حجاب کا اسلامی تصور
اسپیشل فیچر
حجاب عربی اور پردہ فارسی کا لفظ ہے۔ دونوں الفاظ ہم معنیٰ ہیں یعنی اوٹ، پردہ، حجاب،ستر، آڑ، حیا، شرم، گھونگھٹ، نقاب اور برقع سمیت ان کے بے شمار معنیٰ و مفہوم لغات میں درج ہیں۔عرفِ عام میںعورت کاغیرمردوں، نامحرموں اور اجنبیوں سے ستر چھپانا،اپنے آپ کو پوشیدہ (ڈھکا‘ لپٹا) رکھنا ’’پردہ یا حجاب‘‘ کہلاتا ہے۔زمانۂ جاہلیت میں یہود و نصاریٰ، یونانی، ایرانی اور ہندی معاشرے کے افراد اپنی اپنی تہذیبوں اور تقاضوں کے علم بردار تھے۔ ان کے یہاں مذہب یاپردے یا حجاب کا کوئی تصوّر یا قانون نہیں تھا، لیکن اسلام آنے کے بعد شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کی شرم ، حیااور ناموس کی پوری پوری حد بندی کردی۔حجاب کا لفظ قرآنِ مجید میں سات مرتبہ آیا ہے۔ حجاب (پردے) کا اوّلین حکم وہ آیتِ کریمہ قرار پائی۔ جس میں اﷲ عزّوجل نے آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مخاطب کرکے فرمایا: اے نبیؐ! اپنی بیبیوں اور صاحب زادیوں اور مسلمان عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔‘‘ (سورۂ احزاب 95‘ کنز الایمان)اس سے یہ بات واضح ہے کہ مسلمان عورتیں اس آیتِ مبارکہ کے نُزول سے قبل بھی چادر اوڑھا کرتی تھیں‘ لیکن کسی اور طریقے سے آیتِ مبارکہ میں چادر اوڑھنے کا ڈھنگ بتا کر اسے شرعی پردہ قرار دیا، بل کہ انہیں چادر اوڑھنا لازمی قرار دے دیا۔ صدر الافاضل حضرت مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انہیں کسی حاجت کے لیے نکلنا ہو تو ’’سر اور چہرے کوچھپائیں۔‘‘ (تفسیر خزائن العرفان)یہ آیتِ مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے لیے پردے کے طورپر چادر سے اپنے جسم،سر اور چہرے کو ڈھانپنا لازم ہے۔ عربی میں چادر کو ’’حجاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ چادر سر تا پائوں ڈھانپنے کے کام میں آتی ہے۔ عہد نبویؐ میں یہ چادر رائج تھی۔ موجودہ دور میں اِسکارف،عبایا، برقع (ہمہ اقسام) یا پردے کی کوئی دیگر شکل جس سے عورت کے یہ اعضاء چُھپ جائیں، پردے کی جدید شکل ہیں۔حجاب کا مقصد ستر محفوظ کرنا اور اپنے آپ کو فتنے سے بچانا ہے۔ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے زمانے میں پردے کا رائج ہونا بہ کثرت روایات سے ثابت ہے۔امام محمد بن سیرین ؒ نے جب (حکم ِپردہ) سورۂ احزاب کی آیت 95 پر عمل کرنے کا طریقہ حضرت عبیدہؓ بن سفیان بن الحارث سے دریافت کیا تو انہوں نے خود چادر اوڑھ کر بتایا اور اپنی پیشانی، ناک اور ایک آنکھ کو چُھپا کر صرف ایک آنکھ کُھلی رکھی۔ حضرت ابنِ عباس ؓ اسی عمل کے قائل ہیں اور ابنِ جریر ابنِ ابی حاتم‘ اور ابنِ مردویہ رحمہم اﷲعلیہ نے بھی اسی قول کو نقل کیا ہے اور یہی تفسیر ابنِ قتادہ ؒ نے بھی بیان کی ہے۔ اسلام اوّلین دین ہے جس نے سب سے پہلے پردے (حجاب) کا تصوّر دیا تاکہ پشت و سینہ ڈھکے رہیں اور مسلمان اوّلین قوم ہے، جس نے پردے کو رواج دیا۔ آیت قرآنیہ کا اصل مقصد و مفہوم عورتوں اور معاشرے کو فتنے سے بچانا ہے نہ کہ اعضاء کی نمائش کرکے قعر جہنم کاایندھن بننا، جب کہ اس کے برخلاف نہ تو زمانۂ جاہلیت میں پردے (حجاب) کا کوئی تصوّر موجود تھا اور نہ اِس ترقی یافتہ دور میں غیر مسلم اقوام میں حجاب پایا جاتا ہے۔ اسلام سے قبل بھی عورتوں کی عفّت و عصمت محفوظ نہ تھی اور آج بھی اُن کے معاشرے میں یہ ناپید ہے۔اسلام جہاں نامحرم مردوں سے پردے (حجاب) کا حکم دیتا ہے، وہیں نابینا مردوں سے بھی یہی حکم دیتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداﷲابنِ مکتوم ؓ جو نابینا صحابی تھے، لیکن رحمتِ عالم ؐنے اُن سے بھی پردے کا حکم دیا۔‘‘( ترمذی و ابو دائود)اﷲ پاک نے ارشاد فرمایا:’’اور دوپٹے اپنے گریبانوں (سینوں) پر ڈالے رہیں۔‘‘ (سُورہ ٔ نُور)حضرت اُمّ المومنین بی بی عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضوراکرمؐ نے ہمیں یہ حکم سُنایا تو ہم نے فوراً باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے ۔‘‘(ابنِ کثیر جلد 2 ابو دائود، کتاب اللعباس)ایک خاتون صحابیہ اُمّ ِخلادؓ کا بیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا۔ وہ اُس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے بارگاہِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہوئیں مگر اس حال میں کہ اُنؓ کے چہرے پر نقاب تھی، بعض صحابہ کرامؓ نے حیرت سے کہا: ’’اس وقت بھی آپ ؓ چہرے پر نقاب ہے؟ ‘‘یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سُن کر تو ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا اور تم اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی ہو؟ صحابیہ ؓ نے جواباً فرمایا: ’’میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی۔‘‘ (سنن ابی دائود/ کتاب الجہاد)سُبحان اﷲ! اسلامی شعائر کی کیسی پاس داری ہے، حجاب پر کتنی باقاعدگی سے عمل کیا جارہا ہے ،ایسی مثالیں کم ملتی ہیں۔ آج کے معاشرے میں حجاب کو سازش کے تحت ختم کیا جارہا ہے۔ یہودی، عیسائی اور ہندوانی تہذیب و ثقافت کو مسلم معاشرے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے بغیر روک ٹوک نشر کیا جارہا ہے۔اس سازش کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بُت پرستی کا فروغ، جسے رَبّ العالمین نے ظلمِ عظیم قرار دیا۔ ہمارے گھروں میں دیکھا جارہاہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر جیسا مسلمان بننا ،کچھ اسلامی احکام پر عمل کرنا اور کچھ پر عمل نہ کرنا، اﷲ عزّوجل کی بارگاہ میں قابل ِقبول نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘یاد رکھیں! جوعورتیں مردوں کی مشابہت اختیارکریں اور وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں، اُن پر لعنت ہے اﷲ ،اُس کے رسولؐ ، تمام فرشتوں اور تمام مخلوقات کی۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)