پتھر بولتے ہیں...!
اسپیشل فیچر
دنیا میں سنگِ زرد کی تعمیرات کو آج ’’سمّہ آرکیٹکٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہےکراچی ،اگر 15ویں، 16ہویں صدی میں آباد شہر کی صورت ہوتا تو اس کا دارالحکومت ٹھٹھہ اور راجا ہوتا جام، جن کا سمّہ خاندان کئی صدیوں تک زیریں سندھ کا حکمراں رہا۔ کراچی بھی زیریں سندھ کا حصّہ ہے۔یہ وہی راجا ہے، جسے تاریخ نے جام نظام الدین کے نام سے یاد رکھا اور48برس حکومت کرنے والے راجا کو پَرجا نے پیار کا نام دیا ’’جام نِندو‘‘۔ عقیدت صدیوں بعد آج بھی قائم ہے۔اکثر جمعرات کی شام مقبرے پر لوگ آتے ہیں، فاتحہ پڑھتے ہیں اور کئیوں کا کہنا ہے کہ بخار ہو تو یہاں پہنچتے ہی فوراً غائب ہوجاتا ہے۔ راجا اوراس کے مقبرے سے ایسی روحانی عقیدت تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔جام سمّہ خاندان کے طویل دورِ حکمرانی کا آخری تابندہ چراغ تھا۔ اس کے بعد ایک تارہ دو بار چمکا مگر لمحہ بھر کو اور پھر ارغونوں کے ہاتھوں وہی حشر ہوا جو تیموری اولادِ شاہی کا ہندوستان میں انگریزوں کے ہاتھوں ہوا تھا۔جام نِندو کے بعد صرف نو دس برس کے قلیل عرصے میں سمّہ دور تاریخ میں چلا گیا اور ارغون حاکم بن گئے۔واضح رہے کہ راجا نِندو کو تعمیرات کا بہت شوق تھا، خاص کر سنگِ زرد کی تعمیرات کا۔ آج اس کے باعث ہی تعمیرات کی دنیا میں یہ دور ’’سمّہ آرکیٹکٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ آسودۂ خاک شاہوں کے نشان تاریخ کے صفحات پر ہی نہیں، قبرستانوں پر بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ جام نے بھی زندگی میں اپنا مقبرہ تعمیر کروانا شروع کردیا تھا، جوان کی موت کے ایک سال بعد مکمل ہوا۔آج اس مقبرے کو بر صغیر کی تعمیراتی تاریخ میں ’’سندھی – اسلامی فنِ تعمیر‘‘ کا بے مثل اور واحد نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ مقبرے کی تعمیر کو پانچ سو تین برس پورے ہوچکے۔تاریخ میں ’’سمّہ دورِ حکومت ‘‘1335ء سے 1520ء پر مشتمل ہے۔ جام نظام نے 1460ء سے اپنی وفات یعنی 1508ء تک، 48 برس حکمرانی کی۔جام کے بعد، دو بار مختصر مدت کے لیے ناصرالدین فیروز تخت نشیں ہوا، لیکن جام کے بعد زوال سمّہ دور کا مقدّر بنا اور1520ء میں ارغونوں کے ہاتھوں مقامی سندھی حکمرانوں کا دور اختتام کو پہنچا۔سندھ کی قدیم ترین تاریخ چچ نامہ کا مصنف لکھتا ہے:’’راجا چچ کے زمانے میں سمّہ قوم کو نرم کپڑے پہننے اور سروں پر مخمل اوڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بجائے وہ نیچے اوپر کالی گڈری پہنتے تھے۔ کھردری چادر کاندھوں پہ ڈالتے تھے۔ سر اور پیر کو برہنہ رکھتے تھے۔اگر ان میں سے کوئی نرم کپڑا پہن لیتا تو اس پر جرمانہ کیا جاتا تھا۔ گھر سے باہر نکلتے وقت پہچان کے لیے وہ اپنے ساتھ کتے لے کر نکلتے اور ان کے سربراہ کو بھی گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں تھی‘‘۔کہا جاتا ہے کہ آٹھویں صدی میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے میں سمّہ نے راجا چچ کے بیٹے راجا داہر کے بجائے عربوں کا ساتھ دیا اور اسلام قبول کرلیا۔عربوں کے بعد جب سومرہ دور بھی اختتام کو پہنچاتو سمّہ قوم نے سر اٹھایا اور زیریں سندھ پر قبضہ کرکے ٹھٹّہ کو اپنا دارالحکومت بنالیا۔ یہ پندرہ سو پینتیس کی بات ہے۔سمّہ دور کا پہلا حاکم جام بھم بینہ کا بیٹا فیروز الدین شاہ عرف جام جُونہ تھا۔ سمّہ کا تعلق ٹھٹھہ کے قریب واقع گاؤں سرسوئی سے تھا۔ گاؤں کے آثار آج بھی ٹھٹّھہ سے کچھ فاصلے پر واقع پہاڑی ٹیلے پر پائے جاتے ہیں۔تعمیرات کے حوالے سے سمّہ دور کی یادگاریں تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل ہیں۔ان میں جام نِندو کا مقبرہ صرف سمّہ دور ہی نہیں، بعد کے تمام ادوار کی تعمیرات، جن میں عرب، ایرانی، ترک اور مغلیہ اندازِ تعمیر شامل ہیں، میں سب سے ممتاز ہے۔ممتاز ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی مرحوم کا بیان ہے: ’’سمّہ دور میں، سندھ میں ایسے تعمیراتی انداز کا ارتقا ہوا،جسے ہم ’’سندھی اسلامی فنِ تعمیر‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک اس تعمیراتی ورثے کی صحیح اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے تجزیے کا فقدان ہے‘‘۔