چن وے ( شاہ نور فلمز کی پہلی پنجابی فلم )

چن وے ( شاہ نور فلمز کی پہلی پنجابی فلم )

اسپیشل فیچر

تحریر : یسٰین گوریجہ


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

چن وے پاکستان کی پہلی فلم ہے جسے کسی عورت نے ڈائریکٹ کیا۔ نور جہاں پہلی ہدایت کارہ تھیں، جنہوں نے ہیروئن کے ساتھ ساتھ اس فلم کی ڈائریکشن کے فرائض بھی انجام دیئے۔ لاہور کے ریجنٹ سنیما میں یہ فلم 24مارچ 1951ء کو ریلیز کی گئی۔ اس کی ابتدائی لمبائی اٹھارہ ہزار فٹ ہوگئی تھی۔ نمائش کے بعد اس میں سے تین ہزار فٹ کا ٹکڑا کاٹ دیا گیا کیونکہ یہ ضرورت سے زیادہ لمبی ہوگئی تھی۔ اس فلم کی کہانی کا آغاز ایک گائوں موراں والی سے ہوتا ہے جہاں پٹواری فضل (غلام محمد) اپنی دوسری بیوی خیراں (نفیس بیگم) بیٹی سیماں (نورجہاں) اور بیٹے چراغ (سلیم رضا) کے ساتھ رہتا ہے۔ چراغ پٹواری فضل کا پہلی بیوی سے بیٹا ہے۔ دونوں باپ بیٹا اس چکر میں رہتے ہیں کہ خیراں کی پراپرٹی اور نقد رقم پر ہاتھ صاف کیا جائے۔ سیماں، خیراں کی پہلے خاوند سے بیٹی ہے جبکہ اس کا ایک بھائی فیروز جنگ پر گیا ہے اور لاپتہ ہے۔ کہنے کو سیماں، چراغ کی سوتیلی بہن ہے لیکن وہ اس پر بری آنکھ رکھتا ہے اور فضل کی مرضی اس میں شامل ہے۔ سیماں اپنے سوتیلے بھائی کی بری نظر کے بارے میں اکثر ماں سے شکایت بھی کرتی ہے۔ دو ایک مرتبہ چراغ ان کی چوری کرتے بھی پکڑا گیا، لیکن باپ درمیان میں دخل اندازی کرا کر معاملہ رفع دفع کر ادیتا۔ایک روز گائوں کے باہر ایک نوجوان کی ملاقات سیماں سے ہوئی۔ وہ اسے اپنا بھائی فیروز سمجھ کر اپنے گھر لے آئی اور ماں سے ملوایا۔ نوجوان فیروز (سنتوش) اس گھر میں گو سیماں کا بھائی بن کر رہنے لگا مگر اندرون خانہ وہ بھی سیماں سے پیار کرنے لگا تھا لیکن سیماں نے کبھی اسے اظہار کا موقع نہ دیا۔ شہر میں ڈاکٹر (ہمالیہ والا) رہتا ہے جس کا ایک بیٹا ڈاکٹر اسلم (جہانگیر خان) ہے، وہ دورے پر جانے کا پروگرام بناتا ہے۔ باپ کو بتاتا ہے کہ وہ موراں والی جارہا ہے۔ ڈاکٹر اسے کچھ رقم دیتا ہے کہ وہاں پٹواری فضل کو قم دے دے۔ ڈاکٹر اسلم گائوں آتا ہے کہ اس کی مڈبھیڑ لڑکیوں سے ہوتی ہے جن میں سیماں سب سے آگے ہے۔ وہ ڈاکٹر کو پانی میں دھکا دے کر بھاگتی ہے لیکن اس کا دوپٹہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں رہ جاتا ہے اور وہ اسے نہیں دیتا تو وہ اس کے بوٹ اٹھا کر بھاگ جاتی ہے۔ ڈاکٹر پائوں سے ننگا ہے۔ وہ اپنے معاون کو کہتا ہے کہ کہیں جوتی لے کر آئے۔ چوپال میں پٹواری احمو خان کے ساتھ چوپٹ کھیل رہا ہے۔ معاون ان کی جوتیاں اٹھا کر لے جاتا ہے، ادھر جب جوتی غائب ہونے کا پتہ چلتا ہے تو اسے وہ بوٹ مل جاتے ہیں جو سیماں ڈاکٹر کے چرا کر لائی تھی۔ ڈاکٹر وہی جوتی پہن کر پٹواری کو رقم دینے آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے پائوں میں اپنی جوتی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر کو پتہ چلتا ہے کہ سیماں فضل کی ہی بیٹی ہے۔ سیماں اور ڈاکٹر میں ملاقاتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک دن فیروز دیکھ کر ناراض ہوتا ہے۔ سیماں کے دریافت کرنے پر کہ وہ کیوں ناراض ہے وہ تو اس کا بھائی ہے اور محبت کرنے کا حق ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ در پردہ اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ محض اس کے قریب رہنے کے لیے بھائی بنا ہوا تھا۔ فیروز ان دونوں کے درمیان سے نکل جاتا ہے۔ اسلم شادی کے بارے میں فضل پٹواری سے بات کرتا ہے لیکن پٹواری تو اپنے بیٹے سے شادی کرانے کے چکر میں تھا۔ وہ جواب دے دیتا ہے۔ اسلم سیماں سے کہتا ہے کہ اس طرح بات نہیں بنے گی دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اگلے روز سیماں پر جن سوار ہوجاتا ہے جسے دور کرنے کے لیے اسلم ہی بزرگ بن کر آجاتا ہے۔ فضل اور اس کے ساتھ رحمو کو مجبور کرتا ہے کہ ابھی اور اسی وقت دونوں کا نکاح کر دیا جائے چنانچہ حافظ کو بلایا جاتا ہے جو اندھا ہے۔ نکاح ہوجاتاہے۔ نکاح نامہ حافظ اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ اسلم سیماں کو لے کر ڈاک بنگلہ میں آجاتا ہے۔ اگلی صبح وہ ایک ماہ بعد واپس آنے کا کہہ کر شہر چلا جاتا ہے۔ اسی دوران سیماں کی ماں خیراں مر جاتی ہے۔ سیماں حاملہ ہوجاتی ہے تو فضل اور رحمو وغیرہ سازش کرکے اسے پنچایت کے آگے پیش کرتے ہیں۔ سیماں صفائی میں حافظ کو پیش کرتی ہے۔ حافظ نکاح نامہ پیش کرتا ہے جو سادہ کاغذ پر ہوتا ہے کیونکہ اصل نکاح نامہ رحمو چرا کر لے گیا ہوتا ہے۔ یہاں فیروز بھی آجاتا ہے۔ وہ بھی سیماں کی صفائی پیش کرتا ہے جہاں اس کی خوب پٹائی ہوتی ہے اور سیماں کو گائوں بدر کر دیا جاتا ہے۔ اب چراغ کا ذہن بدلتا ہے۔ وہ زخمی فیروز اور سیماں کو لے کر شہر آتا ہے۔ وہ اسلم کے ہاں جاتے ہیں جہاں اس کا باپ اسے قبول نہیں کرتا۔ اسلم لندن جا چکا ہے۔ سیماں شہر میں بسیرا کرتی ہے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اسلم جب واپس آتا ہے اور باپ کو بتاتا ہے کہ وہ شادی کر چکا ہے اور وہ موراں والی سیماں کو لینے جاتا ہے جہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ فیروز کے ساتھ فرار ہوگئی ہے۔ اسلم غلط فہمی میں مبتلا ہو کر واپس آجاتا ہے۔ ہسپتال میں اپنے باپ کو ملنے آتا ہے۔ وہاں فیروز داخل ہے۔ سیماں بھی وہاں آجاتی ہے۔ یہاں فیروز اس کی غلط فہمی دور کرتا ہے اور مر جاتا ہے۔ سیماں اور اسلم مل جاتے ہیں۔اس فلم کے نغمہ نگار ایف ڈی شرف (فیروز دین شرف) پنجابی کے مشہور شاعر تھے جو اس سے قبل کلکتہ میں سسی پنوں (1940ء) وغیرہ کے نغمات تحریر کرکے شہرت پا چکے تھے۔ چن وے کی کامیابی سے لاہور میں شوکت صاحب، فیروزنظامی اور ان کے ساتھ ساتھ نورجہاں کا امیج بھی بن گیا۔ 1947ء میں جگنو کے بعد 1951ء یعنی چار سال کے گیپ کے بعد نورجہاں کی فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس کو خاطر خواہ ریسیپشن ملا۔ لاہور کے مین سنیما میں ان دنوں یہ فلم 18ہفتہ زیر نمائش رہی۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
امجد بوبی:پر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

