دنیا بھر میں رائج زمانے

دنیا بھر میں رائج زمانے

اسپیشل فیچر

تحریر : شیخ نوید اسلم


مادی ترقی کے اعتبار سے ماہرین ِ آثار ِقدیمہ نے زمانے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔پتھر کا زمانہ (Stone Age) کانسی کا دور (Bronze Age) اور لوہے کا زمانہ (Iron Age) شامل ہے۔ ٭پتھر کا زمانہ: یہ وہ زمانہ ہے، جس میں انسان کا تمام تر دارو مدار پتھر، لکڑی یا ہڈی کے اوزاروں پر تھا۔ وہ اوزاروں کو ان کی قدرتی حالت میں باقاعدہ تراش خراش کرکے استعمال کرتا تھا۔ اس زمانے میں انسان کسی بھی قسم کی دھات سے ناآشنا تھا ۔وہ دریائوں کے کناروں غاروں یا قدرتی چٹانوں کے سائے میں رہتا تھا۔ جانوروں کا شکار کرکے یا قدرتی نباتات سے اپنا پیٹ پالتا تھا۔ اس کی کوئی مستقل رہائش گاہ نہیں ہوتی تھی،لیکن پتھر کے زمانے کے اختتام کے قریب جسے پتھر کا نیا زمانہ(Neolitic Age) کہا جاتا ہے۔ اس نے کھیتی باڑی کا آغاز کیا جانوروں کو سدھایا ۔اس کے لیے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں مستقل رہائش اختیار کی، لیکن اس دور میں بھی انسان دھات کے استعمال سے ناآشنا رہا۔٭کانسی کا زمانہ: دھاتوں میں سب سے پہلے استعمال ہونے والی دھات تانبا اور کانسی تھی۔(کانسی، تانبے اور قلعی کے مرکب سے تیار کی جاتی تھی اور زیادہ مضبوط اور مقبول تھی) اس لیے اسے کانسی کا زمانہ کا جاتا ہے کانسی کا استعمال اوزار اور گھریلو استعمال کی اشیاء بنانے میں کیا جاتا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پتھر کے اوزار بھی استعمال کیے جاتے تھے اس لیے اسے Chaeolithic بھی کہا جاتا ہے۔ وادیٔ سندھ کی مشہور تہذیب کا تعلق اسی دور سے ہے۔٭ لوہے کا زمانہ: لوہے کی دریافت برصغیر پاک و ہند میں تقریباً1000 قبل ازمسیح ہوئی اور روز مرہ کی اشیاء اور اوزار بنانے میں لوہے کا استعمال شروع ہوگیا۔ پوری دنیا میں ادوار زمانہ کی یہی تقسیم رائج ہے ،لیکن ہر خطے میں ان ادوار کا زمانہ مختلف ہو سکتا ہے البتہ اوسطاً ان ادوار کی جو تاریخ متعین کی گئی ہے ۔اس کی بنیاد انسان کی دماغی ارتقائی کیفیت اس کے وجود اور ارضیاتی ادوار کا آپس میں تعلق اس کی چھوڑی ہوئی یا اس سے منسلک باقیات اور ٹیکنالوجی پر ہے۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)سیاسی،اقتصادی اور معاشی تعاون پر مبنی اتحاد

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)سیاسی،اقتصادی اور معاشی تعاون پر مبنی اتحاد

