگلہ میں آجاتا ہے۔ اگلی صبح وہ ایک ماہ بعد واپس آنے کا کہہ کر شہر چلا جاتا ہے۔ اسی دوران سیماں کی ماں خیراں مر جاتی ہے۔ سیماں حاملہ ہوجاتی ہے تو فضل اور رحمو وغیرہ سازش کرکے اسے پنچایت کے آگے پیش کرتے ہیں۔ سیماں صفائی میں حافظ کو پیش کرتی ہے۔ حافظ نکاح نامہ پیش کرتا ہے جو سادہ کاغذ پر ہوتا ہے کیونکہ اصل نکاح نامہ رحمو چرا کر لے گیا ہوتا ہے۔ یہاں فیروز بھی آجاتا ہے۔ وہ بھی سیماں کی صفائی پیش کرتا ہے جہاں اس کی خوب پٹائی ہوتی ہے اور سیماں کو گائوں بدر کر دیا جاتا ہے۔ اب چراغ کا ذہن بدلتا ہے۔ وہ زخمی فیروز اور سیماں کو لے کر شہر آتا ہے۔ وہ اسلم کے ہاں جاتے ہیں جہاں اس کا باپ اسے قبول نہیں کرتا۔ اسلم لندن جا چکا ہے۔ سیماں شہر میں بسیرا کرتی ہے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اسلم جب واپس آتا ہے اور باپ کو بتاتا ہے کہ وہ شادی کر چکا ہے اور وہ موراں والی سیماں کو لینے جاتا ہے جہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ فیروز کے ساتھ فرار ہوگئی ہے۔ اسلم غلط فہمی میں مبتلا ہو کر واپس آجاتا ہے۔ ہسپتال میں اپنے باپ کو ملنے آتا ہے۔ وہاں فیروز داخل ہے۔ سیماں بھی وہاں آجاتی ہے۔ یہاں فیروز اس کی غلط فہمی دور کرتا ہے اور مر جاتا ہے۔ سیماں اور اسلم مل جاتے ہیں۔اس فلم کے نغمہ نگار ایف ڈی شرف (فیروز دین شرف) پنجابی کے مشہور شاعر تھے جو اس سے قبل کلکتہ میں سسی پنوں (1940ء) وغیرہ کے نغمات تحریر کرکے شہرت پا چکے تھے۔ چن وے کی کامیابی سے لاہور میں شوکت صاحب، فیروزنظامی اور ان کے ساتھ ساتھ نورجہاں کا امیج بھی بن گیا۔ 1947ء میں جگنو کے بعد 1951ء یعنی چار سال کے گیپ کے بعد نورجہاں کی فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس کو خاطر خواہ ریسیپشن ملا۔ لاہور کے مین سنیما میں ان دنوں یہ فلم 18ہفتہ زیر نمائش رہی۔٭…٭…٭