ڈاکٹر صاحب نے تیس سال پہلے بدقسمتی والی بات کہی تھی، مگر اب تک سچ ثابت ہورہی ہے۔معروف ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر کلیم لاشاری کے مطابق ’’سندھ میں سنگی قبروں کا ارتقا 12ویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے، تاہم جام نِندو کا مقبرہ اس ارتقائی عمل کا بے مثال شاہکار ہے‘‘۔پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، کے مصنف سبطِ حسن کے مطابق: ’’مکلی کے پتھر کے مقابر میں جام نندو کا مقبرہ سب سے ممتاز ہے۔ اس مقبرے کی دیواروں پر جو شجری نقوش ابھارے گئے ہیں وہ سندھ، راجپوتانہ اور گجرات کے فنِ سنگ تراشی کی پرانی روایات کے بہترین نمونے ہیں۔پاکستان میں فنِ تعمیر کی مقامی اور اسلامی روایتوں کے امتزاج کی شاید سب سے ابتدائی مگر نہایت کامیاب کوشش جام نِندو کا مقبرہ ہے‘‘۔کراچی سے سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع مکلی قبرستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مائی مکلی نامی دین دار خاتون کے نام سے موسوم ہے، جن کی قبر یہاں کی سب سے قدیم ترین مسجد کی محراب تلے موجود ہے، تاہم محققین کا اس سے اتفاق نہیں۔مکلی میں35 تاریخی آثار بیان کیے جاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1980ء کی دہائی میں ثقافتی اہمیت کے پیشِ نظر اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔مکلی میں سنگی مقابر کی تاریخ کا سفر مقبرہ جام نندو سے ہوتا ہے۔انتہائی شمال میں واقع جام کے مقبرے کی تکمیل کا سال 1509ء مذکور ملتا ہے، جو خطِ نستعلیق میں بہ زبانِ عربی، شمالی دیوار پر ایک کتبے پر یوں کندہ ہے:’’السطان العاظم والخاقان العادِل، الاکرام ناصرالحق والدنیا و الدین ابوالفتح سلطان فیروز شاہ تاریخ ۱۵۹ہجری المطابق ۹۰۵۱ عیسوی‘‘۔مقبرہ چوکور شکل میں ہے۔ چہار اطراف کی چوڑائی اور اونچائی، ہر جانب سے 37فٹ ہے۔ مشرقی سمت جالی دار کھڑکی ہے۔ مغرب کی جانب بیرونی سمت پر دروازہ اور اندر سے عین وسط میں چھ فٹ اونچی محراب ہے۔شمال اور جنوب کی جانب دروازے ہیں۔ شمالی دروازہ اب پاٹ دیا گیا ہے۔جنوبی دروازے اور دیوار کے درمیان تنگ سی راہ گزر ہے، جہاں سے سیڑھیوں کے راستے بے گنبد مقبرے کی درمیان سے کھلی چھت اور مغربی سمت تعمیر کردہ جھروکے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ سیڑھیوں کے قدمچے بھی دلکش نقوش سے مرصع ہیں۔مقبرہ جودھپوری سنگِ زرد سے تعمیر کردہ ہے۔ پتھروں کو مربع شکل میں تراش کر بڑی اینٹوں کی شکل دی گئی، جسے فنِ تعمیر کی اصطلاح میں ’’برِک سٹون‘‘ کہا جاتا ہے۔بے گنبد اور دائرہ کی شکل میں کھلی چھت کا یہ مقبرہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا منفرد ثقافتی شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔مقبرے کی عمارت پر اندر اور باہر کی سمت کندہ کاریوں کے سیکڑوں نمونے ہیں، جو دلکشی میں اگر اپنی مثال آپ تو مماثلت میں ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔پتھر کے ایک ٹکڑے پر ایک سے زائد نمونے تراشیدہ ہیں۔ اگر اقلیدسی (جیومیٹری) نمونوں کا استعمال نظر آتا ہے، تو ذہنی تخلیق بھی نمایاں، فنکارانہ ہاتھو ں کی مشاقی ہے، تو نمایاں آخری آرام گاہ کی خواہش بھی جھلکتی ہے۔جام کی قبرسادہ ہے ،مگر مقبرہ سیکڑوں نقوش سے مرصع مجموعہ فن ہے۔ نقش گری کے ہر پہلو میں جمالیاتی ذوق غالب ہے۔ مقبرے کی تعمیر کے روایتی انداز میں جدّت ، نفاست اور دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اندازِ تعمیر سندھ میں روایتی سنگی قبروں کے ارتقائی عمل میں ایک نیا موڑ تھا۔ خطِ نسخ میں خطاطی اور محراب اسلامی فنِ تعمیرات کی عکاس ہیں تو گجراتی محلات کے طرز پر جھروکے بھی ہیں، جن پر جَین اور ہندو مت کے قدیم ادوار کے مندروں جیسے سنگی نمونوں کا حسین امتزاج بھی نمایاں ہے۔صدیوں پہلے بے نشاں سنگ تراشوں کے تخلیقی ذہن، چھینی اور ہتھوڑی نے راجا نِندو کو یوں دوام بخشا کہ اب ان کی آخری آرام گاہ صرف قدیم آرٹ کا نادر نمونہ ہی نہیں، سندھ اور پاکستان کا عظیم ثقافتی ورثہ بھی بن چکی ہے۔خاموشی کی زبان میں ہنرمندی کا یہ شاہکار تعمیراتی ورثہ عظیم ثقافتی پس منظر کی داستان سناتا ہے۔