پاکستان کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اسلام آبادمیں شروع ہو گیا ہے ۔دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد آبادی پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)، سیاسی، اقتصادی اور معاشی تعاون پر مبنی اتحاد ہے۔ یہ تنظیم جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو اس خطے کے سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے منظر نامے کیلئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ تنظیم کی بنیاد کب رکھی گئی؟چین نے 1996ء میں قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان کے ساتھ مل کر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی بنیاد 'شنگھائی فائیو‘ کے نام سے رکھی تھی۔بعد ازاں جون 2001ء میں ان پانچوں ممالک کے رہنماؤں نے شنگھائی میں ازبکستان کے رہنماؤں کے ساتھ ایک ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کے عزم کے ساتھ 'شنگھائی فائیو‘ کو 'شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)‘میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔تنظیم کے قیام کے بعد اس کے رکن ممالک نے 2002ء میں سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والے اجلاس میں چارٹر پر دستخط کیے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) نے 2004ء میں اقوامِ متحدہ، 2005ء میں دولتِ مشترکہ اور آسیان سے رابطے قائم کیے۔ اس گروپ نے ابتدائی طور پر سرحدی تنازعات کو حل کرنے اور فوجی معاملات میں باہمی اعتماد کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی لیکن جلد ہی یہ علاقائی تعاون کیلئے ایک وسیع پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر گیا۔2001ء میں ازبکستان اس گروپ میں شامل ہوا اور شنگھائی میں ایس سی او کے باقاعدہ قیام کا اعلان کیا گیا۔ تنظیم کے مینڈیٹ میں سکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون کا احاطہ کیا گیا، جو خطے کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں باہمی انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی اہم اقدامات کئے۔ جنہوں نے اس اتحاد کو ایک ڈھیلے سکیورٹی اتحاد سے ایک کثیر جہتی تنظیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس وقت اس اتحاد نے اقتصادی تعاون، سیاسی استحکام، دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے میں مشترکہ کوششوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے خطے میں اس کی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب2017ء میں بھارت اور پاکستان کو شامل کرنے کیلئے رکنیت کی توسیع کی گئی، جس نے عالمی سطح پر اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا۔پاکستان کو رکنیت کب ملی؟اس تنظیم کے جولائی 2005ء میں قازقستان کے شہر آستانہ میں ہونے والے اجلاس میں پہلی بار پاکستان، بھارت، ایران اور منگولیا نے بطور مبصر شرکت کی۔امریکا نے بھی 2005ء میں ہونے والے ایس سی او اجلاس میں بطور مبصر شریک ہونے کیلئے درخواست دی جسے مسترد کر دیا گیا۔ایس سی او کے تحت 2007ء تک بڑے پیمانے پر نقل و حمل، توانائی اور ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلق 20 سے زیادہ منصوبے شروع کیے گئے۔اس تنظیم کی قیادت ہیڈز آف اسٹیٹ کونسل کرتی ہے۔ سالانہ اجلاسوں میں اراکین کثیرالجہتی تعاون کے مسائل پر تبادلہ خیال اور تنظیم کے بجٹ کی منظوری دیتے ہیں۔ایس سی او کے مقاصد میں علاقائی انسدادِ دہشت گردی اور انفراسٹرکچر بھی شامل ہے۔ اس تنظیم نے 2001ء سے 2008ء تک تیزی سے ترقی کی اور اقتصادی و سکیورٹی معاملات سے نمٹنے کیلئے متعدد مستقل ادارے قائم کیے۔پاکستان اور بھارت 9 جون 2017ء کو ایس سی او کے مکمل رکن بنے، پھر ایران اور بیلاروس کو بھی رکنیت دے دی گئی، اب اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہے؟اس تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک کو تعاون پر مبنی فورم مہیا کرنے کے ساتھ دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف صلاحیتوں اور مشترکہ بیانیے پر متفق کرنا بھی ہے تاہم ادارہ جاتی کمزوریاں، مشترکہ مالیاتی فنڈز کی کمی اور متصادم قومی مفادات اعلیٰ سطحی تعاون میں حائل ہیں۔اب تک کتنے سربراہی اجلاس ہوئے؟شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 14 ستمبر 2001ء سے لے کر اب تک 22 سربراہی اجلاس ہو چکے ہیں اور 23 واں سربراہی اجلاس 15سے 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