امجد بوبی:پر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

امجد بوبی کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے ان موسیقاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروایا۔ 1942ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے امجد بوبی 15اپریل 2005ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، آج ان کی 20ویں برسی ہے۔امجد بوبی کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا جوموسیقی کے حوالے سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا تھا۔وہ رشیدعطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی جبکہ موسیقار صفدرحسین، موسیقار ذوالفقارعلی اور گلوکار منیر حسین ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی ایک کلاسیکل گائیک تھے۔ یوں موسیقی سے لگائو انہیں وراثت میں ملا تھااور یہی لگائو انہیں فلم انڈسٹری میں کھینچ لایا۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ ایک طویل عرصہ تک رشیدعطرے ، اے حمید اور ناشاد کی معاونت کی لیکن خو دکو ایک بڑا موسیقار منوانے کیلئے خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔امجد بوبی کی بطور موسیقار پہلی فلم ''اک نگینہ‘‘ تھی جو 1969ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ اس فلم میں شامل احمدرشدی کے گائے ہوئے دو گیت ''مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل‘‘ اور ''دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتھر ہی ملے‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ گلوکارہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت ''ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا‘‘ بھی ایک خوبصورت گیت تھا۔ اسی سال ان کی فلم ''میری بھابھی‘‘ کے گیت بھی بہت پسند کئے گئے، خاص طور پر مسعودرانا کا تھیم سانگ ''نہ کوئی پٹوار نہ مانجی اور کوئی نہ ناو‘‘۔ انہیں بریک تھرو کیلئے دس سال تک انتظار کرنا پڑا۔ 1979ء میں فلم ''نقش قدم‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں شامل گلوکار اے نیئر کا گایا ہوا گیت ''کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام‘‘ ان کا پہلا سپرہٹ گیت تھا۔ امجد بوبی کو 80ء کی دھائی میں بڑا عروج ملا۔ اس دور کے وہ اردو فلموں کے مصروف ترین موسیقار تھے۔ 1984ء میں فلم ''بوبی‘‘ کیلئے بنایا ہوا ان کا گیت ''اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ گیت غلام عباس کے علاوہ اداکارہ سلمیٰ آغا کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔فلم مشکل (1995ء) میں مہناز اور تسکین جاوید کا الگ الگ گایا ہوا گیت ''دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ ، اب کوئی جچتا نہیں‘‘ایک سپرہٹ گیت تھا۔ فلم ''چیف صاحب‘‘ (1996ء) میں سجادعلی کا گیت ''بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب‘‘ایک سٹریٹ سانگ تھا۔ اس فلم میں امجد بوبی نے گلوکار وارث بیگ سے نو گیت گوائے تھے۔ہدایتکار سید نور کی سپر ہٹ فلم ''گھونگھٹ‘‘ (1997ء) میں ارشد محمود کیلئے انھوں نے یہ سپرہٹ دھن بنائی تھی ''دیکھا جو چہرہ تیرا ، موسم بھی پیارا لگا‘‘ فلم سنگم (1998ء) میں سائرہ نسیم اور وارث بیگ سے الگ الگ گوائے گئے گیت ''آ پیار دل میں جگا‘‘بھی سدا بہارتھے۔ ان کے علاوہ انھوں نے بہت سے بھارتی گلوکاروں سے بھی گیت گوائے تھے۔ امجد بوبی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 20برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنی دھنوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔

