حج کی اہمیت اور فضیلت
اسپیشل فیچر
ہر عبادت کے لیے اخلاص شرط ہے۔ جتنا اخلاص زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی اس کا اجر و ثواب بھی ملتا ہے۔ آہ! اب علمِ دین اور اچھی صحبت سے دوری کی بنا پر ہماری اکثر عبادات ریاکاری کی نذر ہوکر برباد ہوجاتی ہیں********** حج کے لیے جس طرح سرمایۂ ظاہری کی ضرورت ہے، اسی طرح سرمایۂ باطنی کی بھی سخت ضرورت ہے اور وہ سرمایہ سرمایۂ عشق ومحبت ہے اور ظاہرہے کہ یہ اہل محبت سے ملتا ہے********** اللہ عزوجل قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ:’’حج و عمرہ کو اللہ عزوجل کے لیے پورا کرو۔‘‘حضورؐ کا فرمان ہے کہ’’ جس نے حج کیا اور رفث (یعنی فخش کلام ) اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے پاک ہوکر ایسا واپس لوٹا جیسا کہ اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔‘‘(بخاری شریف) حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہؐ کا فرمان جنت نشان ہے:’’ حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہے ، چاندی اورسونے کے میل کودور کرتی ہے اور حج مبرو ر کا ثواب جنت ہی ہے۔‘‘( ترمذی ، ابن ماجہ، ابن خزیمہ و ابن حبان) حضرت سیدناعبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ کا فرمان ہے :’’ رمضان میں عمرہ میرے ساتھ حج کے برابر ہے ۔‘‘ (أبودائود) حضرت سیدنا ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ رحمت عالم نور مجسم ؐکا فرمانِ معظم ہے:’’ حاجی اپنے گھروالوں میں سے چار سو کی شفاعت کرے گا اور گناہوںسے ایسے نکل جائے گاجیسے اسی دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔‘‘(بزار) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ آپؐکافرمان ہے:’’ جو مکہ مکرمہ سے پیدل حج کوجائے یہاں تک کہ مکہ پاک واپس آئے، اس کے لیے ہر قدم پر سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں کی مثل لکھی جائیں گی۔ عرض کیا گیا، حرم کی نیکیوں کی کیا مقدار ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ ہر نیکی ایک ایک لاکھ لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔ اس حساب سے ہر قد م پر سات کروڑ نیکیاں ہوئیں ۔‘‘(بہقی) مولانا شاہ احمد رضاخان ’’ انوار البشارۃ‘‘ میں پیدل چلنے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ ہوسکے تو پیادہ (مکہ المکرمہ سے منیٰ،عرفات وغیرہ ) جاؤ کہ جب تک مکہ معظمہ پلٹ کر آئو گے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں لکھی جائیں گی۔ یہ نیکیاں تخمیناً (یعنی اندازاً ) 78 کھرب 40 ارب بنتی ہیں اور اللہ عزوجل کا فضل اس کے نبیؐ کے صدقے میں اس امت پر بے شمار ہے۔‘‘ میں عرض کرتا ہوں کہ شاہ صاحب نے پرانے طویل راستے کا حساب لگایا ہے۔ اب چوں کہ مکہ معظمہ سے منیٰ کے لیے پہاڑوں میں سرنگیں نکالی گئی ہیں اور پیدل چلنے والوں کے لیے راستہ مختصر اور آسان ہو گیاہے‘ اس حساب سے نیکیوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے ۔حضرت سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ، شفیع امتؐ کا فرمانِ عالی شان ہے :’’حاجی کی مغفرت ہوجاتی ہے اور وہ جس کے لیے استغفار کرے، اس کے لیے بھی مغفرت ہے۔‘‘(بزار، طبرانی ) اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐکا فرمانِ مبارک ہے:’’ جو حج یا عمرہ کے لیے نکلا ، اسے کہا جائے گا تو جنت میں داخل ہوجا۔‘‘ حضرت سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ کا ارشادِ مبارکہ ہے:’’ جو حج کے اراد ہ سے چلا اور راہ میں فوت ہوگیا تو اب قیامت تک اس کے لیے حج کا ثواب لکھا جاتا رہے گا اور عمرہ کی نیت سے نکلا اور راہ میںموت سے ہمکنار ہوا تو اس کے لیے تا قیامت عمرہ کا ثواب لکھا جاتا رہے گا۔‘‘(بہقی)کفر پر موت کا اندیشہ سرکار دوجہانؐ کا فرمان ہے:’’ جسے حج کرنے سے نہ ظاہری حاجت کی رکاوٹ ہونہ بادشاہ ظالم کی۔ نہ کوئی مرض جو روک دے تو پھر بغیر حج کے مرگیا تو چاہے یہودی ہوکرمرے یا نصرانی ہوکر۔‘‘ ( دارمی) حج کے لیے جس طرح سرمایۂ ظاہری کی ضرورت ہے، اسی طرح سرمایۂ باطنی کی بھی سخت ضرورت ہے اور وہ سرمایہ سرمایۂ عشق ومحبت ہے اور ظاہرہے کہ یہ اہل محبت سے ملتا ہے ۔