کبوتروں کے ساتھ چند لمحے
اسپیشل فیچر
یہ امن پسند خوبصورت پرندہ دو ہزار برس سے انسان کا دل بہلا رہا ہے*****جن پاکستانی شہروں و قصبات میں مساجد،مزار اور مقابر بہ کثرت ہیں،وہاں ہمیں چڑیوں کی چوں چوں کے بعد کبوتروں کی غٹرغوں ہی سنائی دیتی ہے۔یہ امن پسند پرندہ بڑوں چھوٹوں سبھی کو پسند ہے۔ہمارے قومی شاعر،علامہ اقبالؒ نے بھی نوجوانی میں کبوتر پال رکھے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس پرندے کی معیت انھیں خوشی و مسّرت عطا کرتی ہے۔آج ماہرین نفسیات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ چرند پرند پالنے سے انسان کو روحانی سکون ملتا ہے۔دور جدید میں مشہور امریکی باکسر،مائیک ٹائیسن کبوتر پالنے کا شوقین ہے۔کبوتر کی بے شمار اقسام ہیں۔بعض خوبصورتی کے باعث پالی جاتی ہیں جیسے شیرازی اور لق لقا کبوتر۔دیگر اقسام کے کبوتر زبردست قوت برداشت رکھتے اور انتہائی بلندی پہ گھنٹوں پرواز کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔تیسری قسم کے کبوتر اپنی تیزرفتاری سے سبھی کو چونکاتے ہیں۔انہی کبوتروں کو ماضی میں پیغام رسانی کی خاطر بھی استعمال کیا گیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ دو ہزار سال قبل مشرق وسطی کے علاقوں(وادی دجلہ و فرات)میں کبوتر پالنے کا رجحان شروع ہوا۔1850ء کے بعد بیلجیم میں کبوتروں کی دوڑ(Racing)کرائی جانے لگی۔ اب کئی ممالک میں کبوتر دوڑ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ایک دوڑ 100تا 10,000کلومیٹر طویل ہوتی ہے۔اڑتے اڑتے جو کبوتر پہلے منزل تک پہنچے،فاتح بن جاتا ہے۔مقابلے کی دوسری قسم میں کبوتر اپنی مثالی قوت برداشت اور بہترین حافظے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ایسے مقابلے میں جو کبوتر سب سے زیادہ عرصہ فضا میں بلند رہے،فاتح قرار پاتا ہے۔دونوں اقسام کے مقابلے مخصوص قوانین اور بھاری بھرکم انعامات رکھتے ہیں۔کبوتر دوڑ بیلجیم،امریکہ، برطانیہ،کینیڈا،برازیل ،آسٹریلیا اور ترکی میں مقبول ہے۔دوسری قسم کے مقابلے پاکستان، بھارت اور چین میں زیادہ ہوتے ہیں۔قوت برداشت و حافظہ جانچنے کے مقابلے میں کبوتر پرور اپنے اپنے پرندے صبح سویرے فضا میں چھوڑتے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے کبوتر آسمان پہ تارا بن جاتے ہیں۔تاہم یہ ضروری ہے کہ مقابلے میں شریک ہر کبوتر برہنہ آنکھ یا دوربین سے نظر آتا رہے۔عموماً کبوتر فضا میں 18گھنٹے تک محو ِپرواز رہتے ہیں۔گو کوئی مست خرام پرندہ چند منٹ میں واپس آ کر مالک کو خجل کر سکتا ہے۔ایک شرط یہ ہے کہ ہرکبوتر مقررہ مقام پہ ہی اترے۔وہ تھوڑا سا بھی چوک جائے ،تو مقابلے سے باہر ہو جاتا ہے۔ایک مقابلہ 14 دن جاری رہتا ہے۔اس دوران ہر دوسرے دن کبوتر اڑائے جاتے ہیں۔آخری دن یہ ریکارڈ مرتب ہوتا ہے کہ سات دن تک کون سا کبوتر طویل ترین عرصہ ہوا میں بلند رہا۔