محلات فیروز شاہی

محلات فیروز شاہی

فیروز شاہ تغلق سلطنت دہلی کے تغلق خاندان کے تیسرے حکمران تھے جنہوں نے 1351ء سے 1388ء تک حکومت کی۔فیروز شاہ نے اپنے عہد میں ایک نیا شہر فیروزآباد کے نام سے آباد کیا جس کیلئے اٹھارہ گائوں مثلاً اندر پٹ، سرائے شیخ ملک بار، سرائے شیخ ابوبکر طوسی، کاربن، کیشواڑہ، اندولی، سرائے بلکہ رضیہ، مہرولہ اور سلطان پور وغیرہ کی زمینیں حاصل کی گئیں۔ یہ شہر پانچ کوس تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں امرا نے بھی اپنے اپنے محل بنوائے، عام لوگوں نے بھی پختہ مکانات تعمیر کرائے، مسجدیں بکثرت بنوائی گئیں، ہر مسجد میں دس دس ہزار نمازی جمع ہو سکتے تھے۔ دہلی اور فیروز آباد کے درمیان پانچ کوس کا فاصلہ تھا لیکن آے جانے کیلئے سواریاں ہر وقت موجود رہتی تھیں، جن کا کرایہ بہت کم تھا، مثلاً گھوڑے کا کرایہ بارہ جیتل اور ڈولہ کا نیم تنکہ تھا۔اس شہر میں فیروز شاہ نے بہت سے محل بنوائے۔ ان میں سے محل صحن گلبن، محل چھجہ چوبیںاور محل بار نمایاں ہیں۔ یہ محل درباروں کے انعقاد کے کام کیلئے تھے، زنانہ محل نہ تھے۔ فیروز شاہ کے مختلف کوشکوں کا جو جا بجا ذکر آتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کوشک فیروز آباد کو شک نردی، کوشک مہندواری، کوشک شہر حصار اور کوشک شکار نئے شہر میں بنوائے۔ ان کے علاوہ انہوں نے فتح آباد جونپور اور سالورہ میں بھی کوشکوں کی تعمیر کرائی۔ تعمیرات کا جتنا ذوق انہیں تھا، اس سے پہلے کے سلاطین کو نہ رہا۔ اسی لئے اس نے امیر عمارت کا ایک عہدہ مقرر کر رکھا تھا، جس کو امتیازی حیثیت دینے کیلئے چوب زر عطا کیا تھا۔ اسی طرح سنگ تراشوں، چوب تراشوں، بنکروں، آرہ کشوں، چونہ پزوں اور معماروں کے علیحدہ علیحدہ شعبے مقرر تھے۔اوپر جتنے محلات کا ذکر کیا ہے وہ یا تو ختم ہو چکے ہیں یا کھنڈرات کے ڈھیر ہیں، اس لئے ان کے اندرونی حصوں کی تفصیل بیان کرنا سعی لاحاصل ہے، پھر بھی یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ محل کسی اونچے مقام یا دریا کے کنارے بنائے جاتے تاکہ یہ بہت ہی ہوادار ہوں اور ان کا حسن بڑھانے کی خاطر، ان کا عکس دن کی روشنی میں اور رات کو چاندنی میں دریا کے بہتے ہوئے پانی میں پڑتا رہے۔ محل کے اندر چمن اور باغ کے علاوہ مطبخ، شراب خانہ، شمع خانہ، سگ خانہ، آب دارخانہ فراش خانہ، جام دار خانہ، پوشاک خانہ، غسل خانہ، خواب گاہ اور زنان خانہ وغیرہ ہوتے۔ ان میں بعض چیزوں کی تفصیل آگے آئے گی، عام طور سے محل کو آراستہ پیراستہ کرکے بہشت کا نمونہ بنا دیا جاتا، دیواروں پر مخمل اور ریشمی کپڑے کے پردے ہوتے،جن میں جواہرات ٹکے رہتے، اندر نقرئی اور طلائی پچی کاری سے زینت و آرائش کی جاتی اور وہاں اسلحہ، زریں ہتھیار، قندیل، شمع دان، قالین، آفتابے، قلم دان، بساط اور کتابوں کی الماریاں ہوتیں، قندیلیں رات کو روشن ہوتیں تو تمام ایوان روشن ہو جاتا محل کی زینت و آرائش کا ذکر جا بجا آئے گا۔