ویگ کوپ کی جنگویگ کوپ کی جنگ جسے عام طور پر ویچٹکوپ کی جنگ بھی کہا جاتا ہے، 16اکتوبر1836ء کو شروع ہوئی۔ لڑائی کا آغاز ہیلبرون،فری اسٹیٹ جنونی افریقہ کے قریب ہوا جب دریائے وال پر تقریباً 15 سے 17 افریقی وورٹریکرز کا قتل عام کرنے کے بعد تین بچوں کو اغوا کر لیا گیا۔اس حملے کے بعد بادشاہ مزلیکازی نے ایک اور حملے کا حکم دیا لیکن آندریس پوٹگیٹر کی کمان میں بادشاہ کی افواج کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا، اس کے بدلے میں انہیں اپنے مویشیوں کی قربانی دینا پڑی۔والٹ ڈزنی کا قیاموالٹ ڈزنی جسے عرف عام میں ڈزنی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،معروف امریکی میڈیا کمپنی ہے جس کا صدر دفتر کیلیفورنیا میں واقع ہے ۔ اس کمپنی کا قیام16اکتوبر 1923ء کو والٹ برادران اور رائے اور ڈزنی کی جانب سے عمل میں لایا گیا تھا۔ابتدائی طور پر اس کا نام والٹ ڈزنی سٹوڈیو کمپلیکس رکھا گیا بعد میں اس سٹوڈیو نے والٹ ڈزنی پروڈکشن کے نام سے بھی کام کیا۔دنیا میں مقبول ترین کارٹون کردار مکی کی تخلیق بھی اسی سٹوڈیو میں کی گئی۔1940ء کی دہائی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد کمپنی نے1950ء میں لائیو ایکشن فلموں ، ٹیلی ویژن اور تھیم پارکس میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا شروع کیا۔آج والٹ ڈزنی دنیا کے مقبول ترین سٹوڈیوز میں سے ایک ہے۔نیورمبرگ کی پھانسینیورمبرگ کی پھانسی16 اکتوبر 1946ء کو نیورمبرگ ٹرائلز کے اختتام کے فوراً بعد عمل میں آئی۔نازی جرمنی کے سیاسی اور عسکری قیادت کے دس سر کردہ ارکان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ان سزاؤں کیلئے ریاستہائے متحدہ امریکہ نے نیورمبرگ جیل کے جمنازیم میں لانگ ڈراپ کی بجائے معیاری ڈراپ کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے ادا کیں۔پھانسی دینے والے ماسٹر سارجنٹ جان سی ووڈس اور اس کے معاون، ملٹری پولیس اہلکار جوزف مالٹا تھے۔ لاؤ ائیر لائنز حادثہلاؤ ایئر لائنز کی پرواز 301 وینٹیانے سے پاکسے، لاؤس کیلئے طے شدہ ڈومیسٹک مسافر پرواز تھی۔ 16 اکتوبر 2013ء کوطیارہ پاکسے کے قریب دریائے میکونگ میں گر کر تباہ ہو گیا، اس خوفناک حادثے کے نتیجے میں جہاز میں سوار تمام49افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ لاؤٹیا کی سرزمین پر اس وقت تک کا سب سے بڑا فضائی حادثہ تھا۔تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ حادثے کی ممکنہ وجہ پاکسے ہوائی اڈے پر لینڈنگ کی منسوخی اور عملے کا مسڈ اپروچ طریقہ کار کو ٹھیک سے سرانجام نہ دینا تھی۔ 