دور قت انگیز واقعات بیان کیے جاتے ہیں، انہیں رقت قلبی کے ساتھ پڑھیے: حضرت سیدنا فضیل بن عیاض ؒفرماتے ہیں :’’ میدانِ عرفات میںلوگ جمع ہوکر مشغول دعاتھے۔ میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو سر جھکائے شرمسار کھڑا تھا۔ میںنے کہا ، اے نوجوان ! تم بھی دعا کرو۔ وہ بولا مجھے تو اس بات کا ڈر لگ رہاہے کہ جو وقت مجھے حاصل ہواتھا شاید وہ جاتا رہا۔ اب کس منہ سے دعا کروں؟ میں نے کہا تو بھی دعا کر تاکہ اللہ تجھے بھی ان دعا مانگنے والوں کی برکت سے کامیاب فرمائے۔‘‘ حضرت سیدنا فضیلؒ فرماتے ہیں کہ’’ اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی کہ ایک دم اس پر رقت طاری ہوگئی اور ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی ، تڑپ کر گرا اورا س کی روح قفسِ عصری سے پرواز کرگئی۔‘‘ (کشف المجوب)حضرت سیدنا ذوالنون مصری ؒفرماتے ہیں :’’ میں نے منیٰ میں ایک نوجوان دیکھا کہ آرام سے بیٹھا ہواہے جب کہ لوگ قربانیوں میںمشغول تھے۔ اتنے میں وہ پکارا:اے میرے پیارے اللہ عزوجل! تیرے سارے بندے قربانیوں میں مشغول ہیں‘ میں بھی تیری بارگاہ میںاپنی جان قربان کرنا چاہتا ہوں ۔ میرے مالک عزوجل ! مجھے قبول فرما۔ یہ کہہ کر اپنی انگلی گلے پر پھیری اور تڑپ کر گرا۔ میں نے قریب جاکر دیکھا تو وہ جان دے چکا تھا۔‘‘ (کشف المجوب) یاد رکھیے ہر عبادت کے لیے اخلاص شرط ہے۔جتنا اخلاص زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی اس کا اجر و ثواب بھی ملتا ہے۔ آہ! اب علمِ دین اور اچھی صحبت سے دوری کی بنا پر ہماری اکثر عبادات ریاکاری کی نذر ہوکر برباد ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ہرکام میں نمودو نمائش کا عمل دخل ضروری خیال کیا جانے لگا ہے‘ اسی طرح ا ب حج جیسی عظیم سعادت بھی دکھاوے کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر بے شمار بھائی حج ادا کرنے کے بعد خود کو اپنے منہ سے حاجی کہتے اور اپنے قلم سے نام کے ساتھ حاجی لکھتے ہیں۔ آپ شاید چونک پڑے ہوں گے کہ اس میں آخرحرج ہی کیا ہے ؟ اس صورت میں کوئی مسئلہ بھی نہیں کہ لوگ آپ کو اپنی مرضی سے حاجی صاحب کہہ کر پکاریں مگر پیارے حاجیو! اپنی زبان سے اپنے آپ کو حاجی کہنا اپنی عبادات کا خود اعلان کرنا نہیں تواور کیا ہے؟ اس کو اس مثال سے سمجھیں۔ٹرین چھک چھک کرتی اپنی منزل کی جانب بڑھتی چلی جارہی تھی ۔ دو اشخاص قریب قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک نے سلسلۂ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا: جناب کا اسم شریف؟ جواب ملا حاجی شفیق اور آپ کا مبارک نام ؟ اب دوسرے نے سوال کیا۔ ’’ نمازی رفیق‘‘ ، پہلے نے جواب دیا ۔ ’حاجی صاحب‘ کو بڑی حیرت ہوئی‘ پوچھ ڈالا ، اجی نمازی رفیق ! یہ توبڑا عجیب سانام لگتاہے۔ نمازی صاحب نے پوچھا: ’’بتایئے! آپ نے کتنی بار حج کا شرف حاصل کیا ہے؟‘‘ حاجی صاحب نے کہا : ’’الحمدللہ عزوجل ! پچھلے سال ہی حج پر گیا تھا ۔‘‘ نمازی صاحب کہنے لگے، ’’آپ نے زندگی میں صرف ایک بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی تو ببانگِ دہل اپنے آپ کو حاجی کہنے اور کہلوانے لگے اور یوں اپنے حج کا سرعام اعلان فرمانے لگے اور بندہ تو بلاناغہ روزانہ پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرتاہے۔ تو پھر اپنے آپ کو ’’ نمازی ‘‘ کہلوائے تو اس میںتعجب کی کون سی بات ہے؟‘‘سمجھ گئے نا!آج تو نمود ونمائش کی انتہا ہوگئی‘ عجیب تماشہ ہے ۔ حاجی صاحب جب حج کو آتے جاتے ہیں تو پوری عمارت کو برقی قمقوں سے سجایا جاتا ہے اور گھر پر حج مبارک کا بورڈ لگایا جاتاہے بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ریکاڈنگ بھی کی جاتی ہے،خوب تصاویر اتاری جاتی ہیں۔ آخر یہ کیا ہے؟ کیا بھاگے ہوئے مجرم کا اپنے آقاؐ کی بارگاہ میں اس طرح دھوم دھام سے جانا مناسب ہے؟نہیں ،ہرگز نہیں بلکہ روتے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے لرزتے کانپتے ہوئے جانا چاہیے۔حضرت سیدنا مالک بن دینا رؒ حج کے لئے بصرہ سے پیدل نکلے۔ کسی نے عرض کی آپ ؒ سوار کیوں نہیں ہوتے ؟ آپؒ نے فرمایا ، بھاگا ہوا غلام جب اپنے مولا کے دربار میں صلح کے لئے حاضر ہوتو کیا اسے سوار ہوکر آنا چاہیے ؟‘‘خدا عزوجل کی قسم ! اگر میں مکہ معظمہ انگاروں پرچلتا ہوا پہنچوں تو یہ بھی کم ہے ۔٭…٭…٭