محل میں گھڑیال ضرور ہوتا، جس سے لوگوں کو ٹھیک وقت معلوم ہوتا رہتا، رات کے وقت محل کے ارد گرد سخت پہرہ ہوتا، پہلی گھڑی کے بعد کسی کو محل کے احاطہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی، جب تک سلطان کی اجازت نہ ہوتی، ایک خاص عہدہ دار رات کے سانحے قلم بند کرتا رہتا جو وہ صبح کو سلطان کی خدمت میں پیش کرتا۔وقار حرمحرم کی بیگمات کیلئے محل کے علاحدہ علاحدہ سکونتی حصے ہوتے اور ان کی خدمت کیلئے کثیر تعداد میں کنیزیں اور خواجہ سرا ہر وقت حاضر رہتے۔ ان کے رہنے کی جگہ سے الگ تھلگ ہوتی اور صرف وہی رشتہ دار مرد محل کے اندر آ جا سکتے تھے جن کو سلطان کی طرف سے اجازت ملتی تھی۔اسلامی پردہ تو یہ تھا کہ عورتیں چہرہ اور ہاتھ کھول کر جلباب یا برقعہ کے ساتھ باہر نکل سکتی تھیں لیکن شاہی عزت و وقار اسی میں سمجھا جاتا کہ بیگمات پر خاص خاص رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور مرد کی نظر نہ پڑے۔ ان ہی کی تقلید میں عام عورتیں بھی گھر کی چار دیواری میں رہنے لگیں۔شوکت کا مظاہرہبیگمات کی تہذیبی شان و شوکت کا اظہار محل کے اندر تقریبات کے موقع پر ہوا کرتا تھا۔ وہ صحنوں میں بڑے بڑے سائبان اور خیمے کھڑے کراتی تھیں، اس کے نیچے طرح طرح کے عمدہ فرش بچھواتیں، جن پر دیبامنڈھا ہوتا اور جواہرات بھی ٹنکے رہتے۔ ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ محمد تغلق کی تاج پوشی کے موقع پر محل کے اندر جو جشن منایا گیا تو اس کی ماں مخدومہ جہاں ایک سونے کے تخت پر بیٹھی ہوئی تھی اور محل اور امراء کی بیگمات زرق برق پوشاک میں ملبوس اور زیورات سے لدی ہوتی تھیں۔ اس موقع پر اتنی چمک دمک تھی کہ اس کی چکا چوند سے مخدومہ جہاں کی بینائی جاتی رہی اور ہر طرح کے علاج کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا۔تقریبات کے موقع پر بیگمات جو مراسم ادا کرتی تھیں، اس کا ذکر تقریبات میں آئے گا۔نذرانےمحل کے اندر جو عورت بیگمات سے ملنے کو جاتی تو اس کے ساتھ مختلف قسم کی نوازشیں کی جاتیں، مثلاً ابن بطوطہ کی بیوی محمد تغلق کی ماں سے ملنے کو گئی تو اس کو ایک ہزار روپے سونے کے جڑائو کڑے اور ہار، زردوزی کتان کے کرتے، زردوزی ریشم کا خلعت اور کپڑے کے کئی تھان دیئے گئے۔ جو عورتیں مہمان بن کر جاتیں وہ بھی اپنے ساتھ طرح طرح کے نذرانے لے جاتیں، ابن بطوطہ کی بیوی نذرانے میں ایک ترکی لونڈی لے گئی تھی۔محل کے عہدہ دارمحل کے اندرآنے جانے میں بڑی سختی تھی، محل کا کلید بردار وکیل درکہلاتا، جس پر کوئی معزز درباری ہی مامور کیا جاتا اور اسی کی اجازت سے محل کا دروازہ کھلتا، وہ بیگمات شہزادوں، باورچی خانہ، شراب خانہ وغیرہ کا نگران اعلان ہوتا، بیگمات اور شہزادے اسی کے ذریعہ سے سلطان کی خدمت میں پیش کرتے، اسی لئے وہ بڑا بااثر اور بااقتدار عہدہ دار سمجھا جاتا، اس کے ماتحت نائب وکیل در اور بہت سے ملازم ہوتے۔محل کے مختلف دروازوں پر پہرہ دار ہوتے، پہرہ داروں کے افسر کو پردہ دار کہا جاتا، اس عہدہ پر بھی امرا ہی مامور کئے جاتے، شاہی محل کے دروازہ پر کوئی واقعہ ہو جاتا تومتصدی اس کی بھی تفصیل لکھ لیتے، سلطان رات کے وقت ان تمام اندراجات کو روزانہ پڑھتا۔