ہاتھ دھونے کا عالمی دن

ہاتھ دھونے کا عالمی دن

دنیا بھر میں 15 اکتوبر ''ہاتھ دھونے کے عالمی دن‘‘ (Global Handwashing Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد لوگوں، بالخصوص بچوں میں ہاتھوں کو صابن کے ساتھ دھونے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے تاکہ ہاتھ دھونے کی عادت کو پروان چڑھایا اور اس کے ذریعے مختلف بیماریوں سے بچا جا سکے۔ہم جانتے ہیں کہ صحت مند زندگی کیلئے صفائی ستھرائی نہایت اہم ہے۔ ہمارے دین نے اس کی اہمیت کو اس طرح سے واضح کیا ہے کہ صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر باطن کے ساتھ ساتھ جسمانی و ظاہری صفائی کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ (البقرہ : 222)۔ نبی اکرمﷺ کا ارشاد پاک ہے: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے (صحیح مسلم: 223)۔اسی طرح ایک مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ہاتھ دھو کر اس سے ہونے والے فوائد حاصل کرتا ہے ۔ دیگر مذاہب نے ہاتھ دھونے کی اہمیت کو سمجھا تو ایک دن اس کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے ہاتھ دھونے کا عالمی دن مقرر کیا ۔ بیماریوں کی ایک بڑی مقدار ہمارے ہاتھوں اور کھانے کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ ہمارے ہاتھ روزانہ دس لاکھ جراثیم کے سامنے آتے ہیں۔جس کے ہاتھ صاف نہ ہوں ان سے ہاتھ ملانے سے بھی ہمارے ہاتھ جراثیم زدہ ہو جاتے ہیں۔اس سے ایک شعر یاد آیا!یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ ہر روز ہم مختلف قسم کی چیزوں کو چھوتے ہیں جو غیر صحت بخش اور گندی ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان چیزوں کو چھونے کے بعد اپنے ہاتھ نہیں دھوتے اور صاف نہیں کرتے تو کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعے جراثیم آسانی سے ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اسہال، دست، پیچش کے سبب بچوں کی شرح اموات میں خطرناک اضافہ بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ بچوں میں ہاتھ دھونے کی عادت کو پروان چڑھایا جائے ۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سالانہ 2 کروڑ سے زائد بچے ان بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے ایک اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ بچے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ اسہال کی بیماری مختلف جراثیم سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ جراثیم، آلودہ پانی یا جراثیم والے ہاتھوں سے کھانا کھانے سے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اس بیماری کو روکنے کا سب سے موثر اور آسان ترین راستہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کو جراثیم سے پاک رکھا جائے۔اپنے ہاتھوں کو صابن کے ساتھ کم از کم 20سیکنڈ تک دھوئیں۔بیت الخلاء سے فراغت کے بعد ہاتھ صابن سے دھوکر درجنوں بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ جس میں معدے،آنکھ ،ناک کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت کو پختہ کرنا چاہیے۔علاوہ ازیں کوئی بھی ایسا کام کریں جس سے ہاتھ گندے ہو جائیں تو ہاتھ دھونے چاہیے ۔ ہمیں چاہے گھر میں واپس لوٹیں تو لازمی ہاتھ دھوئیں ۔ہاتھ دھونے کے طریقہ کار کے حوالے سے پاکستان میں قومی ادارہ صحت نے بھی یہ گائیڈ لائینز شائع کی ہیں۔ ان کے مطابق ہاتھوں کو دھونے سے ان پر جراثیم کا بالکل خاتمہ یقینی ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار درج ذیل ہے۔ پہلے ہاتھوں پر اچھی طرح صابن لگائیں۔ دونوں ہتھیلیوں کو مخالف ہاتھ کی مدد سے خوب رگڑیں۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پشت سے ملا کر باری باری صاف کریں۔ انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر، انگوٹھوں کو ہتھیلی سے گھما کر ،بند انگلیوں کی پشت کو ہتھیلی کے ساتھ رگڑ کر ہاتھ دھوئیں ۔جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ عالمی سطح پر ہر سال 15 اکتوبر ''ہاتھ دھونے سے متعلق عوامی آگہی‘‘ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 2008ء میں 70 مختلف ممالک کے 120 ملین بچوں نے بیک وقت اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھو کر کیا ۔تاکہ ایسے بچوں پر جو اسہال اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کے سبب موت کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، توجہ مرکوز کر کے ان کی شرح اموات میں کمی لائی جا سکے۔ہمیں خود بھی ان سب باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور بچوں کو بھی تاکید کرنی چاہیے ۔حفظان صحت کیلئے صفائی کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں اور ہمارا دین بھی ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام شہروں بالخصوص دیہی علاقوں میں ہاتھوں کی صفائی اور صاف پانی کے استعمال کے کلچر کو فروغ دیا جائے اور اس کیلئے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر عوامی شعور کی آگہی کی مہمات چلائی جائیں تاکہ صحت و صفائی کے ذریعے صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