وہی مقابلہ جیت جاتا ہے۔ایک کبوتر کی کی قیمت کا تعین آنکھوں کے رنگ اور نسل(یاقسم)سے ہوتا ہے۔کبوتروں کی قیمت چند سو سے لے کر لاکھوں روپے تک جاتی ہے۔عموماً مقابلوں میں حصہ لینے والے اور خوبصورت کبوتر مہنگے ہوتے ہیں۔مئی2013ء میں بیلجیم کے ایک مشہورکبوتر پرور، لیو ہئیرمانس(Leo Heremans)نے گائو فوکسن نام کے چینی کاروباری کو اپنا ’’اوسین بولٹ‘‘نامی کبوتر ’’چار لاکھ ڈالر‘‘(چار کروڑ بیس لاکھ روپے)میں فروخت کیا۔یہ کبوتر دوڑ کا پرندہ ہے جو یورپ و امریکہ میں مشہور دوڑیں جیت چکا۔اوسین بولٹ ہی کو سب سے مہنگا کبوتر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔لیو ہئیرمانس نے اپنے530کبوتر نیلامی میں برائے فروخت رکھے تھے۔اور وہ ’’ساٹھ لاکھ ڈالر(تریسٹھ کروڑ روپے )میں فروخت ہوئے۔قوت برداشت کے مقابلوں میں پاکستانی کبوتروں کی ایک نسل’’ٹیڈی‘‘دنیا بھر میں مقبول ہے۔یہ کبوتر بہت بلندی پہ پرواز کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا نیز کئی گھنٹے اڑتا رہتا ہے۔اس کے بیش قیمت ہونے کا اندازہ یوں لگائیے کہ اصلی ٹیڈی نسل کا ایک جوڑا دو ڈھائی لاکھ روپے میں ملتا ہے۔تاہم اس کی دوغلی نسل کے کبوتر کم قیمت میں دستیاب ہیں۔پاکستان میں میاں نذیر احمد کا خاندان پچھلے ایک سو برس سے ٹیڈی اور اعلی نسلوں کے دیگر کبوتروں کی پرورش و خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ ہے۔میاں صاحب لاہور کے نزدیک واقع قصبے،للیانی کے باسی ہیں۔ان کے پالے ٹیڈی کبوتروں کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔لوگ دبئی،کویت اور بحرین سے ٹیڈی خریدنے ان کی پاس آتے ہیں۔میاں صاحب نے 500 سے زائد مختلف النسل کبوتر پال رکھے ہیں۔ان کی دیکھ بھال پہ روزانہ ’’پندرہ ہزار سے بیس ہزار روپے‘‘ خرچ ہوتے ہیں۔ان کے کبوتر پچھلے دس برسوں میں قوت برداشت جانچنے والا ہر بڑا مقابلہ جیت چکے۔ مقابلوں میں پہلا انعام عموماً بیس لاکھ روپے یا کار ہوتی ہے۔میاں صاحب بتاتے ہیں کہ مقابلے سے قبل وہ اپنے کبوتر کو سچے موتیوں،بادام،پستے اور عنبر سے بنی خصوصی خوراک کھلاتے ہیں تاکہ پرندے میں طاقت آ جائے۔کبوتروں کی پرداخت بھی ایک فن ہے۔جب بچے کے پر نمودار ہوں ،تو وہ باندھ دئیے جاتے ہیں۔مدعا یہ ہوتا ہے کہ بچہ اڑ نہ سکے۔یوں اس کو مالک سے مانوس کیا جاتا ہے۔جب بچہ اپنے ماحول میں رچ بس جائے تو اس کی دم کے نیچے مالک کی مہر لگا کر اسے اڑانا شروع کیا جاتا ہے۔بعض لوگ کبوتر پالنے کو قبیح حرکت سمجھتے ہیں۔حالانکہ بہت سے مشاغل کی نسبت یہ ایک مفید مشغلہ ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ صرف فارغ وقت میں ہی کبوتروں سے دل بہلایا جائے۔اگر کئی گھنٹے ان کی نذر ہونے لگیں اور کبوترپروری، کبوتر بازیبن جائے تو یقیناً پھر یہ نقصان دہ مشغلہ بن جاتا ہے۔ ٭…٭…٭