حکایت سعدیؒ:موت

حکایت سعدیؒ:موت

ایک شخص مر گیا تو دوسرے آدمی نے اس کے غم میں گریبان پھاڑ لیا۔ سمجھ دار آدمی نے اس کا رونا دھونا اور کپڑے پھاڑنا دیکھا تو کہا کہ اگر مردے کے ہاتھ حرکت کر سکتے تو وہ یہ دیکھ کر اپنا کفن پھاڑ لیتا اور کہتا تم میری موت کی وجہ سے اتنے پیچ تاب کیوں کھارہے ہو۔ میں ایک دن پہلے آ گیا ہوں تم ایک دن پیچھے آؤ گے۔ میری موت کو تو روتے ہو مگر اپنی موت بھلا رکھی ہے کہ کل تمہیں بھی یہ سفر درپیش ہوگا۔ صاحب بصیرت آدمی جب مردے پر مٹی ڈالتا ہے تو وہ یہ سوچ کر آبدیدہ ہو جاتا ہے کہ کل میرے اوپر بھی مٹی ڈالی جائے گی۔ اگر چھوٹا بچہ مر گیا تو اس کے غم میں کیا روتے ہو کہ وہ جیسا معصوم دنیا میں آیا تھا ویسا ہی معصوم یہاں سے چلا گیا۔ فکر کی بات تو یہ ہے کہ تم پاک آ کر ناپاک جاؤ۔ روح کے پرندے کو صالح اعمال کا پابند کر لو ورنہ جب یہ اڑ جائے گا تو کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔ جب تم کسی کی نماز جنازہ پڑھو تو سوچ لو کہ ایک دن تمہاری بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ موت سے کوئی شخص نہیں بچ سکتا۔ اس لیے جب دوسروں کو دفناؤ تو سوچ لو کہ ایک دن ہمیں بھی یوں ہی دفنایا جائے گا۔ مُردوں پر رونے کی بجائے اپنی موت کی تیاری کرو۔ ٭٭٭٭٭