مادام تسائو مومی عجائب گھر

مادام تسائو مومی عجائب گھر

سنگ تراشی تو دنیامیں زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے لیکن موم کو انسانی قالب کی شکل دینا کمال کا کام ہے۔ اس فن کو فرانس میں 1761 ء میں پیدا ہونے والی مادم تسائو نے عروج تک پہنچایا ہے اور آج لندن کے علاوہ دنیا کے25 شہروں میں مادام تسائو کے نام سے مومی عجائب گھر موجود ہیں۔ لندن میں مادام تسائو نے1835ء میں پہلا مومی عجائب گھرقائم کیا۔میری تسائو کی والدہ سوئٹزر لینڈ کے شہر برن میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کے ہاں ملازمہ تھی۔ وہ ڈاکٹر ایک ماہر موم تراش بھی تھا۔ مادام تسائو نے مومی مجسمہ سازی کا فن اسی ڈاکٹر سے سیکھا۔ مادام تسائو نے 16 سال کی عمر میں پہلا مجسمہ فرانس کے مشہور فلاسفر اور لکھاری والٹیئر کابنایا۔ اس کے بعد اس نے روسو بنجمن فرینکلن کے علاوہ کئی مشہور افراد کے موم کے مجسمے بنائے۔ مادام تسائو 17 سال کی عمر میں فرانس کے بادشاہ لوئیس XVI کی بہن کی ٹیوٹر بن گئی۔ بعد میں انقلاب فرانس شروع ہوا تو اس شاہی خاندان کے ہمراہ نہ صرف تین ماہ کیلئے پابند سلاسل کردیا گیا بلکہ پھانسی پانے والوں کی فہرست میں بھی شامل کرلیا گیالیکن اس کے ایک بااثر دوست کی کوششوں سے اسے رہا کر دیا گیا۔ ڈاکٹر کرٹیوس کے 1794ء میں وفات پا جانے کے بعد اس کے مومی ماڈلوں کا وسیع ذخیرہ مادام تسائو کو ورثہ میں ملا۔مادام تسائو کو 1802ء میں لندن سے اس کے فن کی نمائش کیلئے دعوت نامہ ملا۔ مادام تسائو نے اپنے فن کی نمائش پورے برطانیہ میں کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے فن میں نکھار آتا گیا۔ عوام نے اس کے فن کو خوب سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔ اس نے لندن کی ہیکر سٹریٹ میں اپنا گھر بنا لیا اور وہیں اپنا میوزیم قائم کرلیا۔ 1835ء میں قائم ہونے والا یہ موم کا پہلا میوزیم تھا۔ برطانیہ میں مادام تسائو کے اس فن کو بہت شہرت ملی۔ 16 اپریل 1850ء کو مادام تسائو کا 89ء برس کی عمر میںلندن میں انتقال ہوا۔ آج مادام تسائو کا قائم کردہ میوزیم اسی کے نام سے مشہور ہے۔آج تقریباً 300 سے زائد کی تعداد میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے موم کے بنائے ہوئے مجسمے اس میوزیم میں موجود ہیں۔ ان شخصیات کا تعلق سیاست ، عالمی سطح کے لیڈر ، فلم ، کھیل ، ادب ، میوزک ، ٹی وی ، سٹیج اداکار اور شاہی خاندان سے ہے۔ مادام تسائو کے میوزیم کو1925ء میں لگی آگ سے شدید نقصان پہنچا۔ جنگ عظیم دوم میں جرمنوں کی بمباری سے لندن شہر کے باقی حصوں کی طرح اس میوزیم کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ بعد میں اسے مرمت کردیا گیا۔مادام تسائونے اپنا ذاتی مجسمہ بھی بنایا جو میوزیم کے داخلی دروازہ کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ مادام تسائو کا مومی میوزیم لندن کی بہت بڑی تفریح گاہ بن چکا ہے۔ اس میوزیم کے مغربی جانب لندن پلنٹیریم موجود ہے۔ اب دنیا کے کئی شہروں میں مادام تسائو میوزیم کی کئی شاخیں کھل چکی ہیں جن میں ایمسٹرڈیم، بنکاک، ووہان، برلن، دبئی، شنگھائی، لاس ویگاس، ماسکو، نیویارک، ہالی ووڈ، ہانگ کانگ، ہیمبرگ، ویانا، واشنگٹن، ڈی سی، بیجنگ اور لینڈو، سان فرانسسکو، سڈنی، استنبول، دہلی، ٹوکیو سنگا پور، کوالالمپور، بوڈاپسٹ اور پراک شامل ہیں۔ لندن کے مادام تسائو میوزیم میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا مجسمہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ عالمی شہرت کی حامل جن شخصیات کے مجسمے یہاں رکھے ہیں ان میں چند کے نام یہ ہیں۔ ایڈولف ہٹلر، ونسٹن چرچل، امیتابھ بچن، مصطفی کمال اتاترک، لیڈی ڈیانا، جارج واشنگٹن، میڈونا، مارلن منرو، ماہتما گاندھی، نیلسن منڈیلا، پوپ جان پال دوم، ٹونی بلیئر، ولیم شیکسپیئر، آندرے آگاسی، شاخ رخ خان، سلمان خان، چارلی چیپلن، الزبتھ ٹیلر، ملکہ الزبتھ دوم، برنس فلپس، نپولین بوناپاٹ، پرنس چارلس (موجودہ بادشاہ) پرنس کمیلا، جان ایف کینیڈی، آئزک نیوٹن، اندرا گاندھی، بل کلنٹن، ہیلری کلنٹن، بل گیٹس، بروس لی، دلائی لامہ، کپل دیو، کرینہ کپور، لی کوان یو، تھامس ایڈیسن، ولادی میر ی پوٹن، نیل آرم سٹرانگ، ملکہ وکٹوریہ، پرنس ولیم، پرنس ہیری اور یاسر عرفات۔عمومی طورپر ایک مجسمہ تیار کرنے میں چار ماہ صرف ہوتے ہیں جن کا کام کا دورانیہ350 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ بے شمار پیمائش اور200 کے قریب فوٹو درکار ہوتی ہیں۔ بنانے والے ماہر فنکار کو کو ئی ویڈیو اور فوٹو گراف کا عمیق مشاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ سرکا ایک ایک بال علیحدہ علیحدہ چسپاں کرنا پڑتا ہے اور سر کیلئے تقریباً ایک لاکھ بال لگائے جاتے ہیں، جس کیلئے پانچ ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈورے میں لال ریشمی دھاکہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مادام تسائو کے تمام مجسمے کمپنی کے لندن میں قائم سٹوڈیوز میں بنائے جاتے ہیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

