بابونگر کا حسین احمد شیرازی
اسپیشل فیچر
حسین احمد شیرازی اُردو طنزومزاح کا ایک بھاری بھرکم نام ہے۔ اُن کی کتاب ’’بابونگر‘‘ جب مجھے ملی، تو میں اس کی ضخامت کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا۔ آج کل طویل مضامین اور ضخیم کتابیں پڑھنے کی ہمت نہیں رہی، لیکن اس کتاب کی چھپائی، لکھائی اتنی جلی اور واضح تھی کہ میَں نے سوچا چلو اس کے پڑھنے میں کوئی دشواری تو نہیں ہوگی۔ جب اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا، تو اس کے مشمولات اتنے شگفتہ اور دلچسپ تھے کہ پڑھتے ہوئے ایک دھڑکا سا لگا رہا کہ کہیں یہ کتاب جلد ختم نہ ہوجائے۔۔۔!میَں سمجھتا ہوں کہ طنز و مزاح لکھنے کے کوئی بنیادی اصول نہیں ہوتے۔ شاعری کے لیے اوزان، ردیف، قافیہ اور اصناف شعر سے واقفیت ضروری ہے۔ اسی طرح افسانہ نگاری یا ناول کے مبادیات ہوتے ہیں، لیکن جو چیز طنزومزاح کو بیک وقت بے حد آسان اور بے حد مشکل بناتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اس کے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہوتے۔ شاعری اور نثر کی دیگر اصناف کے لیے ادیب کو مطالعہ اور اکتساب کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن مزاح نگاری ایک فطری فن ہے۔ آدمی شگفتہ مزاج ہو، تو موضوعات اور ان کے اظہار کے پیرائے ازخود اس کے ذہن میں آتے ہیں۔ اکثر مزاح نگاروں کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ وہ کم عمری سے چُلبلے، عملی مذاق کرنے والے، دوستوں کے حلقے میں مقبول اور جملہ باز ہوتے ہیں یا پھر کچھ لوگ اُن کی فقرہ بازی کے ڈر سے ان سے دوری ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ایسے ذہین لوگ اگر زبان و بیان پر عبور رکھتے ہوں اور اُن کا مطالعہ وسیع ہو تو ازخود اُن کے قلم سے ایسے مضامین نکلتے ہیں ، جن سے ذوق ِصحیح رکھنے والوں کی ضیافتِ طبع کا سامان ہوجاتا ہے۔حسین احمد شیرازی مجھے پیدائشی مزاح نگار لگتے ہیں۔ ویسے تو اُنھوں نے ابتدا شاعری سے کی تھی، لیکن اُن کے ایک مردم شناس اُستاد نے اُن کی افتادِ طبع کو دیکھتے ہوئے، اُنھیں طنزومزاح لکھنے کا مشورہ دیا۔ شاعری سے شیرازی کی دلچسپی اُن کے مضامین میں جابجا دکھائی دیتی ہے۔ میرؔ و غالبؔ، داغؔ، فیضؔ اور نہ جانے کتنے ہی بڑے شاعروں کے برمحل اشعار سے اُن کی تحریریں کچھ اور بھی رنگین اور شگفتہ ہوجاتی ہیں۔حسین احمد شیرازی ڈائریکٹر جنرل لارج ٹیکس پے یریس یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ جب عہدے سے ہٹے ،تو وکیل بنے اور میَں سمجھتا ہوں وکیل بھی بہت کامیاب ہیں۔ بہرحال اُنھوں نے اتنی کامیاب زندگی گزاری ہے کہ وہ جب چاہتے اپنے لیے ہنسی کا انتظام خود کرسکتے تھے، لیکن اُنھوں نے نئے نئے موضوعات کو تلاش کرکے ہنسنے کے علاوہ ہنسانے کا اہتمام کیا ہے۔حسین احمد شیرازی کے ہنر کے شفیق الرحمن، ضمیر ؔجعفری اور عطاء الحق قاسمی بھی معترف ہیں۔ ضمیرؔ جعفری کالم نگاری میں اُن کے حق میں دستبردار ہوئے اور میجر شفیق الرحمن نے رسالوں کے ایڈیٹروں سے کہہ دیا کہ مضامین کے لیے شفیق الرحمن کی بجائے شیرازی کو یاددہانی کرائیں۔ کتاب کی ابتدا میں بعض فکاہیہ ڈرامے شامل ہیں: ’’چپل کی کہانی‘‘ میں نعمت زماں کے تعلق سے رضوان حشمت کی بدسلوکی کا حسن ِ سلوک میں بدل جانا ایک بہترین مزاحیہ ڈراما ہے۔’’کھیر، چرخہ، کتا اور ڈھول‘‘ کا ایک چھوٹا سا جملہ دیکھیے: ’’صولت صاحب کے والد سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا بیٹا کالج چھوڑنے کے بعد کیا کرے گا، تو اُنھوں نے جواب دیا کہ اگر اسی طرح ہر جماعت میں پانچ سات سال لگاتا رہا، تو کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حکومت سے خصوصی پنشن کی درخواست دے گا‘‘۔ ’’بابونگر‘‘ کے تحت 44 نہایت دلچسپ واقعات لکھے گئے ہیں، جن میں دفتر کے کلرکوں (مرد و خواتین) کے حالات کا نہایت حقیقت پسندانہ جائزہ لیا گیا۔حسین احمد شیرازی کے طنز و مزاح میں ایک نیاپن ہے۔ اُن کی زبان سلیس اور معیاری ہے۔ اُن کی زبان معیاری ہونے کے ساتھ طنز و مزاح کے مزاج کے لیے نہایت سازگار ہے۔آخر میںمجھے پوری اُمید ہے کہ حسین احمد شیرازی اپنی شگفتہ مزاجی اور برجستہ گوئی سے طنز و مزاح میں خوشگوار اضافہ کرتے رہیں گے۔ میَں نے اُن کی یہ ضخیم کتاب ختم کرلی ہے اور اب اُن کی دوسری ضخیم کتاب کے انتظار میں ہوں۔۔۔!٭…٭…٭