پہیہ : وقت کے بہتے دھاروں کے ساتھ’’ وہیل‘‘ بن گیا
اسپیشل فیچر
انسان نے زمین پر قدم جماتے ہی قدرت کی طرف سے دی ہوئی ذہنی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اولین ترجیحات کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے اُن چیزوں کی تلاش شروع کر دی جو اولین ضروریات میں شامل تھیں۔ لہذا اس سلسلے میں سرد گرم موسم کے بچائو ، کھیتی باڑی و شکار وغیرہ کیلئے لباس وآلات مختلف اشکال میں متعارف ہونا شروع ہو گئے۔ آج 21ویںصدی جدید دُنیا کا وہ دور ہے جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوچکا ہے کہ دُنیا کی سب سے اہم ایجاد و دریافت کیا ہے۔ کیونکہ سائنسی ترقی میں میکانی ،الیکٹریکل والیکٹرونکس کا ایسا امتزاج نظرآرہا ہے جس نے طب کی دُنیا میں بھی انقلاب برپا کر دیاہے ۔گو اس ترقی کے بہت سے منفی پہلو بھی ہیں جن میں سب سے اہم مہلک ہتھیار ہیں۔بہرحال زمین سے آسمان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ، سر کے بالوں سے پائوں کے انگوٹھے تک کی تکلیف دور کرنے کیلئے ،ایک کا دوسرے سے رابطہ قائم رکھنے کیلئے اور سرکاری و نجی سطح پر بہترین سے بہترین تعمیرات کیلئے وہ اشیاء استعمال ہو رہی ہیں جن کی تعریف ہر زبان پر ہے۔لیکن ان سب کی ابتدائی کامیابی کا سہراآج بھی ایک بڑے طبقے کی رائے کے مطابق اُس ایجاد سے منسلک سمجھا جاتا ہے جس کو’’پہیہ یا وہیل‘‘کہا جاتاہے۔ ابتدائی کہانی : پہیہ اُس ہی دور کی ایک ایسی میکانی ایجاد کے طور پر واضح طور پر نظر آتا ہے جس کے متعلق قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پہلی دفعہ کب استعمال ہوا۔لہذا پہلے تو اسکی اس حقیقت کو پرکھنے کیلئے کہ اسکی ایجاد کیسے ہوئی ہو گی کیلئے دو مختصر کہانیاں بیان کی جاسکتی ہیں۔مثلاًانسان درختوں کے تنے کاٹ کر جب اپنے کام میں لاتا تھا اُس ہی دوران کسی حصے کو گول دیکھ کر ایک کمہار نے اُسکی طرز کی ایک ایسی گول چکی سی بنائی یا ایجاد کی جس پر مٹی کے برتنوں کی بنوائی و بناوٹ کو نئی نئی شکل دے کر اُس نے برتنوں کی دُنیا میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔دوسری کہانی بیان کی جاسکتی ہے کہ ایک لکڑ ہارا کسی پہاڑی پر درخت کاٹ کر اُس کے حصے کر رہا تھا کہ درخت کے تنے کا ایک گول حصہ پہاڑی پر سے گول گھومتا ہوا نیچے کی طرف کچھ اسطرح آیا کہ وہاں قریب ہی کھڑے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لکڑی کے پھٹے سے ٹکرا کر اُسکے نیچے سے گزر گیا اور پھٹا اُس تنے کے اوپر ہونے کی وجہ سے کچھ آگے جا کر گرا۔جسکی وجہ سے اُس لکڑی کے پھٹے والے شخص کو خیال آیا کہ اگر کسی طرح لکڑی کو گول کاٹ کر کچھ ایسے طریقے سے کسی بھی چیز کے نیچے سے اُسکو منسلک کر دیا جائے تو وہ چیز ضرور آگے کی طرف آسانی سے بڑھے گی۔بس یہی فکر اُس وقت سہولت کا باعث بن گئی جب پہیہ ایک کارآمد ایجاد بن کر انسان کی ضروریات ِ زندگی کا اہم حصہ بن گیا۔