نیلسن منڈیلا کیلئے نوبیل 15 اکتوبر 1993ء کو جنوبی افریقہ کے صدر ڈی کلیرک اور قومی اسمبلی کے اسپیکر نیلسن مینڈیلا کو نوبیل امن ایوارڈ دیا گیا ۔اس کا مقصد ملک میں نسل پرستی کو ختم کرنا تھا۔آج نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ اور تمام دنیا میں ایک تحریک کا نام ہے جو اپنے طور پر بہتری کی آواز اٹھانے میں مشہور ہے۔ نیلسن منڈیلا کو ان کی چار دہائیوں پر مشتمل تحریک و خدمات کی بنیاد پر 250 سے زائد انعامات سے نوازا گیا جن میں سب سے قابل ذکر 1993ء کا نوبیل انعام برائے امن ہے۔ بحر اوقیانوس عبور کرنے کی کوشش 1910ء میں گرم ہوا کی مدد سے اڑنے والے غبارے کے ذریعے بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کی پہلی کوشش کی گئی۔ کشتی اور سلیج کے ذریعے بحر اوقیانوس کو عبور کرنے میں ناکامی کے بعد ہاٹ ایئر بیلون پر سفر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس بیلون کو فرانس میں لوئس متین گوڈارڈ نے تیار کیا تھا۔ گلاسکو کی جنگ15اکتوبر1864ء کو شروع ہونے والی ''گلاسکو کی جنگ‘‘ امریکی خانہ جنگی کے دوران گلاسکو میسوری اور اس کے قریبی علاقوں میں لڑی گئی۔ یہ لڑائی میسوری مہم کا ایک حصہ تھی۔ جنگ کے نتیجے میں کنفیڈریٹ نے مطلوبہ ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا جس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔کنفیڈریٹ کو پائلٹ نوب کی لڑائی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے فوج مایوسی کا شکار تھی لیکن ہتھیاروں پر قبضے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔سلواڈور کی بغاوت15اکتوبر1979ء کو سلواڈور میں ہونے والی بغاوت دراصل ایک فوجی بغاوت تھی۔ اس کی قیادت نوجوان فوجی افسران نے کی جس کے نتیجے میں ایک خونزیز لڑائی کے بعد فوجی صدر کارلوس ہمبر ٹورومیرو کو معزول کرنے کے بعد جلاوطن کر دیا گیا۔اس بغاوت کے بعد قومی مفاہمت پارٹی کی حکومت ختم کر دی گئی اور فوجی افسران کی جانب سے ایک انقلابی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ 

دنیا کےخوشحال اور بدحال ترین شہر!

