برصغیر میں صوفیائے کرام کی خدمات
اسپیشل فیچر
احمد رئیسیہ حقیقت اظہرِ من الشمس ہے کہ سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کی ساری مخلوق اُس کے حضور اپنی جبینِ نیاز خم کردے، یعنی طغیان و عصیان کا خاتمہ ہوجائے اور تمام بنی نوع انسان میل جول اور پیار ومحبت سے زندگی بسر کریں۔ ایک دوسرے کی دست گیری کریں،ایک دوسرے سے ہم دردی ہو، تاکہ خدا کی وسیع و عریض سرزمین گناہوں اور بدکرداریوں کی آلودگی سے ہمیشہ پاک صاف رہے۔اس مقصد کی تکمیل میں جو تکلیفیںاورزحمتیںمصلحِ اعظم نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو پیش آئیں ،وہ سب نا صرف مسلمانوں کے علم میں ہیں بل کہ ساری دُنیا ان سے واقف ہے اورجس طرح اللہ کے صادق وامین پیمبرؐ نے گم راہ اور نافرمان بندوں کو پیغام ِالہٰی پہنچانے میں ان تمام تکلیفوں اور زحمتوں پرصبر فرمایا ہے‘تاریخ کے صفحات ان سے بھرے پڑے ہیں۔ابتدائے آفرینش سے بنی نوع انسان نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ حق و باطل کی لڑائی میں فتح و ظفر ہمیشہ حق کے ساتھ ہوا کرتی ہے، اس لیے اہل ِعالم نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھاکہ 23سال کی قلیل مدت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ کام یابی نصیب ہوئی کہ کئی لاکھ مربع میل کا علاقہ اسلام کے زیر ِنگیں آگیا۔اس کے بعد خلفائے راشدینؓ،تابعین ،تبع تابعین اوراولیائے عظام ؒنے یہ مشن آگے بڑھایااورانسانی اخلاق کی حقیقی تصویر دُنیا کے سامنے پیش کی۔بہت سے خدا کے بندے ایسے بھی تھے جو قصرِضلالت ہی کو اپنی ناسمجھی سے ہدایت کا سرچشمہ سمجھے ہوئے تھے اور جنہوں نے مذہبِ اسلام کی سچائی اور آوازحق پر کان نہ دھرے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ندامت اورنامُرادی اپنے ساتھ لے گئے۔دُنیا کے وسیع رقبے پر اسلام کے نفاذ وعمل کے باوجود اسلامی ممالک مختلف انقلابات وحوادث سے دوچار رہے، مگرمخلص اور ہدایت یافتہ پیروانِ اسلام اپنے پیش رَو بزرگوں کے نقش ِقدم پر چلتے رہے اوران کی ہمّت و استقلال میں ذرّہ برابر بھی فرق نہ آیا ۔ان کی عملی قوّتیں مضمحل نہیں ہوئیں،ان کی دینی سرگرمیوں میں ضعف نہیں آیا اورانہوں نے حق و صداقت کو کبھی فراموش نہیں کیا۔یہی وجہ تھی کہ غیروں نے اُن پر کبھی فتح نہیں پائی وہ ہمیشہ برسراقتدار رہے‘بنواُمیّہ کا پُرتشدد دور، بنوعباس کے عہدِ حکومت،بنو فاطمہ کے زمانۂ حکمرانی کا ایک ایک واقعہ آج تاریخ کی زبان پر ہے۔خانہ جنگیوں کی آگ بھی بھڑکی،قتل و غارت کے سیلاب بھی آئے،فتنہ و فساد کے شعلے بھی بلند ہوئے مگر کسی نے نہ مذہب پرآنچ آنے دی اور نہ ملتِ اسلامیہ کی بنیادیں کم زور ہونے دیں۔ آپس میں اختلافات کے باوجود جب اسلام کی حُرمت کا سوال پیش آتا تھا تو مخالف وموافق سب کے سب ایک ہی مرکز پر جمع ہوجاتے تھے ،یہ جذبۂ صداقت ان لوگوں میں اس لیے تھا کہ حاملانِ لوائے شریعت کا ایک ایساگروہ ہر دور میں موجود رہتا تھا جس کے ہاتھ میں اُمّت کی عنان ہوتی تھی۔ وہ صحیح طور پر متبعین ِاسلام کی رہنمائی کرتے تھے ۔اِنہی قدسی صفات ہستیوں میں بہت برگزیدہ اور محبانِ اسلام کی شخصیات تبلیغ و اشاعتِ اسلام کی غرض سے دُنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئیں ۔انہیں مقدّس نفوس کو زمانہ اولیائے کرامؒ کے ناموں سے یاد کرتا ہے۔ہند کی سرزمین اگرچہ ایک زمانے سے حق کی پیاسی تھی اور اسلام کے چشمۂ فیض سے ایک عرصے تک سیراب نہ ہوسکی ،مگر اولیائے کرامؒ کے مقدّس طبقے میں سے حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ،حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ، حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ اور بالخصوص خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ سیّد معین الدین چشتی اجمیریؒ اور ان کے حلقہ بگوشوںاوردامنِ فیض وکرامت کے تربیت یافتہ اصحابِ رُشد وہدایت بالخصوص حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہٰیؒ، مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیریؒ،حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلیؒ،حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ،حضرت بندہ نواز گیسو درازؒ، حضرت شاہ نیاز بے نیاز بریلویؒ،حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ، خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ ،حضرت شاہ رکن عالم اور دیگر اصحابِ طریقت اور بُزرگانِ دین نے برصغیر کی اس پیاسی سرزمین کو سیراب فرمایا، سرزمینِ ہند پر مسجدوںکی بنیاد یں رکھیںاورنمازیوں کوفراہم کیں۔