پہیہ تاریخ کے دائرے میں: بعض اشیاء کی ایجاد و دریافت کی کوئی باقاعدہ تاریخ نہیں ملتی۔لیکن وہ انسان کے استعمال میں صدیوں سے ہیں۔پہیہ بھی اُن ہی میں سے ایک ہے۔لیکن پھر بھی دُنیا کے ارتقائی دور کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اسکے بارے میں بھی کچھ اندازے لگائے گئے ہیں ۔اب اُن میں حقیقت کتنی ہے وہ ایک الگ بحث ہے ،لیکن پھر بھی ذیل کی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے دائرے میں پہیہ قابل ِذکر و سب سے اہم ایجاد ہے۔میسوپوٹیمیا:3500قبل مسیح میں کمہار کے برتن بنانے والے باٹ (چکی) میسوپوٹیمیا (آجکل کے عراق)کے تمدن کی ایک کڑی کے طور پر اہم ایجاد سمجھا جا سکتا ہے جسکے ذریعے کمہار اپنی اُنگلیوں سے برتنوں کو آسانی سے مختلف اشکال دے کر آگ کی بھٹی میں پکاکر اُنھیں تیار کرتا تھا۔یہ فن آج بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔3200قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا میں ہی لکڑی کا پہیہ واضح طور پر آمد ورفت میں استعمال ہوتا ہو انظر آتا ہے۔ بلکہ اُسکے درمیان میں سوراخ کر کے ایکسل نامی ڈانڈا دونوں پہیوں میں اسطرح لگا دیا گیا کہ پہیہ آسانی سے تیز گھومنا شروع ہو گیا اور اس کامیابی کی شکل اُس دور کے وہاں کے وہ گھوڑوں والے رتھ (ٹانگیں) تھے جن میں ان کو لگا کر سفر بھی کیا جاتا تھا اور مقابلے کی دوڑیں بھی لگائی جاتی تھیں۔ لہذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پہیہ اپنی ابتدائی شکل و استعمال کے ساتھ مینو فیکچرنگ و اُس دور کی صنعتی ترقی کی وہ کڑی ہو سکتا ہے جو مستقبل میں بہتر سے بہتر ہوتا ہو ا نظر آتا ہے۔ مصر و یورپ میں پہیہ: 2000قبل مسیح میں مصر میںباقاعدہ طورپر پہیہ استعمال ہو تا ہو انظر آتا ہے، اور 1400قبل مسیح میں یورپ میں۔کہا جاتا ہے کہ یورپ میں اس قسم کی ایجاد کا تعلق کسی بھی طرح مشرق ِوسطیٰ سے نہیں تھا۔حالانکہ تحقیق کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ اُس دور میں چاہے کیسی بھی حالت میں تھالیکن وہاں کے لوگ مصر کی تہذیب و تمدن کے بارے شاید کچھ نہ کچھ ایسی معلومات رکھتے تھے کہ وہاں کے لوگ مصر کا سفر کرتے تھے اور جو بھی بات یا شے ہٹ کر نظر آتی تھی اُسکے اثرات یقینی طور پر یورپ میں بھی نظر آتے ہونگے۔اسکی ہی ایک مثال یونانی فلسفی تھیلز کی ہے جو 600قبل مسیح کے قریب علمی معلومات کیلئے سفر کرتا ہوا مصر گیا تھا اور وہاں سے واپس آنے کے بعد ہی دُنیا کے سامنے اُس نے پہلا سوال رکھ دیا تھا کہ انسان کیا ہے؟جہاں سے دُنیاوی علم پر سائنسی بنیادوں پر بحث کا آغاز ہو گیا تھا۔ پہیہ:وقت کے بہتے دھاروں کے ساتھ’’ وہیل‘‘ بن گیا : قبل مسیح سے عیسوی دور میں داخل ہونے تک انسان اپنی ضرورت کے مطابق اشیاء کوترتیب دیتا رہا اور اگر کسی شے کے حاصل کرنے کے نتیجے پر نہ پہنچا تو اُسکی دیوار یا پتھروں پر تصویر بنا ڈالی جو آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک مثال ثابت ہوتی رہی۔پھر جب میکانی(مشینی) دور کا آغاز ہوا تو تقریباًہر شے یا مشینی حکمت ِعملی کو آگے بڑھانے کیلئے پہیہ لازمی قرار پا یا۔بلکہ صدیوں سے مختلف زبانوں میں اُسکو جس نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہوگا اس نئے دور کی ایجادات میں انگریزی زبان میں ’’وہیل‘‘کے نام سے دُنیا بھر کی ضرورت بن گیا۔جدید دور کی مختلف ایجادات کی اہم ضرورت: یورپ میں ترقی کی نئی راہیں کُھلیں تو پہیہ مزید بہتر استعمال کرنے کیلئے اسکے ارد گرد’ ربڑ ‘ کا استعمال کر کے اسکی گولائی کو مزید بہتر کیا گیا اور ساتھ کچھ رفتار میں بھی اضافہ ہوگیا۔ پھر چاہے سائیکل کی ایجاد ہو یا خوبصورت بگھی بنائی گئی ہو یا چار پہیوں کی کار وغیرہ، انکی بنیاد پہیہ ہی بنی۔اسٹیم انجن کی ایجاد اور اُسکے ساتھ ٹرین کے ڈبوں کا ترتیب وار جوڑ لوہے کے انتہائی پائیدار ’’وہیل‘‘ ہی کے مرہون ِمنت شہرت کا باعث بنا۔ہوائی جہاز کی بیسویں صدی کے آغاز میں ایجاد اور پھر وقت کے ساتھ استعمال کے مطابق روز بروز جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوتے چلے جانے میں بھی اُسکے سب سے اہم حصے ’’وہیل‘‘ کا ہی کمال ہے۔انجن اپنی باکمال صفت میں اگر آسمان اور زمین کا ملاپ کروا رہا ہے تو اُسکے پہیوں کے نظام نے ہی آج انسان کے سفر کے وقت کو صرف چند گھنٹوں پر محیط کر دیا ہے۔ آج پہیہ جہاں تک عوام کو نظر آتا ہے وہ ایک مضبوط ربڑ کی ایسی گول شکل میں ہوتا ہے جس کے اندر ایک نرم ربڑ کی گول ٹیوب ہوتی ہے جس میں پریشر کے ذریعے ہوا بھری جاتی ہے۔جیسے ہی مطلوبہ مقدار کے مطابق اُس ٹیوب میں ہوا بھر جاتی ہے اُوپر کا مضبوط حصہ سفر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اُس حصے کو ہم’’ٹائر‘‘ کہتے ہیں۔ کچھ میں ٹیوب نہیں ہوتی ہے لیکن ہوا بھرنے کا طریقہ وہی ہوتاہے اور اُسکو’’ٹیوب لیس ٹائر‘‘کہتے ہیں۔ ٹیوب والا یا ٹیوب لیس ٹائر دونوں صورتوں میں وہ ایک لوہے کے رم پر چڑھا ہوتا ہے اور اُسکو چلتے ہوئے نرم رکھنے کیلئے چھوٹا سا بیئرنگ استعمال کیا جاتا ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس نظام میں ایکسل کی اہمیت ماضی کی طرح ہی ہے لیکن نئی جدت کے مطابق اُسکو ڈھال لیا گیا ہے۔ پانی میں بحری جہاز چلانے کیلئے جو ہینڈل استعمال کیا جاتا ہے اُسکو شپ وہیل کہتے ہیں ۔اسطرح توانائی کیلئے فلائی وہیل استعمال ہوتا ہے۔کار وغیرہ کو قابو کرنے والے ہینڈل کو سٹیرنگ وہیل کہتے ہیں۔ اسطرح بے شمار جگہوں پر اس میں لوہے یا لکڑی کی سلاخیں لگا کر بھی اسکو قابل ِاستعمال بنایا جاتا ہے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ تر افراد کسی بھی صورت میں اس کا استعمال کرتے ہی ہیں ۔٭…٭…٭