دنیا کےخوشحال اور بدحال ترین شہر!

بنیادی طور پر معیار زندگی کا مطلب کسی بھی خطے میں آباد افراد کو دستیاب بنیادی ضروریات زندگی کا وہ پیمانہ ہے جو اسے دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں صحت، تعلیم، استحکام، امن و امان، بنیادی انتظامی ڈھانچہ، ثقافت اور ماحول قابل ذکر ہیں۔ دراصل دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کوئی حکومت اپنے عوام کو کس مقدار میں اور کس معیار کے ساتھ بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرتی ہے۔برطانوی جریدے ''اکانومسٹ‘‘ کا ایک ذیلی ادارہ ''اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ (ای آئی یو) ہر سال دنیا بھر کے ممالک میں دستیاب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مالی اور معاشی اعداد و شمارلے کران کی درجہ بندی کرتا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے افراد کیلئے ایک پیمانہ تجویز کرنا ہوتا ہے کہ نقل مکانی کی صورت میں کون سا ملک ان کیلئے بہتر اور موزوں ہے۔ اس درجہ بندی میں پانچ بنیادی عوامل کو سامنے رکھا جاتا ہے، جس میں استحکام، صحت کی سہولیات، تعلیم، بنیادی ڈھانچہ ، ثقافت اور ماحول شامل ہوتے ہیں۔یہ درجہ بندی ایک وسیع تر سروے کے ذریعے براہ راست دنیا بھر کے سرکردہ شہروں کے باسیوں کی آرا پر مبنی ہوتی ہے۔ حال ہی میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے سال 2024ء کے دس بہترین قابل رہائش شہروں کی درجہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ یہ سروے دنیا بھر کے 173 شہروں کو 30 اشاریوں کی بنیاد پر پانچ زمروں ( جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے) میں تقسیم کرتا ہے۔یہ سروے12 فروری 2024ء سے لے کر 17 مارچ 2024ء کے دوران کیا گیا تھا۔اس سروے کے مطابق مغربی یورپ عالمی سطح پر بہترین رہائش پذیری کے لحاظ سے سرفہرست ہے جس کا مجموعی سکور 100 میں سے 92 ہے۔ شمالی امریکہ دوسرا بہترین خطہ ہے جس نے 100 میں سے90.5 سکور حاصل کیا ہے۔ بدقسمتی سے ایشیاء وہ خطہ ہے جس کا صرف ایک ملک جاپان جس کا شہر اوساکا نویں نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آسٹریا وہ واحد ملک ہے جس کا شہر ویانا مسلسل تین سال سے پہلی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دس بہترین قابل رہائش شہر ویانا ( آسٹریا ): قابل رشک رہائشی شہروں کی عالمی فہرست میں رواں سال بھی 98.4فیصد نمبر حاصل کرکے مسلسل تیسری مرتبہ پہلی پوزیشن سنبھالنے والا آسٹریا کاشہر ویانا ہی ہے۔رواں سال کی رپورٹ کے مطابق ویانا نے دوسال پہلے یہ ٹائٹل نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ سے چھینا تھا جو پہلے نمبر سے 34 ویں پر پہنچ گیا تھا۔ ماہرین اس کی وجہ کورونا کی وجہ سے عائد پابندیوں کو بتاتے ہیں۔ ویانا وہ شہر ہے جس نے انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور استحکام کے شعبوں میں سو فیصد نمبر حاصل کئے ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین ویانا کو دنیا کا پرکشش اور قابل رشک شہر کا اعزاز حاصل کرنے کی وجہ اس کا استحکام ، مضبوط انفرا سٹرکچر، بہترین طبی سہولیات، ثقافت اور تفریح کے خاطر خواہ مواقع اور موثر تعلیمی نظام کو بتاتے ہیں۔ کوپن ہیگن (ڈنمارک ):کوپن ہیگن ڈنمارک کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر ای آئی یو کے سالانہ سروے ''بہترین معیار زندگی‘‘ کے مطابق کئی مرتبہ پہلے نمبر پر رہا ہے۔