آج کا دن

آج کا دن

انسولین سے علاج کی شروعات15اپریل1923ء کو انسولین کو ذیابیطس کے مریضوں کیلئے بطور دوا استعمال کرنے کی منظوری دی گئی۔ 1923ء سے کئی سال قبل اس کی تیاری پر کام شروع ہوچکا تھا۔ متعدد تجرباتی مراحل عبور کرنے کے بعد ماہرین نے اسے انسانوں پر استعمال کے لئے محفوظ قرار دیا جس کے بعد انسولین کو عام عوام کیلئے مارکیٹ میں فراہم کر دیا گیا۔انسولین دراصل ایک پیپٹائڈ ہارمون ہے جو لبلے کے ''بیٹا‘‘ (Beta)خلیوں کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے جو انسان میںINSجین کے ذریعے انکوڈ ہوتا ہے۔برطانیہ نے ایٹمی دھماکہ کیادوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے خلاف ایٹم بم کے استعمال نے دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کی ایک تباہ کن ریس کا آغاز کردیا۔دنیا کے بیشتر ممالک ایٹمی ہتھیاروں کو اپنی بقاء کا ضامن قرار دینے لگے۔اسی سلسلے میں برطانیہ نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا آغاز کیا اور 15اپریل 1957ء میں ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کرنے کے بعد برطانیہ ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن گیا۔برطانیہ کے ایٹمی دھماکے نے مشرقی ممالک میں بھی یہ فکر پیدا کر دی کہ ایٹمی ہتھیار دفاع کا اہم حصہ ہے۔ٹائی ٹینک ڈوباٹائی ٹینک 15 اپریل 1912ء کی صبح شمالی بحر اوقیانوس میں ڈوبا، یہ جہاز ساؤتھمپٹن سے نیو یارک سٹی کیلئے سفر کر رہا تھا۔ٹائی ٹینک کو اس وقت سب سے بڑاسمندری جہاز ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ایک اندازے کے مطابق حادثے کے قبل ٹائی ٹینک میں تقریباًدو ہزار224افراد سوار تھے۔اپنے سفر کے دوران جہاز ایک برف کے پہار سے ٹکرایا اور دو گھنٹے چالیس منٹ بعد وہ ڈوب گیا۔اس حادثے کے نتیجے میں 1500سے زائد افراد ہلاک ہوئے ،اسے سمندری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ سمجھا جاتا ہے۔75ہزار افراد پر مشتمل ملیشیا15 اپریل، 1861 ء کو امریکی خانہ جنگی کے آغاز پر امریکی صدر ابراہم لنکن نے فورٹ سمٹر پر بمباری اور ہتھیار ڈالنے کے بعد تین ماہ کیلئے 75ہزارافراد پر مشتمل ملیشیا کو طلب کیا۔ کچھ جنوبی ریاستوں نے پڑوسی ڈیپ ساؤتھ غلام ریاستوں جن میں جنوبی کیرولائنا، مسیسیپی، فلوریڈا، الاباما، جارجیا، لوزیانا اور ٹیکساس شامل تھیں کے خلاف فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ورجینیا، آرکنساس، نارتھ کیرولائنا اور ٹینیسی کے بالائی جنوبی علاقوں میں زیادہ تر ریاستوں نے بھی امریکہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور کنفیڈریٹ ریاستوں میں شامل ہو گئے۔

