طُورخم _آدم دُرخانی _قِصّہ خوانی کے قِصّے!
اسپیشل فیچر
دوپہر کاسورج سرپرآن پہنچاتھا اور ہم مہاجر کیمپوں سے نکل آئے تھے۔ ہماری اگلی منزل طورخم کی سرحد تھی۔لیکن ا س طرف روانہ ہونے سے پہلے کچھ دیر کے لئے واپس اپنے ہوٹل لوٹ آئے تھے تاکہ پیٹ پوجا کی جاسکے۔ پیٹ کا یہ ایندھن بھرنے کے بعد جسم وجان کی یہ گاڑی اگلے سفر کے لئے تازہ دم ہوچکی تھی۔ دو بجے دوپہر کے قریب ہماری گاڑی طور خم کے لئے شہر سے نکل کھڑی ہوئی اور کچھ اِدھر اُدھر کے موڑ کاٹنے کے بعد مال روڈ پرآگئی تھی جس کے دونوں جانب دُکانیں ،ہوٹل، سکول اور فوجی کوارٹرز تھے۔ مال روڈ ختم ہوئی تھی کہ سٹیڈیم اور اس کے دائیں طرف کیتھولک چرچ کی عمارت ایستادہ تھی۔ اسی طرح کی اور عمارتوں اور سڑکوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی گاڑی جمرود روڈ پر داخل ہوچکی تھی۔ اس کے بائیں طرف یونیورسٹی ٹائون کی بلند وبالا عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ لیکن زیادہ تر کشش اسلامیہ کالج کی عمارت کی تھی۔ جسے 1911 ء میں حاجی صاحب آف ترنگزئی نے بنوایا تھا۔ مغل آرٹ کی دُورسے ہی اس میں جھلک نظر آرہی تھی۔ گاڑی آگے بڑھ کر تاریخی عمارت بُرج ہری سنگھ کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اسے 1835ء میں سکھ جنرل ہری سنگھ نے دفاعی مقاصد کے لئے تعمیر کروایاتھا۔ یہ بُرج اب پولیس چوکی میں تبدیل ہوچکا۔ یہاں سے آگے بڑھے تو دولتمندوں کا علاقہ حیات آباد آچکا تھا جہاں بدیسی اشیاء کی خریدوفروخت زوروشور سے جاری تھی۔ یہی کام ذرا آگے روڈپر ان دُکانوں میں ہورہاتھا جوافغان مہاجرین نے بنارکھی تھیں۔اب ہم پشاور کو پیچھے چھوڑ چکے تھے او رقبائلی علاقے جسے علاقہ غیر بھی کہاجاتا ہے میں داخل ہوچکے تھے۔ ہرشخص کے کندھے پربندوق یاپستول لٹکا ہواتھا۔ کچھ جگہوں پرخانہ بدوشوں کے خچر،اونٹ اور مویشی بھی سازوسامان لادے محو سفر تھے۔ ان کی کل کائنات کمبل یا رضائی ، معمولی سے چند برتن ،مرغیوں، گائے اور بکریوںتک محدود ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو کوچی، پاوندا یا غلزئی کہا جاتا ہے۔میں گاڑی کی کھڑکی سے یہ عمارتیں، یہ تہذیب یہ منظر غور سے تکتا جارہا تھا۔ جمرود کا گائوں بھی آگیا جس کے سامنے آنکھوں کو خیرہ کردینے والا قلعہ جمرود سینہ تانے کھڑا تھا۔ قلعے کے ساتھ ہی بابِ خیبر آنے جانے والوں کو راستہ دینے کے لئے براجمان تھا۔ صدیوں سے اس کا کام ہی یہ رہاتھا۔ ہرآنے جانے والے کو یہاں سے گزرنے دے۔ بابِ خیبر پہنچ کر ہماری گاڑی رُک گئی اور ہم نیچے اُتر آئے۔ خیبرگیٹ کے اوپر دونوں اطراف پرتوپیں رکھی ہوئی تھیں اور یہاںلگی چھ تختیوں پر درہ خیبر کی مختصرتاریخ کُندہ تھی۔ہم فاتح یاحملہ آور تو نہیں تھے کہ اس سے گُزر کرکسی سلطنت پرقبضہ کرنا تھا۔ ہم تو اس کے اُلٹ رُخ سفر پر گامزن تھے۔ وہ بھی شریف اور معصوم سیاحوں کی طرح اور ہمیں اس کی سیاحت کے بعدواپس بھی لوٹ آناتھا۔ لیکن ہمیں اس کی تاریخ سے ضرور دلچسپی تھی۔ اب ہم درہ خیبر کے بالکل دروازے پردستک دے رہے تھے اور اس کی تاریخ مختلف کروٹوں کی داستانوں کے در کھولے جارہی تھی ۔کیا خوش قسمتی ہے کہ اسے شیرِخُدا حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہونے والے یہودیوں کے قلع خیبر کے نام سے نسبت ملی اور پھر یہ بہادر وجرار قوتوں کے ملاپ کا سنگم بنا ۔ راستے سے آنے والے حملہ آوروں اور حکمرانوں اور جنگجو سرداروں کی بہادرانہ لشکر کشی کی بات کرتا ہے۔ کئی قدیم حکمران اور نسلیں یہاں سے گُزریں ۔مگر شہرتِ دوام اسے تیمور یہ خاندان کے ظہیرالدین بابر کی وجہ سے نصیب ہوئی۔پانچ صدیاں قبل وہ کابل کو فتح کر کے اسی درہ خیبر کے راستے پشاور پہنچااورپھر کئی بار اِدھرسے اُدھر اور اُدھرسے اِدھر آتا اور جاتا رہا۔پھررفتہ رفتہ یہ شاہراہ زندگی بن گئی۔شیر شاہ سوری کے عہد میں ڈھاکہ سے دریائے سندھ تک تعمیر ہونے والی جرنیلی سڑک کواکبر نے درہ خیبر تک بڑھادیا تھا اور پھر کابل تک جاملایا۔ اس علاقے میں یوسف زئی قبیلے نے مغل حکمرانوں کا ناک میں دم کئے رکھا اور بالآخر اکبرکوخٹک قبیلے سے معاہدہ کرنا پڑا اور اس کے تحت انجینئر قاسم خان نے شاہراہ خیبر تعمیر کی۔ جس کی ذمہ داری خٹک قبیلے کے سُپرد ہوئی تھی۔پھر ہر حملہ آور فوج درہ خیبر سے ہی ہوکرآتی رہی۔ انگریزوں کے دور میں روسیوں کی مداخلت کو روکنے کیلئے درہ خیبر عالمی منظر پرآگیا۔ کئی افغان اینگلو جنگیں ہوئیں۔ انگریز فوجیں افغانستان پراِسی راستے سے حملہ کرنے کیلئے آگے بڑھیں اور پھرشکست کھا کر اسی راستے سے واپس بھاگ آئیں۔ آخری لڑائی میں صرف ایک انگریز ڈاکٹر ہی اپنی جان بچا کر اس درہ کے راستے واپس آسکنے میں کامیاب ہوسکا تھا۔ اسی دوران انگریز حکومت نے خیبر کے آفریدیوں کی آزاد حیثیت تسلیم کی تھی۔ اب اس درہ میں زیادہ تر آفریدی ہی غالب ہیں۔ ان کو درہ خیبر کا محافظ کہا جاتا ہے۔ البتہ شنواری بھی یہاں معقول تعداد میں ہیں جو زیادہ تر لنڈی کوتل اور اس کے آ س پاس آباد ہیں۔ درہ خیبر کے پہاڑ جو ہماری آنکھوں کے سامنے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے جنگجو اور بہادر حملہ آوروں کے ہی گواہ نہیں تھے بلکہ محبت کی کئی رومان پرور کہانیوں کے عینی شاہد تھے۔اس وقت بھی یہ’’آدم اور دُرخانی‘‘کی لازوال رومانوی داستان سُنا کر اپنے رومان پرور ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔ ’’آدم خیبر کا ایک پُرکشش اور بہادر نوجوان تھا اور دُرخانی خوبصورت دوشیزہ تھی۔ لیکن ان کے خاندانوں کی دُشمنی ان کی شادی میں رکاوٹ بن گئی تھی۔دُرخانی کوقبیلے اورماں باپ کے مجبور کرنے پرہمسایہ قبائلی سردار سے شادی کرنی پڑی۔ اس دوران آدم ، دُرخانی سے چوری چھُپے ملتا رہا جب دُرخانی کے محرم کو خفیہ ملاقاتوں کا علم ہوا تو وہ طیش میں آگیا اور اس نے لڑائی کے بعد آدم کو شدید زخمی کردیا۔سردار رقیب سے نبٹنے کے بعد جب دُرخانی کو مارنے آیا تو وہ اس وقت باغ میں پھولوں کے پاس کھڑی تھی۔ ان میں سے ایک پھول جسے اس نے اپنے محبوب کے نام پر اُگایا ہواتھا۔ اُس روز مُرجھا گیا اور محرم نے آدم کے خون سے بھیگی ہوئی تلوار سے دُرخانی کو قتل کر دیا۔ اس دوران لڑائی کی جگہ بے یارومددگار پڑازخمی آدم بھی خالق حقیقی سے جاملا۔ کہاجاتا ہے ‘ دونوں عاشقوں کو الگ الگ دفن کیا گیا لیکن ان کی قبروں پر اُگنے والے دودرختوں کی شاخیں ایک دوسرے سے مل کر دونوں کی لازوال محبت کی گواہی بن گئیں۔‘‘(اسد سلیم شیخ کے سفرنامہ پاکستان ’’کچھ سفر بھولتے نہیں‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