مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی کی بنیاد سب سے پہلے بر صغیر میں رکھی گئی
اسپیشل فیچر
پاکستان میں کئی شخصیات نے مرثیہ خوانی میں نام پیدا کیا جن میں فیروز کربلائی ،بشیر علی ماہی ،کجل بیگم اور ناصر جہاں و دیگر شامل ہیں*****شہدائے کربلا کی عظیم قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے صرف کوشش کی جاسکتی ہے کیونکہ کسی بھی زبان میں اتنے بلند پایاں الفاظ موجود نہیں جو اہلِ بعیت کی مدح سرائی یا ان کے کرب کو بیان کرنے کا حق ادا کر سکیں تاہم عزادار مرثیہ خوانی کر کے ماتم کرتے ہیں ۔مرثیہ گوئی یا مرثیہ خوانی کی بنیاد سب سے پہلے برصغیر میں ہی رکھی گئی جو اب دنیا بھر میں عام ہوگئی ہے ۔برصغیر میںمیر تقی میر، میر انیس ،مرزا دبیر ، نے مرثیہ کی بنیاد رکھی ۔ میرانیس جن کا پورا نام میر ببر علی انیس ہے انہیں بر صغیرمیں واقعہ کربلاکے حوالے سے پہلا مرثیہ گو شاعر کہا جاتا ہے ۔میر انیس 1802کو فیض آباد (اودھ) کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے دادا میر حسن اور والد میر مستحسن خلیق بھی اپنے اپنے ادوار کے مشہور شاعر تھے ۔خاندانی روایت کو آگے بڑھانے کے لئے میر انیس نے بھی شاعری میں قدم رکھا ۔ مرثیہ نگاری شاعر کی اس کیفیت کی عکاسی کرتی ہے جو کسی کا درد بیان کرتے ہوئے اس پر طاری ہوجاتی ہے ۔گو کہ میر تقی میر برصغیر کی صورت حال پر اپنے اشعار کے ذریعے اظہار غم کرتے تھے تاہم میر انیس کے زمانے میں 25رجب کو لکھنوؤمیں ایک سالانہ مجلس کا وہ لمحہ تاریخی ثابت ہوا جس میں انہوں نے پہلی بار اہل بیت کے مصائب پر مبنی مر ثیہ سنا کر شاعری کو ایک نئی صنف بخشی ۔اس تاریخی مجلس نے میرانیس کو وہ مقام عطا کیا کہ آج بھی جب کہیں مرثیہ خوانی کی بات ہوتی ہے تو اس کا آغاز میر انیس کے نام سے ہی ہوتا ہے ۔میر انیس اور مرزاسلامت علی دبیر جنہیں مرزا دبیر کہا جاتا ہے ہم عصر شاعر تھے ۔جب مرثیہ نگاری کی بنیاد رکھ دی گئی تو مرزا دبیر نے بھی دل کھول کر حصہ ڈالا ۔مرزا دبیر عمر میں میر انیس سے ایک سال چھوٹے تھے تاہم دونوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ان دونوں شعراء نے 72سال کی عمر پائی ۔شاعری کی دیگر اصناف کی طرح ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شاعر نے مرثیہ نگاری میںبھی اپنا حصہ ڈالا ۔گزشتہ صدی میں ابوالاثر حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ’’شاہنامہ اسلام ‘‘مرثیہ نگاری کی ایک انتہائی خوبصورت مثال ہے ۔جدید مرثیے کے ضمن میںامید فاضلی ،نسیم امروہی ،صباء اکبر آبادی اور سید آل ِ رضا اساتذئہ فن میں شمار ہوتے ہیں ۔انہوں نے اپنی فکر کو الفاظ کے موتیوں میں پرو کر اس طرح پیش کیا کہ ایک طرف تو مرثیے میں روایت کے تما م لوازمات شامل ہیں اور ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے موضوعات کو جدید زندگی اور جدید فکر کے ساتھ مربوط کیا ہے ۔ان شعراء نے اپنے تہذیبی ماحول اور اپنے لسانی پس منظر کے حوالے سے مرثیے کو ترقی دی ہے ۔