احمد عقیل روبی بھی اس دنیا کو چھوڑ گئے
معروف شاعر، ادیب ،ناول ،خاکہ نگار اوراُردو ادبیات کے اُستاداحمد عقیل روبی23نومبر کی رات،74برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔وہ کچھ عرصہ سے پھیپھڑوں کے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔مرحوم لدھیانہ کے نزدیک واقع ایک شہر سنگرور میں 1940ء میں پیداہوئے ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور 36برس تک محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ وہ مختلف کالجوں میں اُردو ادبیات کے اُستاد رہے۔ اُنھوں نے ایف اے تک کے تعلیمی مراحل خانیوال میں طے کیے،بی اے گورنمنٹ ایمرسن کالج، ملتان سے کیا اورایم اے کرنے کے لیے لاہور آ گئے، یہاں اُن کا تعلق دبستان ِ لاہور کے معروف شاعر ناصرؔ کاظمی، اُستادسجاد باقررضوی اور افسانہ نگار انتظار حسین سے استوار ہوااور پھر وہ شہر ادب وثقافت،لاہور کے ہو کر ہی رہ گئے۔ناصرؔ کاظمی کے حوالے سے احمد عقیل روبی نے ایک کتاب ’’مجھے تو حیران کر گیا وہ‘‘ جب کہ سجاد باقر رضوی سے متعلق کتاب’’باقر صا حب‘‘ لکھی،یہ کتابیں اُن کی ان دونوں ادبی شخصیات سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ روبی صاحب نے درس و تدریس کا آغاز ڈگری کالج مظفر گڑھ سے بطور لیکچرر کیا۔ کچھ عرصہ بعد صادق ایجرٹن کالج ،بہاولپور بھی رہے،وہاںسے اُن کاشیخوپورہ تبادلہ ہو گیا، جہاں وہ 13 برس تک پڑھاتے رہے۔ 1983 ء میں اُن کا تبادلہ ایف سی کالج، لا ہور ہو گیا اور یہاں سے2000ء میں ریٹائر ہوئے۔روبی صاحب ایف سی کالج میں صدرِ شعبہ ٔاُردو بھی رہے، یہاں اُن کے رفقاء میں ڈاکٹر حسن رضوی، ڈاکٹر طارق عزیز، مختار ترابی، ڈاکٹر شبیہ الحسن شامل تھے۔ احمد عقیل روبی کا اصل نام غلام حسین تھا۔ادب کے علاوہ اُن کاتعلق شوبز کی دُنیا سے بھی رہا۔ نصرت فتح علی خان کے حوالے سے بھی اُنھوں نے ایک کتاب لکھی۔وہ موسیقی کے اسرار و رموز کو بھی بخوبی سمجھتے تھے۔اُنھوں نے بطورِ نغمہ نگار کئی پاکستانی فلموں کے لیے گیت لکھے،جن میںنکی جئی ہاں،مہندی والے ہتھ، جگ ماہی، لونگ دا لشکارہ اور مجاجن کے نام اہم ہیں۔ اُن کے لکھے کئی گیت سپر ہٹ ہوئے ،جس پر انھیں کئی ایوارڈ بھی ملے۔ انھوں نے اُردو فلموں کے لیے بھی گیت لکھے،جن میں فلم: تیر ے پیا ر میں، فلم کوئی تجھ سا کہاں، رخصتی اور شرارت کے نام اہم ہیں ۔ایک برس قبل14 اگست 2013ء کو حکومت ِپاکستان نے اُنھیں اُن کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔یہاں مجھے احمد عقیل روبی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:کتاب کھول کے بیٹھوں تو آنکھ روتی ہےورق ورق ترا چہرہ دکھائی دیتا ہےاحمد عقیل روبی کی مشہو ر کتابوں میں ’’ سوکھے پتے بکھرے پھول‘‘ (شاعری)، ’’ ملی جلی آوازیں‘‘ (انگریز ی نظموں کا ترجمہ) ، ’’آخری شام‘‘(منظوم ڈراما)، ’’ سورج قید سے چھوٹ گیا‘‘ (نظمیں) ، ’’بلائی 10 ‘‘ (یونانی شاعر ی کا ترجمہ)، ’’کھرے کھوٹے‘‘، ’’ قتیل کہانی‘‘(خاکے)، ’’چوتھی دُنیا‘‘ ، ’’ جنگل کٹا‘‘، ’’بنجر دریا‘‘، ’’ساڑھے تین دن کی زندگی‘‘، ’’ آدھی صدی کا خواب‘‘ (ناول) ، ’’ کہانی ایک شہر کی‘‘ (طویل نظم)، ’’ علی پور کا مفتی‘‘(طویل خاکہ)، ’’کر نیں تار ے پھول‘‘ (بچوں کی نظمیں) اور’’ یونان کا ادبی ورثہ‘‘ (تنقید) قابل ِ ذکر ہیں۔علاوہ ازیںاُن کے ترجمہ کیے ہوئے دو یونانی کلاسیکی ڈرامے ’’ایڈی پس ریکس‘‘ اور ’’مے ڈیا‘‘ بھی بہت معروف ہیں۔ احمد عقیل روبی، یونانی اساطیر کا خصوصی طور پر مطالعہ کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ اُن کی ہر تحریر میں یونان کے اساطیری حوالے ملتے ہیں ، وہ ایک خوب صورت خاکہ نگار تھے اور جب کبھی کسی تقریب میں کسی کتاب یا شخصیت کے حوالے سے اپنا مضمون یامقالہ پڑھتے تو اسے ایک خاکہ نما تحریر بنا دیتے اور یونانی اساطیری مثالیں کچھ اس طرح اپنی تحریر میں سمو دیتے تھے کہ وہ اس کا لازمی جزو محسوس ہوتیں۔احمد عقیل روبی اب اس دُنیا میں نہیں رہے اور اُردو ادب ایک اعلیٰ پائے کے ادیب و شاعر کے ساتھ ایک بلند فکر دانشور سے بھی محروم ہوگیا ہے۔روبی صاحب نے تمام عمر دانش ِ یونان ہی ترویج کی اور اپنے ناولوں، ڈراموں اور افسانوں میں بھی یونانی فلسفے کو بیان کیا۔آخر میں احمد عقیل روبی کی مغفرت کی دُعا کے ساتھ جمال احسانی کا یہ شعر پتا نہیں کیوں یاد آ رہا ہے:چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وارمیَں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے٭…٭…٭