حفیظ تائب
اسپیشل فیچر
مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں پڑتا کہ زندگی کی کون سی حسین صبح کا سورج میرے لیے حضرت حفیظ تائبؔ سے ملاقات کی نوید لے کر طلوع ہوا، لیکن یادوں کی کہکشاں سے اُن تابندہ لمحوں کے ستارے تلاش کرنا اس لیے بھی ضروری نہیں کہ اب یہ تعلق میرے وجود اور فکروخیال کو کچھ اس طرح اپنے کرم پرور حصار میں لیے ہوئے ہے کہ اب نہ تو اُن سے ملاقات ہونے سے پہلے کا زمانہ اُن کے بغیر لگتا ہے اور نہ ہی اُن کے چلے جانے کے بعد کسی محرومی کا احساس دل کو مغموم کرتا ہے۔ اُن کی رہنمائی کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے اور اگر آپ اسے محض میری عقیدت نہ سمجھیں ،تو پہلے سے فزوں تر ہے۔ ’’مدحت کی پیشانی پر کندہ ’’روحانی سرپرستی‘‘ محض الفاظ نہیں بل کہ اظہارِ حقیقت ہے۔، اسی کی بدولت نعت کے مختلف حوالوں سے دن بدن میری بڑھتی ہوئی قلبی وابستگی میرے سفرِ نعت میں نئی منزلوں کی طرف جاتے ہوئے راستوں کو مسلسل روشن کر رہی ہے۔حضرت حفیظ تائبؔ سے میرے رشتے کی نوعیت مختلف زاویوں سے تھی۔ وہ بیک وقت میرے تعلیمی رہنما، میرے غمگسار دوست اور ایک مشفق و مہربان بزرگ تھے۔ میں اُن سے اپنے ذاتی مسائل سے لے کر نجی اور خاندانی معاملات تک میں مشاورت کرتا اور اُن کی رائے کو حرف آخر سمجھتا۔ مجھے کوئی ایک بھی ایسا واقعہ یاد نہیں کہ اُن کی دی ہوئی رائے پر عمل کرنے سے مجھے کہیں شرمندگی یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اُن کی صحبت اتنی اثرانگیز اور پر تاثیر تھی کہ میں زمانۂ طالب علمی میں بھی اس عمر کے مشاغل اور ہم عمر دوستوں سے زیادہ قریب نہ ہو سکا۔ میرے پاس جو وقت بچتا اُس میں اُن کی صحبت میں رہنا میری اولین ترجیح ہوتی۔ اب اگر میں اُن ملاقاتوں سے وابستہ یادوں کی وادی میں اُتر جائوں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ ان مشکبویادوں میں خلوت کدے کی رازداریاں بھی ہیں، سفر و حضر کی داستانیں بھی ہیں اور یادگار محفلوں کے قصے بھی۔ ان یادوں کا ہر پہلو روشن و منور اور ہر زاویہ نورونکہت کی کہکشاں ہے۔میں حضرت تائب ؔسے منسوب اپنی ذاتی یاداشتوں کے بیان سے کہیں زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی ذات کے مختلف گوشوں سے آپ کا مختصر تعارف کروا دوں، جس سے اُن کا متبسم چہرہ آپ کی نظروں کے سامنے آ جائے۔جہاں تک حضرت حفیظ تائبؒ کی شخصیت کا تعلق ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اُن کے چہرے پر ایک خاص نورانیت سے لبریزہالۂ برکت تھا، جو اُن کی گفت گو اور شاعری دونوں میں جھلکتا محسوس ہوتا تھا۔ میں نے ہمیشہ لوگوں کو اُن کے لیے دل فرشِ راہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیشہ دوسروں کی آنکھوں میں اُن کے لیے احترام و عقیدت کے جذبات دیکھے اور ہمہ وقت ان کے لیے لوگوں کو محبت سے بچھتے ہوئے پایا۔ بظاہر اُن کا تعلق کسی روحانی سلسلے سے تو نہیں تھا ،لیکن میں نے بڑے بڑے آستانوں سے وابستہ بزرگوں کو اُن کی محبت کا اسیر اور بڑی بڑی قدآور شخصیات کو اُن کے حلقۂ ارادت میں پروانہ وار شامل ہوتے ہوئے دیکھا۔ تائبؔ صاحب ایک جامع الصفات شخصیت تھے۔ اُن کی بہت سی خوبیوں میں جس خوبی نے ہمیشہ مجھے متاثر کیا وہ ان کی دوسروں کے لیے محبت تھی۔ اتنے عرصے کے تعلق میں، میں نے کبھی انھیں دوسروں کے نقائص بیان کرتے نہیں بل کہ خصائص اور خوبیوں کا ذکر کرتے سنا۔ میرے نزدیک یہ کوئی معمولی خوبی نہیں۔ کسی کا اچھا شعر سن لیتے، تو جب تک اسے اپنے پاس آنے والے تمام لوگوں کو سنا نہ لیتے انھیں چین نہ آتا۔ کسی کی نئی خوبصورت نعت کا ذکر سن لیتے، تو خود چل کر اس کے پاس تشریف لے جاتے اور فرماتے کہ میں صرف آپ سے نعت سننے کے لیے آیا ہوں۔۔۔! حفیظ تائب ؔکی شخصیت بطور محرک نعت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ انھوں نے عہدِموجود میں اپنے فکری تحرک سے بہت سارے شعراء کو نعت کی طرف مائل کیا۔انھوں نے نعت کو فکری اور فنی سطح پر جو نئی جہتیں عطا کیں اس کا اعتراف بجاطور پر علم و ادب کی قدآور شخصیات کی طرف سے کیا جا چکا، لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے کلام میں موجود اُن خصائص کو تحقیقی و تنقیدی سطح پر جانچا اور پرکھا جائے تاکہ اُن کے فکروفن کے جگمگاتے گوشے آنے والی نسلوں کو اس مبارک صنف ادب پر مزید کام کرنے کے لیے روشنی دکھا سکیں۔اُردو ادب کے ساتھ حفیظ تائبؔ کی پنجابی نعت بھی اپنے اندر ایک الگ پہچان اور جداگانہ انداز رکھتی ہے۔ تائبؔ صاحب چوں کہ پنجابی ادب کے اُستاد بھی تھے اور پنجابی کی صوفیانہ شاعری سے لے کر جدید پنجابی زبان و ادب سے ان کی گہری وابستگی نے اُن کی پنجابی نعت میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ اُن کی پنجابی نعت میں زبان و ادب کی چاشنی بھی موجود ہے اور اپنے گردوپیش کے حالات کا عکس بھی۔ اس حیثیت میں بھی اُن کے مختلف اصناف سخن کے خوب صورت تجربات اُن کے تخیلاتی کینوس کی وسعت کی طرف بھرپور اشارہ کرتے ہیں۔ حفیظ تائبؔ نے جہاں نعتیہ شاعری میںبرتی جانے والی موجودہ اصناف کو نہ صرف آگے بڑھایا بل کہ اُن میں اپنی جدت آشنا مزاج کی بدولت گراں قدراضافے بھی کیے۔ ’’کوثریہ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے کہ اُنھوں نے اس کو سورۃ کوثر کے تتبع میں نیا نام دے کراصناف شاعری کو بھی ایک نیا راستہ دکھایا ہے اور ایک نئی صنف سخن کی بنیاد رکھی ہے ۔ حفیظ تائبؔ کی شاعری کے بنیادی اوصاف میں سے ایک وصف اُن کی خوئے احتیاط بھی تھی، جو الگ سے ایک بھرپور مقالے کا تقاضا کرتی ہے۔ اُن کی اس احتیاط پسندی نے ہر جگہ ان کے کام کو شاعرانہ تعلّی اور خیال کی بے راہ روی سے بچائے رکھا۔ اُردو ادب میں مناقب و سلام و قصائد میں جابجا آپ کو ایسی مثالیں ملیں گی ،جہاں اُن شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے بہت بڑے بڑے شعرا نے حد سے تجاوز کیا، لیکن اس مرحلے میں بھی حفیظ تائبؔ کے پایہ ٔاستقلال نے نہ صرف شعری حسن و جمال کو قائم و دائم رکھا ہے بل کہ چند اشعار میں اس شخصیت کا پورا خاکہ اور اس سے منسوب واقعات کو حقیقت اور سچائی کی پوشاک پہنا کر اسے چار چاند لگا دئیے ہیں۔ یہ پہلو بہت زیادہ قابل تحسین ہے کہ اُنھوں نے اسے عقیدت کے ساتھ حقیقت کا روپ دیا ہے اور مقام حیرت ہے کہ شاعرانہ جمال بھی جلوہ گر ہے اور کوئی ایک مصرعہ یا لفظ بھی اس کے شخصیت کے اوصاف و کمالات میں حد سے بڑھا ہوا نہیں ۔ ڈاکٹر اسحاق قریشی نے اسی لیے اُنھیں ’’مقصدیت پسند شاعر‘‘ قرار دیا ہے۔ ناقدین فن سے اس قدر دادوتحسین اور فکری و فنی سطح کے اس مقام پر پہنچ کر بھی اُن کے ذہن سے حقیقت کا اعتراف دامن دل کھینچتا ہے۔ اُنھیں اپنے ادبی قد کاٹھ سے کہیں زیادہ فکر اُس نسبت کی تھی ،جس کی بدولت ساری عزتیں اور عظمتیں مقدر ٹھہرتی ہیں:یہ انتساب ہے سرمایۂ ثبات مراکہ خود کو آل نبیؐ کا غلام کہتا ہوںتائبؔ صاحب کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے فنی سفر کی ابتداء غزل سے کی۔ کلاسک ادب سے لے کر جدید غزل کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بسااوقات مضمون آفرینی اخلاقیات سے کوسوں دُور لے جاتی ہے۔ میں نے اخلاقیات کا لفظ بہت احتیاط سے استعمال کیا ہے، ورنہ ادب سے شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ حفیظ تائبؔ کی غزل کا لہجہ بھی نہایت باوقار اور اُن تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ اُنھوں نے غزل جیسی صنف میں بھی اپنی فکر کو آلودہ نہیں ہونے دیا ،جہاں اس کی بہت گنجائش موجود ہوتی ہے۔موجودہ عہد کے اہم ترین محقق اور نقاد ڈاکٹر خواجہ زکریا نے اسی لیے اُن کی غزل پر لکھتے ہوئے کہا ہے ’’اُردو غزل میں کوئی مجموعہ ایسا نہیں ملے گا ،جس کا اشعار اتنے پاکیزہ ہوں‘‘۔اپنی اس فکری پاکیزگی کا اظہار تائبؔ صاحب نے اپنی نعت کے ایک شعر میں کس خوبصورت پیرائے میں کیاہے:تھی ہزار تیرگئی فتن، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فنمری کائناتِ خیال پر نظرِ شہِؐ عربی رہیاس کے ساتھ ساتھ اُن کی ملّی شاعری اور شخصی نظمیں بھی خاصے کی چیز ہیں، جن کی طرف ابھی بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ ملت ِاسلامیہ کی زبوں حالی کی کسک اور وطن عزیز سے محبت اُن کے جسم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔یہ بات اب حقیقت بن کے سامنے آ چکی کہ آنے والے دَور میں نعتیہ ادب کے طالب علم کو نئے آفاق کی کھوج میں نکلنے سے پہلے فکرتائب ؔکو اپنا ہم سفر و دمساز بنانا ہوگا اور اسی کی لَو سے نئی نسل کی فکر کے چراغ جلیں گے۔٭…٭…٭