محتاج پولٹری ہاؤس
اسپیشل فیچر
ملک جی ہمارے علاقے کے سب سے بڑے زمیندار اور کام چور انسان ہیں۔ منہ تک خود نہیں دھوتے الٹا شیروں کو بھی اس کاہلی اور سستی میں اپنا شریک بنا لیتے ہیں۔ شیر سن لیں تو ملک جی کو گیدڑ بنا دیں۔ زندہ اس لیے ہیں کہ سانس خود سے لیتے ہیں بقیہ ان کی زندگی ان کا ملازم شریف المعروف شریفا بسر کرتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ یہ شریفے کی زندگی جیتے ہیں۔ ان کا منہ دھونا، کپڑے دھونا علاوہ ازیں دھونے کے دیگر مقامات شریفے کے دائرہ کار منصبی میں آتے ہیں۔ ملک جی صرف اور صرف کھاتے ہیں یا سوتے ہیں۔ انہی کاہلانہ بلکہ ’’برائلانہ‘‘ عادات کے طفیل بالکل انگریزی مرغی بنتے جا رہے ہیں۔ تن و توش اتنا بڑھ گیا ہے یا پھیل چکا ہے کہ بعد از طعام کبیر پیٹ میں اتنی گیس بھر جاتی ہے کہ پیٹ سلنڈر بن جاتا ہے۔ ملک جی خود فرماتے ہیں کہ پیٹ ابھی پھٹا اور ابھی پھٹا۔ کھانا کھانے کے بعد جی چاہتا ہے کہ ان کے پیٹ میں سوئی چبھو دی جائے اور یہ سلنڈر سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ مگرانھیںکئی مرتبہ سمجھایا کہ ملک جی کسی دن سوئی سے کام لے نہ لیجئے گا ہوسکتا ہے کہ گیس کے پٹاخے کے ساتھ ساتھ روح بھی سوئی کے بنائے ہوئے راستے سے نکل جائے۔ ملک جی خود فرماتے ہیں کہ کمبخت گیس کو چاہیے کہ باہر نکلنے کے لیے اپنا راستہ خود بنائے۔ گیس کو راستہ نظر آئے گا تو وہ خود سے راستہ بنائے گی۔ راستوں میں ملک جی نے گوشت اور چربی کی بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ سوتے ہیں تو اتنی دیر تک سوئے رہتے ہیں کہ جگانے والے بھی تھک ہار کر آخر ان کے پیٹ کے ساتھ لگ کر سو جاتے ہین۔ ایک علی الصباح اتفاقاً سر راہ ملے تو ہم سے رہا نہ گیا پوچھا کہ ملک جی خیر ہے ابھی دوپہر کو پورے چھ گھنٹے رہتے ہیں اور آپ جاگ چکے ہیں۔ جھٹ سے بولے گذشتہ ساری رات جاگ کر گزاری ہے۔۔۔ ہمیں پریشانی لاحق ہوئی۔ ملک جی بھانپ گئے۔ فرمانے لگے بس سوچا کہ نیند کم کی جائے۔ یوں ساری رات جاگ کر گزاری۔ ہاں۔۔۔ شریفا بھی میرے ساتھ جاگتا رہا اور مجھے جگاتا رہا۔۔۔ ہم شریفے کی مظلومیتِ منصبی پر تہہ دل سے ترساں ہیں۔ مگر پھر یہ سوچ کر کہ شریفے کا روز گار لگا ہوا ہے راہ فرار اختیار کرنے کا مشورہ مناسب نہیں جانتے۔ملک جی دن بھر ائیر کنڈیشنڈ میں محو خواب رہتے ہیں اٹھتے کھانا کھاتے اور پھر دراز ہو جاتے ہیں سنا ہے پیٹ جو کہ اب چار صوبوں میں تقسیم ہو چکا تھا چنانچہ ان صوبوں سے نکاسی گیس کے لیے چہرے کا ایک خاص ’’ٹریڈ مارک‘‘ بناتے ہیں۔ شریفا وہ ’’ٹریڈ مارک‘‘ دیکھتے ہی ملک جی کی طرف لپکتا ہے۔ ملک جی کی ٹانگ جھٹ سے بہ شکل زوایۂ قائمہ اٹھاتا ہے اور یوں ملک جی سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ صدائے دل دوز سے محلہ تو گونجتا ہے ہی ساتھ کے ساتھ شریفے پر بھی کپکپی طاری ہوتی ہے۔ بسیار خوری، سہل انگاری اور آسائشوں کے سبب ملک جی کا جغرافیائی حلقۂ گنبدِ شکم اتنا پھیل چکا ہے کہ خود ملک جی اپنے جسمانی حدود سے بے خبر رہتے ہیں۔ بعض جسمانی علاقوں میں تو کئی کئی دن نظر ہی نہیں پہنچتی۔ بہت کوشش کرتے ہیں مگر نظر کی کیا مجال کہ وہاں تک پہنچے۔ شریفا اچھا خاصا شریف آدمی ہے۔ دوردرازعلاقوں کے قصہ کہانیاں گاہے بگاہے ملک جی کو سنائے رکھتا ہے۔ ملک جی کا دل بہلائے رکھتا ہے۔ شریفا نرا شریف ہی نہیں ستم ظریف بھی ہے۔ اکثر چھٹی کر لیتا ہے۔ علالت کے باعث غیر حاضر ہو جاتا ہے۔ زہریلی گیسوں کے ساتھ کھیلنا کون سا مذاق ہے۔ علیل تو ہونا ہی ہے۔ یوں اسے گھر پر پیغام موصول ہوتا ہے کہ آؤ اور ٹانگ والا کام کرکے چلے جاؤ۔ ملک جی سخت تکلیف میں ہیں گیس سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ملک جی احسان فراموش ہرگز نہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر شریفاپیدا نہ ہوتا تو انہیں مارنے کے لیے پیٹ میں اٹھنے والے بگولے ہی کافی تھے۔ کبھی کبھار گھر والے جب شریفے کی شادی کا سوچتے ہیں تو فکر مند ہو جاتے ہیں کہ گیس کا کیا ہوگا؟ملک جی کے گھر پر گوشت اور چربی کے پہاڑ کے زنانہ نمونے بھی دستیاب ہیں۔ یہ ان کی دونوں بیٹیاں ہیں جو کہ گوشت پوست کا K-2 بنتی جا رہی ہیں۔قسم لے لیں کہ دونوں بیٹیاں کبھی اپنا بستر، کپڑے یا منہ سیدھا کر جائیں۔ سستی اور کاہلی کی زندگی گزارنے کا عزم مصمم کیا ہوا ہے۔ بیٹیوں کی حالت ملک جی کی حد تک تو نہیں بگڑی خدشہ ہے کہ ملک جی جیسے تن و توش جلد از جلد منصہ شہود پر آجائیں گے۔ دختران نیک اختر ایکسر سائز کے لیے جم جانے لگی ہیں مگر گھر کا کام نہ کرنے کی قسم کھا چکی ہیں۔ بھلا ہو اس بھلے مانس کا کہ جس نے دونوں بہنوں کو جم کی راہ دکھلائی ورنہ: طعن اغیار تھے، رسوائی تھی، ناداری تھیزنانہ جم، جم سے زیادہ ’’غیبت کدہ‘‘ ہوتا ہے۔ جدت پسند خواتین غیر خانہ، شریفا، ٹومی کتا اور درجن بھر سگریٹ سر شام بڑی پابندی سے جم یعنی سلمنگ کلینک پہنچ جاتے تھے۔ جسمانی ورزش مشینوں پر کی جاتی تھی جبکہ زبانی کلامی ورزش نوکروں اور شوہروں پر کی جاتی تھی۔ لیڈیز جم جو ہوا:وہ جم کے خرابات میں کھو گئیں وہ ظالم خرافات میں کھو گئیںجم میں دونوں دختران ملت ہمپٹی (Humpty) اور ڈمپٹی (Dumpty) ’’غیبت ٹاک ‘‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ تھک ہار جاتیں بول بول کر نڈھال ہو جاتیں۔ خوش ہوتیں کہ ورزش کرنے آئے ہیں کیا ہوا مشینی ورزش نہ سہی زبانی ورزش ہی سہی۔ہمپٹی ڈمپٹی کے ساتھ جن خواتین نے ’’سرونٹ ٹاک‘‘ میں شامل نہیں ہونا ہوتا وہ دور بیٹھے اس گروپ کی مخالفت کرتی ہیں۔ یہ نوکر کی برائی کرتیں ہیں۔ مخالف گروپ کہتا ہے کہ نوکر نکال دو۔۔۔ پھر مخالف گروپ سے آواز آتی ہے۔ تمہاری روح نہ نکل جائے۔ ہمپٹی ڈمپٹی کا مخالف گروپ بادل نخواستہ اپنے اپنے شوہروں کی تعریفیں شروع کر دیتا ہے۔ بھلا ہو۔۔۔ ’’پیٹر کے فاد ر کا۔‘‘ علی الصباح گھر کا سارا کام کرکے ہی دفتر دفع ہو تے ہیں۔ نوکر کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونے دیتے: کہا یہ ہنس کر بیگم نے بڑی نادان ہو بنوذرا سوچو تو ٹھنڈے دل سے کیا شوہر نہیں رکھتیامرأ کے ہاں اگر کوئی شریفا بھرتی ہونا چاہے تو ضروری ہے کہ اسے ایک مستعد سیکٹری کی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ اسے بلڈ پریشر کے آلے کا استعمال آتا ہو۔ شہر بھر کے تمام سنیما اور کلبوں کے فون نمبر از بر ہونے چاہیں۔ جوتے پالش، کپڑے استری، کتا نہلانے اور صاحب جی کا منہ دھلوانے کے سبھی اسرار و رموز سے آگہی شرط اول تصور کی جاتی ہے۔بیگمات کے لیے لیڈی نوکر یا نوکرانی جیسی کوئی قید نہیں مگر شرف باریابی کے لیے نوکر میاں کے دائرہ علم میں۔۔۔ ٹی وی چینلز کی مکمل پہچان، سہیلیوں اور دوستوں کے بتائے گئے فون نمبرز کی یاد دہانی، ہر طرح کے گارمنٹس کو ہنیگر کرنے کے طریقے، اچھے بیوٹی پارلر کا ایڈریس اور شہر بھر کے کلبوں کے فون نمبرز۔۔۔ شامل ہیں۔ بصورت دیگر ’’پروبیشن پیریڈ‘‘ ختم ہونے سے پہلے ہی مالکان کی دشمنی شروع ہو جائے گی۔(شعیب ودود کی کتاب ’’حکایاتِ چوں چناں:طنزومزاح اور خاکے‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