کتبہ سازی کا ماند پڑتا فن
اسپیشل فیچر
کتبہ سنگِ مرمر، پتھر کی سلیٹ، ٹف ٹائل وغیرہ کی ایک ایسی سلیٹ ہے جس پرکسی کی تعریف میں نظم یا نثر لکھی جاتی ہے‘اگر قبروں کے لیے بنائی جائے تو وفات پانے والے کی کی تاریخ پیدائش و وفات لکھی جاتی ہے۔افتتاحی تقریب کے لیے ہو تو اس مقام کی تعمیر کا مقصد بیان کیا جاتا ہے اور گھر کے لیے بنوائی جائے تو اس پر گھر کے مالک کا نام یا کوئی تحریر کندہ کی جاتی ہے۔ لیکن سنگ تراشی کا فن صرف کتبے بنانے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ مغلیہ عہد میں تو اسے ایک مکمل فن کا درجہ حاصل تھا۔ 1982ء سے سنگ تراشی کے فن سے منسلک محمد رفیق کے مطابق انہیں ساہیوال میں سنگ تراشی کے کام کی بنیاد رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے یہ کام 1970ء میں میانی صاحب لاہور سے سیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ سنگ تراشی کا کام بہت محدود ہو گیا ہے۔اس فن کو مغل دور عروج حاصل ہوا۔ تب محلوں، مقبروں اور مسجدوں میں بڑے پیمانے پر سنگ تراشی کا کام ہوتا تھا جو کہ اب سمٹتا سمٹتا کتبوںتک محدود ہو گیا ہے۔محمد رفیق نے بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتبوں کی تحریریں بھی انتہائی مختصر ہو گئی ہیں۔ ماضی میں کتبوں پر لوگ وفات پانے والے اپنے عزیز و اقارب کے حالات زندگی، دعائیہ کلمات، آیات وغیرہ لکھواتے تھے جب کہ اب لوگ صرف مرنے والے کا نام، ولدیت، تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات لکھواتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ دور میں وقت کی کمی کی وجہ سے لوگ اپنے عزیزوں کی قبروں پر کتبے لگانے کا اہتمام بہت کم کرتے ہیں، جو کرتے ہیں ان میں سے بھی بیشتر انتہائی مختصر تحریر لکھواتے ہیں۔بڑھتی ہوئی مصروفیت اور عدم دلچسپی کے باعث قبروں پر کتبے لگانے کا رواج ماند پڑتا جا رہا ہے جبکہ سرکاری سکیموں کیلئے بنائی گئی افتتاحی تختیوں کا معاوضہ لینا ہی مسئلہ بن جاتا ہے۔ساہیوال کی مسجد عید گاہ میں سنگ تراشی کا کام محمد رفیق کے ہاتھ کا کیا ہوا ہے۔ ان کے مطابق 15سال پہلے تک مساجد اور درباروں میں پتھر کے کام کا خاصا رواج تھا لیکن اب بمشکل ہی کوئی مساجد اور درباروں میں سنگ تراشی کا کام کرواتا ہے۔دیپالپور بازار میں موجود سنگ تراش ظفر حسین انصاری 18 سال سے سنگ تراشی کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پہلے جب کسی سنگ تراش کو کسی مزار یا مسجد کا کام مل جاتا تو یہ کام کئی مہینوں تک چلتا تھا اور سنگ تراش کی آمدن بھی اچھی خاصی ہو جاتی تھی۔کتبے تیار کرنے کے بارے میں ظفر حسین نے بتایا کہ وہ لاہور سے ماربل خریدتے ہیں۔ ہلکا پتھرانہیں تقریباً 150 روپے فٹ جبکہ اچھا پتھر400 روپے فٹ ملتا ہے۔ پتھر کا مطلوبہ سائز کاٹ کر مشین سے پتھر کی رگڑائی کی جاتی ہے جس پر کاتب سے گاہک کی طرف سے دی گئی تحریر لکھواتے ہیں۔چھوٹے سائز کے پتھر پر لکھوائی کا کاتب کو پچاس روپے جبکہ ڈیڑھ بائی تین سائز کے پتھر کی لکھوائی کا 250 روپے دیتے ہیں۔ لکھوائی کے بعد اصل کام پتھرتراشنے کا ہوتا ہے۔ پتھر تراشنے کے لیے ایک ہتھوڑی اور ایک چھوٹی چھینی کا استعمال ہوتا ہے۔اگلا کام رنگ بھرنا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق زیادہ دیر پا رنگ کالا ہوتا ہے لیکن جو گاہک رنگ پسند کرے وہی بھرا جاتا ہے۔ ڈیڑھ بائی تین فٹ سائز کا کتبہ تقریباً 2600 روپے میں تیار ہوتا ہے۔ گاہک کو وہ 3500 روپے تک فروخت کرتے ہیں۔قبروں کے کتبوں کے علاوہ افتتاحی تقریبات کیلئے تختیاں بھی بنائی جاتی ہیں۔ ایک سنگ تراش ایک دن میں دو سے تین کتبے تیار کر لیتا ہے۔ظفر حسین کے مطابق وہ سرکاری تقریبات کے کتبوں کے لیے ہلکا پتھر استعمال کرتے ہیں کیونکہ سرکاری تقریب کے کتبے بنانے والے انہیں پیسے کم دیتے ہیں۔جو لوگ اچھا پتھر لگوا کر اچھا کام کروانا چاہیں، ان کا کام زیادہ پائیدارکرتے ہیں۔(بہ شکریہ: سجاگ)