2025 : گرمی کی شدت اور موسمیاتی خطرات

2025 : گرمی کی شدت اور موسمیاتی خطرات

پاکستان جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی خطرناک اثرات کا شکار ہے 2025ء میں شدید گرمی اور موسمیاتی بحران کے نئے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں ملک میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ، غیرمعمولی گرمی کی لہریں اور موسموں کے تغیرات نے ماہرین کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ عالمی حدت کے اثرات، جنگلات کی کٹائی اور شہری آبادیوں میں بے ہنگم پھیلاؤ نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات قبول کر رہے ہیں، حالانکہ یہ عالمی کاربن اخراج میں صرف 1% سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2023 کے مطابق پاکستان موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو ملک کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ ہیں، تیزی سے پگھل رہے ہیں، جبکہ دریاؤں کے بہاؤ میں بے قاعدگی اور بارشوں کے غیرمتوقع نمونے زراعت اور آبی وسائل کو شدید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔2025 میں گرمی کی شدت ماہرین ماحولیات کے مطابق رواں سال پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سنٹی گریڈ تک اضافے کا امکان ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر اسی شرح سے کاربن اخراج جاری رہا تو صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں گرمی کی لہریں 50 ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں فوسل فیولز کا بے تحاشا استعمال، جنگلات کی کٹائی اور شہری علاقوں میں کنکریٹ کے جنگل کا پھیلاؤ شامل ہیں۔ شہروں میں گرین سپیس کی کمی اور آلودگی نے ہیٹ آئیلینڈ ایفیکٹ (Heat Island Effect)کو جنم دیا ہے، جس کی وجہ سے شہری علاقوں میں درجہ حرارت آس پاس کے دیہی علاقوں کے مقابلے میں بڑھ جاتا ہے کیونکہ عمارتیں، سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر حرارت جذب اور دوبارہ خارج کرتے ہیں۔ ہیٹ آئیلینڈ ایفیکٹ کی وجہ سے شہری علاقوں میں درجہ حرارت دیہی علاقوں کے مقابلے میں 5سے7 ڈگری بڑھ جاتا ہے۔ شدید گرمی انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ ہیٹ ویوز کے باعث ہیٹ سٹروک، ڈی ہائیڈریشن اور دل کی بیماریوں میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ خصوصاً کراچی، لاہور، اور حیدرآباد جیسے گنجان آباد شہروں میں کم آمدنی والے طبقے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں جہاں ٹھنڈک کے لیے بجلی تک رسائی محدود ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق 65 سال سے زائد عمر کے افراد اور بچے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ اس کے علاوہ گرمی کی وجہ سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں (جیسے ہیضہ) اور مچھروں سے پھیلنے والے امراض (ڈینگی، ملیریا) بھی بڑھ سکتے ہیں۔زراعت اور خوراک کو خطرات پاکستان کی معیشت کا 24 فیصدسے زائد حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی حساس شعبہ ہے۔ 2025ء تک گندم، کپاس، اور چاول کی پیداوار میں 15سے20 تک کمی کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے خوراک کی قلت اور افراطِ زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دریائے سندھ کے طاس پر انحصار کرنے والے کسانوں کے لیے پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ بن جائے گی۔ ماہرین کے مطابق اگر آبپاشی کے جدید طریقے اپنائے نہ گئے اور موسم کے مطابق فصلوں کی اقسام تیار نہ کی گئیں تو لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔پانی کا بحرانپاکستان کا 60 فیصدسے زائد پانی گلیشیئرز اور برف پگھلنے سے حاصل ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے ابتدائی طور پر سیلابوں میں اضافہ ہوگا لیکن 2025ء میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر سکتی ہے۔ پانی کی کمی نہ صرف پینے کے صاف پانی تک رسائی کو متاثر کرے گی بلکہ صنعتوں اور توانائی کے شعبے (خاص طور پر ہائیڈرو پاور) کو بھی نقصان پہنچائے گی۔ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان 2040ء تک دنیا کے ''انتہائی پانی کے مسائل‘‘ والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔شدید گرمی کی لہریں پاور گرڈ کو بھی ناکام بنا سکتی ہیں۔ 2022ء میں لاہور میں بجلی کے نظام کی خرابی کے بعد سے صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ ایئر کنڈیشننگ اور ٹیوب ویلز کی بڑھتی ہوئی طلب بجلی کی فراہمی اور تقسیم کے نظام پر مزید بوجھ ڈال رہی ہے۔ سڑکیں اور عمارتیں بھی شدید گرمی سے متاثر ہو سکتی ہیں جبکہ صحت کی سہولیات مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہر طبقے پر یکساں نہیں پڑتے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے کسان اور شہروں کے غریب محنت کش جن کے پاس گرمی سے بچاؤ کے وسائل کم ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ بین الاقوامی ادارے آکسفیم کے مطابق پاکستان میں 40 فیصدسے زائد آبادی غربت کی لکیر کے قریب ہے، جو انہیں موسمیاتی صدمات کے لیے انتہائی کمزور بنا دیتی ہے۔ممکنہ حل اور تخفیف کی حکمت عملی توانائی کا منتقلی: شمسی اور ہوا سے چلنے والی توانائی میں سرمایہ کاری کرکے فوسل فیولز پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ شہری منصوبہ بندی: پارکس اور سبز علاقوں کو بڑھا کر ہیٹ آئیلینڈ ایفیکٹ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پانی کا موثر استعمال: ڈرپ آبپاشی اور بارش کے پانی کے ذخیرہ کو فروغ دینا۔ عوامی بیداری: گرمی سے بچاؤ کے طریقوں اور ہنگامی ردعمل پر تربیت۔ بین الاقوامی تعاون: گرین کلائمیٹ فنڈ جیسے اداروں سے مالی وسائل کا حصول۔ 2025ء میں پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز صرف ماحولیاتی مسائل نہیں، بلکہ قومی سلامتی اور معاشی استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے، جس میں حکومت، عوام اور عالمی برادری کی مشترکہ کوششیں شامل ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ مستقبل کی تعمیر کے لیے آج ہی قدم اٹھانا ہوگا۔

