گدھا گاڑی ریس
اسپیشل فیچر
کراچی والوں کے لیے ایک دل چسپ تفریح***گدھا گاڑی دوڑ کب اور کہاں شروع ہوئی، یہ بتانا مشکل ہے، لیکن کھیلوں کے تحقیقی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا میں اس کی شروعات برصغیر پاک وہند سے ہوئیں۔ ان کے مطابق ان دوڑوں کے شروع کرنے والے دھوبی تھے اور آج بھی ان دوڑوں میں زیادہ دل چسپی کا مظاہرہ بھی ان ہی کی جانب سے کیا جاتا ہے، جب کہ دوسرے نمبر پر بلوچ بھائی آتے ہیں۔ ڈنکی ریس کراچی کا قدیم ترین کھیل مانی جاتی ہے۔ ریس کراچی کے علاوہ حیدرآباد، میرپور خاص، ٹنڈو آدم، ٹنڈو محمد خان اور سکھر میں بھی ہوتی ہے، لیکن ریس کا مرکز کراچی ہی کو ماناجاتا ہے، جہاں ضلع جنوبی اور ملیر میں یہ دوڑیں ہوتی ہیں۔ ڈنکی ریس دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ،جو گدھا گاڑی والے خود شرط لگا کر کرتے ہیں، تو دوسری ریس ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن کرواتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ ریس با قاعدہ دس برس سے ہو رہی ہے۔ یہ ریس تین درجوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اوّل درجے میں چھوٹے، دوم میں درمیانے اور سوم درجے میں بڑے گدھے شامل ہوتے ہیں۔ ہردرجے میں 10 سے 20 گدھے شامل کیے جاتے ہیں۔ ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ہونے والی دوڑ کو باقاعدہ اسپورٹس کا حصّہ مانا جاتا ہے اور دوڑ میں شامل گدھوں کے نام قومی و بین الاقوامی ہیروز کے نام پر رکھے جاتے ہیں، جنہیں جان کر لوگ مُسکرا اُٹھتے ہیں باخبر ذرائع کے مطابق، دوڑ سے پہلے گدھوں کو ہیروئن، چرس اور دیگر نشہ آور اشیاء بھی دی جاتی ہیں تاکہ وہ دوڑ جیت سکیں۔ اس کھیل کے ایک شوقین کا کہنا ہے کہ اکثر گدھا مالکان، اپنے گدھوں کو جتوانے کے لیے عاملوںسے تعویز بھی حاصل کرتے ہیں، دورانِ دوڑ، اکثر گدھوں کے گلے میں تعویز نظر آتے ہیں۔ سامانِ رسد اِدھر سے اُدھر پہنچانے میںگدھے مالکان کی خدمت کرتے تھے، لیکن یہاں معاملہ اُلٹا نظر آتا ہے۔ مقابلے میںدوڑنے والے گدھوں کو اچھی سے اچھی غذا کھلائی جاتی ہے،اُن کی خوب مالش کی جاتی ہے اور آرام کا ہر طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ ریس سے قبل گدھوںکو ریس کے مقام پر ٹرک میں لوڈ کر کے لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ ریس سے قبل تازہ دم رہیں۔ڈنکی ریس کراچی کے شہریوں کے لیے تفریح کی حیثیت رکھتی ہے، خاص طور پر ملیر اور لیاری کے لوگ اس کے بے حد مداح ہیں۔ اس ریس میں لوگوں کی دل چسپی دیکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پہلی بار اس کی سرکاری سرپرستی شروع کی تھی، اب ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن حکومتی سرپرستی ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں اس ریس کو حکومتِ سندھ کی سرپرستی حاصل ہے۔ موجودہ گورنر سندھ نے کئی بار اس ریس کا افتتاح کیا اور جیتنے والوںمیں انعامات تقسیم کیے۔ ڈنکی ریس میں مختلف برادری کے افراد حصّہ لیتے ہیں، جن میں لیاری کے قدیم باشندے اور انڈیا سے آنے والے دھوبی برادری کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈنکی ریس میں سب سے خوب صورت گاڑیاں بھی دھوبیوں ہی کی ہوتی ہیں۔ ایک گدھا گاڑی والے کے مطابق، ریس میں دوڑنے والے گدھے کی خوراک کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ اس سے کوئی کام نہیں لیا جاتا، جب کہ جوگدھے سامان اٹھانے کے کام آتے ہیں، وہ ریس میں نہیں دوڑ سکتے۔ مقابلوں کی انعامی رقم بہت کم ہوتی ہے۔ ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ہونے والی ریس میں 10 ہزار سے 30 ہزار تک کا انعام دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار اس ریس میں 50 ہزار روپے تک کا بھی انعام ہوتا ہے۔ کراچی میں یہ ریس زیادہ تر بلدیہ ٹاؤن سے حب چوکی تک ہوتی ہے، جب کہ سٹی گورنمنٹ کے زیر اہتمام گدھا گاڑی ریس نیٹیوجیٹی پل سے شروع ہو کر کلفٹن پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ جب ریس شروع ہوتی ہے، تو گدھوں کے آگے پولیس کی موبائلیں موجود ہوتی ہیں تاکہ روڈ پر کوئی دوسری گاڑی نہ آسکے۔