2021ء تک یہ متعدد بار پہلے نمبر پر رہ چکا ہے جبکہ اس سال 98فیصد نمبر حاصل کر کے یہ مسلسل تین سال سے دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ یہ دنیا کے ماحول دوست شہروں میں بھی نمایاں مقام پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں ماحول کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کیلئے ترجیحی طور پر سائیکل استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بہترین ریاستی انفراسٹرکچر، ثقافت ، سیاحت ، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں متاثر کن کارکردگی کے سبب یہ اس سال بھی دوسری پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے۔زیورخ (سوئزر لینڈ ):اس شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ 2021ء سے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پہلے نمبر پر ہے۔معیار زندگی کے لحاظ بھی یہ شہر دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل رہتا ہے۔ امسال یہ شہر ای آئی یو کے انڈیکس 97.1 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں یہ سو فیصد نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ سال گزشتہ یہ اس انڈیکس میں چھٹی پوزیشن پر تھا۔ اس کی وجہ یہاں کا معیاری نظام تعلیم، مضبوط ریاستی انفراسٹرکچر، صحت اور امن و امان کی مجموعی صورتحال ہے۔ ملبورن (آسٹریلیا ): ملبورن اس سال ای آئی یو کی فہرست میں 97 فیصد نمبر حاصل کر کے یہ چوتھے نمبر پر ہے۔ سال گزشتہ یہ اسی رپورٹ میں تیسرے نمبر پر براجمان تھا۔اس شہر کو ثقافت اور ماحولیات میں دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں برتری حاصل ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اس شہر کو بھی سو فیصد نمبر حاصل ہیں۔ خوبصورت ٹرمز کی وجہ سے یہاں کے شہریوں کو سفر کی بہترین سہولتیں میسر ہیں۔اس سروے کے مطابق یہاں کے شہریوں کا رویہ دوستانہ اور مثبت ہے۔ یہاں صحت، تعلیم اور امن و امان کا نظام انتہائی مضبوط ہے۔ کیلگری (کینیڈا ) جینیوا (سوئزر لینڈ ):ای آئی یو کی اس فہرست میں کینیڈین شہر کیلگری ا س سال 96.8 نمبروں کے ساتھ پانچویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا ہے جبکہ سال گزشتہ یہ شہر ساتویں پوزیشن پر تھا۔ اس کے ساتھ سوئز شہر جینیوا بھی96.8فیصد نمبروںکے ساتھ پانچویں ہی نمبر پر براجمان ہے۔ یہاں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ سال گزشتہ کیلگری ساتویں پوزیشن سے امسال پانچویں پوزیشن پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے ایسے ہی سوئس شہر جینیوا بھی سال گزشتہ آٹھویںپوزیشن پر ہونے کے بعد امسال پانچویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہوا ہے۔آسٹریلیا کا شہر سڈنی اور کینیڈا کا شہر وینکور مشترکہ طور پر 96.6فیصد نمبر حاصل کر کے ساتویں پوزیشن پر براجمان ہیں۔جاپان کا شہر اوساکا اور نیوزی لینڈ کا شہر آکلینڈ 96 فیصد نمبر کے ساتھ مشترکہ طور پر نویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ جاپان کا شہر اوساکا صحت ، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سو فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود بھی امسال 10 ویں پوزیشن حاصل کر پایا ہے۔ غیر محفوظ شہر ای آئی یو کے سال 2024 کے سروے کے مطابق غیر محفوظ اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے 173ملکوں کی اس فہرست میں دمشق 173 ویں نمبر پر جبکہ طرابلس 172 ویں ، الجیریا 171 ویں،نائجیرین شہر لاگوس 170 ویں کراچی 169 ویں اور بنگلہ دیشی شہر ڈھاکہ 168 ویں نمبر پر ہیںجبکہ زمبابوے ، پاپوا نیو گنی ، یوکرین اور وینزویلا بالترتیب 167 سے 164 ویں نمبر پر ہیں۔