سید آل ِ رضا نے انیس اور ان کے بعد آنیوالے شعراء سے اس تسلسل کوملا کر اپنے انداز میں ایسے مرثیے تحریر کیے ہیں کہ جن میں اُس دور کی شاعری کا مخصوص انداز اور جدید شاعری کا ایک حسین امتذاج دکھائی دیتا ہے ۔فیض احمد فیض نے بھی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں مرثیہ نگاری کی ۔ فیض کے منفرد انداز اور مخصوص اسلوب مرثیہ نگاری کی ایک نئی شکل ثابت ہوئے۔فیض کے علاوہ جدید شعرا ء میں اثر جلیلی ،ڈاکٹر یاور عباس ، رئیس امروہی ،کوکب شادانی اور ڈاکٹر ہلال نقوی مرثیہ نگاری کے حوالے سے بیحد مقبول ہوئے ۔ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شاعر مصطفی زیدی کی عمومی شاعری میں بھی واقعہ کربلا کے سائے نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے ایسی مرثیہ نگاری کی ہے جسے سن کر یہ گماں ہوتا ہے کہ گویا واقعہ کربلا ابھی کل کی بات ہے ۔ہر خاص وعام میں مقبول شاعر محسن نقوی مرثیہ نگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔محسن نقوی ایک پختہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ذاکر بھی تھے ۔ان کی دونوں خصوصیات جب مرثیہ کی شکل میں ملتیں تو سننے والوں پر کرب وبلا کا عالم طاری کر دیتیں ۔شعراء کے ساتھ ساتھ گلوکاروں نے بھی مرثیہ خوانی میں اپنا حصہ ڈالا ۔مرثیہ نگاری کے وجود میں آنے کے بعد ہی مرثیہ خوانی کا آغاز ہوگیا تھا۔درد اور کرب سے معمور الفاظ کو جب پر سوز آواز ملی تو گویا اہلِ بعیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے کا ایک بہترین طریقہ سامنے آیا ۔ موسیقی کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بڑی بڑی شخصیات آج بھی اپنے اپنے انداز میں آلِ محمد ﷺ کو سلام پیش کرتی ہیں ۔پاکستان میں کئی شخصیات نے مرثیہ خوانی میں نام پیدا کیا جن میں فیروز کربلائی ،بشیر علی ماہی ،کجل بیگم اور ناصر جہاں و دیگر شامل ہیں جنہوں نے کچھ ایسی پرسوز آواز میں مرثیہ خوانی کی کہ آج بھی سننے والوں کو اشکبار کردیتے ہیں ۔شام چوراسی اور پٹیالہ جیسے موسیقی کے معروف گھرانوں کے گلوکار دیگر اصناف کی طرح مرثیہ خوانی میں بھی پیچھے نہ رہے ۔ان کے علاوہ مہناز بیگم ،ترنم ناز ،شمسہ کنول ، شاہدہ منی ،حمیرا چنا ،افشاںسے لے کر سائرہ نسیم ،صائمہ جہاںاور حمیرا ارشد تک تمام گلوکاراؤں نے بھی مرثیہ خوانی میں نام پیدا کیا ۔مرثیہ خوانی کا آغاز چونکہ برصغیر سے ہی ہوا تھا لہٰذا تقسیم کے بعد بھی دونوں اطراف میں یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ بھارت میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو گلوکاربھی مرثیہ خوانی کرتے ہیں ۔کٹّر ہندو عقائد رکھنے والی برصغیر کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر اس میدان میں بھی پیچھے نہیں رہیں ۔انہوں نے میر انیس سمیت دیگر شعراء کے تحریر کردہ مرثیے ریکارڈ کروائے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غمِ حسین ؓکی تاثیر ہی ایسی ہے جو انسان کو مذاہب سے بالا کر دیتی ہے ۔یہ غم حق پر کھڑے ہر انسان کا غم ہے ۔٭…٭…٭