دینی مدارس و خانقاہیں بنائیں۔اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا تو اس سرزمین کی خاک سے بھی زمینِ غرناطہ کی طرح علماء وفضلاء کی جماعت پیدا ہوئی۔ صاحبِ اقبال بادشاہوں نے اسی گہوارے میں پرورش پائی۔ مُبلغینِ اسلام نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے اسے آباد فرمایا، چناں چہ ہندوستان یعنی برصغیر پاک و ہند میں صدیوں مسلمانوں کا پرچمِ اقبال لہرایا،یہ سب کیسے اور کیوںکر ہوا؟اس لیے کہ اس وقت بھی مسلمانوں کے دِلوں میں اپنے پیغمبر ِاسلام آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا اثر باقی تھا اوروہ اُن پرعمل پیراتھے۔وہ طلبِ علم کے راستے میں سرگرم ِعمل تھے۔مسلمانانِ ہند میں کثرت سے ایسے افراد تھے، جو اُخوّت وہم دردی، شرافت و انسانیت، وقار و خودداری،عزت وحمیّت،تواضع و انکسارغرض جملہ محامد و محاسن کے جوہر اپنی سرشت وخمیر میں رکھتے تھے۔خواجہ خواجگان اوردیگراولیائے کرام اُسوۂ رسولؐ سے ہی فیض یاب ہوئے اوراُسے عام کرتے رہے ۔حُبّ ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے قلوب میں رَاسخ تھی اوروہ سیرتِ مطہرہ کے مظہر تھے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان عظیم المرتبت برگزیدہ ہستیوں کے نقش ِقدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اوربالخصوص ان نفوسِ قدسیہ کی بابرکت روشنی سے ہمارے دل مُنوّرومطہر کرے کہ جن کی زندگی کا ہر لمحہ پیروی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بسر ہوتا تھاجوزندگی بھر رسول کریمؐ کے حکم کا اتباع، شریعت ِمحمدیؐ کی تلقین و ہدایت کرتے رہے۔ برصغیر پاک وہند میں صوفیائے کرام ؒ کی بڑی مُبلّغانہ خدمات ہیں۔ انہوں نے دینِ اسلام کے فروغ واحیاء کے لیے بڑا کام ہی نہیں کیا، بل کہ برصغیر میں حامیانِ اسلام کی فوج ظفر موج تیار کی اورلاکھوں کفار ومشرکین کومشرف بہ اسلام کیا۔اپنے سچے دینی کردار وعمل سے اپنے اوصافِ حمیدہ سے اپنی خوش گوئی و خوش رنگی سے خوش سخنی سے،خوش کلامی سے،خوش اخلاقی سے اُنہوں نے شریعت ِمحمدی پر عمل پیراہوکرتمام برصغیر میں شریعتِ محمدی اور دین اسلام کو فروغ دیا۔ گم راہوں کو حق کاراستہ دکھایا۔برصغیر پاک وہند میں قادریہ،سہروردیہ،نقشبندیہ اور بالخصوص چشتیہ کااثرونفوذ زیادہ رہا ہے۔ منزل سب کی ایک ہے، مگر پہنچنے کے راستے جدا جدا ہیں۔ اور یہ سب اربابِ تصوّف یا وابستگانِ سلاسل رموزِ عرفان و معرفت ہی کی بات نہیں کرتے ،بل کہ سب اہلِ طریقت شریعت پر ایمان و ایقان رکھتے ہیںاور شریعت کے مکمل نفاذ و عمل ہی کو بنیاد بنا کر منزل ومقامِ طریقت تک پہنچتے ہیں ،یعنی ہر صوفی، ہر ولی، ہر درویش مکمل طورپرشریعت کا پابند ہوتا ہے اورشریعت کا مکمل ادراک رکھتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُمّت کے چند لوگوں کو محبوبیت کا اعزازبخشا ۔یہ تو اللہ کے بندے ہیں جن سے اللہ راضی ہے ،وہ اللہ کی رضااوراس کے احکام کے پابند ہیںاور اللہ سے راضی ہیں۔اُن اکابرینِ ملت یعنی صوفیائے کرام کے دَم سے دُنیا میں نور پھیلا ہے۔ ان کی سیرتوں میں یہی وصفِ خاص نمایاں رہا ہے۔ ان کی زندگیوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اپنی حیاتِ مقدسہ کا کوئی لمحہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت سے خالی نہیں چھوڑا۔صوفیائے کرام نے اس شعار کی بدولت بڑی بڑی کٹھن اور مشکل گھڑیاں گزاری ہیں مگر حق کاراستہ نہیں چھوڑا۔رُشد و ہدایت کی مشعلیں ہمیشہ روشن رکھیں،امن واخوّت اخلاص و محبت کا درس دنیاکو دیااوراپنے کرداروعمل سے کفار ومشرکین کو مشرف بہ اسلام کیا۔ان اولیائے کرام ؒ کی سیرت روشن میناروں کی صورت میںہمارے سامنے ہے۔ہمیں چاہیے کہ ان مقدّس ومحترم ہستیوں کی بتائی ہوئی روشن راہوں کو اپنی زندگی کا راستہ بنالیں۔ اسی میں ہماری دینی ودُنیاوی کام یابی اورنجات اُخروی کارازمضمرہے۔