مالدیپ کے باشندے اور تمدن

مالدیپ کے باشندے اور تمدن

مالدیپ کے باشندے نسلاً آریائی ہیں۔ سنہائی (شنگھالی) نسل اور مالا بار کے لوگوں سے مشابہ ہیں۔ ان کے نقش تیکھے ہیں اور بدن کی رنگت عام طور پر زیتونی ہے، مگرعورتوں کا رنگ قدرے صاف اور نکھرا ہوا ہے۔ خاص طور پر شاہی خاندان کی خواتین کا۔ عرب تاجروں اور آبادکاروں کے توسط سے یہاں کے باشندوں کی رگوں میں سامی خون موجود ہے۔ مالے میں لوگ مختلف النسل ہیں۔ یہاں افریقہ، عرب، ایران اور مشرق بعید سے تاجر اور جہاز ران آتے جاتے رہے اور یہاں ماندو بود اختیار کر کے یہیں کے ہو رہے۔ مالدیپ کے قدیم باشندے بالعموم پانچ سوا پانچ فٹ قد کے نحیف الجثہ، منکسرالمزاج، مہمان نواز، امن پسند اور دوست دار ہیں۔ یہ لوگ پُرامن، ذہین اور محنتی ہیں۔ سادہ مگر منظم زندگی بسر کرتے ہیں اور قانون کے احترام کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ عادات و اخلاق کے اعتبار سے مالدیپ کے باشندے بہت مہذب اور شائستہ ہیں۔ البتہ جنوبی علاقے کے لوگ مقابلتاً کرخت اور الہڑ ہیں۔ ان کے نقش بھی موٹے اور رنگ بھی سانولا ہے۔ یہاں کی دیویہی زبان میں ایک کثیر تعداد ایسے الفاظ کی ہے جو سنہالی اور پرانی ایلو سے مشتق ہیں۔ ہنری یول (Henry Yule) نے 1885ء کے لگ بھگ اس دور کی دیویہی زبان کے الفاظ کا تجزیہ کیا اور مندرجہ ذیل گوشوارہ مرتب کیا: (1) ایسے الفاظ جو بدیہی طور پر شنگھالی سے مشتق ہیں 57 فیصد۔(2) ایسے الفاظ جو کسی حد تک شنگھالی سے مماثل ہیں 2.2 فیصد۔ (3) عربی اور فارسی کے الفاظ 10.6 فیصد، (4) ملائی زبان کے الفاظ 1.9 فیصد۔ (5) تامل کے الفاظ 1.1 فیصد۔ (6) پرتگالی الفاظ1.1 فیصد۔ (7)سنسکرت اور پالی کے الفاظ (جو شنگھالی نہیں) 0.8 فیصد۔(8) غیر معین الفاظ 24.3 فیصد۔ یہاں یہ بات بیان کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مالدیپ پر عربوں کی تہذیب و تمدن اور اسلام کی گہری چھاپ ہے۔ مالدیپ کے باشندوں نے عربوں اور مسلمانوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔ البتہ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عربی زبان کے اثرات قبول کرنے میں مالدیپ کا علاقہ ایران، عراق، ترکیہ، پاکستان اور ہندوستان کی نسبت خاصا سست رفتار رہا۔ سیاحوں اور جہاز رانوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ مالدیپ کے لوگ آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے پڑھ لکھ سکتے تھے۔ آج بھی مالدیپ میں شرح خواندگی 98 فیصد ہے۔ مالدیپ میں بارہویں صدی عیسوی کے کتبے ملے ہیں جو عربی میں ہیں۔ یہ کتبے یہاں کے مقامی درخت کی لکڑی پر کندہ کیے گئے ہیں۔ ان کا رسم الخط اور کندہ کرنے کا انداز شاہ رکن عالمؒ (ملتان) کے مزار کے کتبوں سے مماثل ہے۔ اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ لکڑی پر کندہ کرنے والے کاریگر ملتان اور دیگر مقامات سے یہاں آئے۔ آب و ہوا کی مناسبت سے مالدیپ کے لوگ سادہ اور ہلکا لباس پہنتے ہیں اور اپنے عام پیشہ کے لحاظ سے ان کا عام لباس مختصر ہوتا ہے۔ مثلاً جو مچھیرے، ماہی گیر اور مزدور ہوتے ہیں، لنگوٹی پہنتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ گھٹنوں تک چوڑی دھوتی باندھتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ پاجامہ پہنتے ہیں۔ کمر بند لپیٹنا فیشن میں شمار ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں مرد لمبے بال رکھتے تھے۔ سلطان کے پیش کار اور سپاہی خاص طور پر لمبے بال رکھتے تھے، جنہیں وہ ایک طرف جوڑا باندھ کر سجا لیتے تھے۔ مالدیپ میں عورتوں کا لباس خوشنما مگر سادہ ہوتا ہے۔ لباس اور پوشاک کی طرح یہاں کے لوگوں کا خورو نوش بھی سادہ ہے۔ چاول اور مچھلی ان کی مرغوب غذا ہے۔ روایتی طور پر یہ لوگ زمین پر چٹائی بچھا کر اور اطمینان سے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ کھانا کھاتے وقت نہ پانی پیتے ہیں نہ بات کرتے ہیں ۔ کھانے میں اگر چیونٹی، مکھی یا گرد گر پڑے تو وہ کھانا پرندوں کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ مالدیپ کے لوگ روایتی طور پر ناریل کے تنوں اور پتوں سے بنے ہوئے مضبوط جھونپڑوں میں رہتے ہیں۔ یہ جھونپڑے 12 فٹ چوڑے ہوتے ہیں اوردرمیان میں ان کی اوسط اونچائی 15 فٹ ہوتی ہے۔ مکان میں کوئی کھڑکی نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ تاریک اور گھٹے گھٹے معلوم ہوتے ہیں، لیکن عورتیں ان مکانوں کو نہایت صاف ستھرا اور مختلف النوع اشیا سے آراستہ کر کے رکھتی ہیں۔