کرنل محمدخان اور صحافت
اسپیشل فیچر
کرنل محمدخان(پیدائش:5 اگست 1910ء 23 اکتوبر 1999ء ) پاکستان کے نامور مزاح نگار اور پاک فوج کے شعبہ تعلیم کے ڈائریکٹر تھے۔ نیز انھوں نے برطانوی دور میں ہندوستانی فوج میں بھی کام کیا اور دوسری جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ اور برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ پاک فوج کی ملازمت کے دوران کرنل محمدخان نے کتاب \"بجنگ آمد\" تصنیف کی جو ایک مزاحیہ سوانح نگاری ہے، ان کی اس کتاب کو اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی کتاب \"بجنگ آمد\" کی کامیابی کے بعد انھیں اردو کے بلند پایہ مزاح نگاروں میں شمار کیا جانے لگا۔ کرنل محمدخان، مشتاق احمد یوسفی، ضمیر جعفری اور شفیق الرحمن کے ہمعصر تھے۔کھیلوں کا شوق دیکھنے کی حد تک تھا۔ ان کے پسندیدہ کھیلوں میں فٹ بال اور کرکٹ تھا اور کرکٹ ہمیشہ شوق سے دیکھتے تھے۔ کھیلوں میں حصہ نہ لینے کے باوجود انہوں نے اپنی اس پسند کو شوقِ تکمیل تک پہچانے کے لئے کھیلوں پر تبصرہ نگاری کا شغل اختیار کیا۔ یوں اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ساتھ ساتھ فیروز سنز کے ایک اخبار ایسٹرن ٹائمز کے اسپورٹس رپورٹر بن گئے۔مزاح نگاریبجنگ آمد:کرنل محمد خان کے فن کا تھوڑا سا اظہار تو ان کی تعلیم کے ابتدائی زمانے میں ہوا اور پھر جیسے وہ ودیعت شدہ فن ایک طویل عرصے کے لئے خاموشی اختیار کر گیا۔ان کی پہلی کتاب بجنگ آمد ہے۔ بجنگ آمد کرنل محمد خان کی زمانہ جنگ کی گزاری ہوئی زندگی کی داستان ہے۔ اس میں جہاں بہت سی ہونی اور انہونیوں کا ذکر ہے، جہاں بہت سے پْر لطف یادگار اور قابلِ ذکر واقعات کا ذکر ہے، وہاں انہوں نے اپنی اس کتاب کی معرفت اور اپنی خوش بیانی کی بنا پر ان کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ اس نے ان سب کو داستانِ جاوداں بنا دیا ہے۔اس کتاب کا پسِ منظر دوسری جنگ عظیم ہے۔ یہ مضامین 1962ء اور 1965ء کے درمیان لکھے گئے اور ان میں سے چند مختلف رسائل میں چھپے۔ وسط 1965ء میں انہیں کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بالآخر اگست 1966میں شائع ہوئی۔ کرنل صاحب اپنی کتاب بجنگ آمد کی ہر اشاعت میں تصحیح اور ترمیم کرتے رہتے۔ وہ بڑی حد تک چھوٹی چھوٹی جزیات پر نظر رکھتے تھے اور ساتھ ساتھ سرخ روشنائی سے کتاب میں دَر آنے والی غلطیوں کو نظر سے قطعی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ اور حسبِ ضرورت مزید بہتری کے خیال سے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی کرتے جاتے تھے۔بدیسی مزاحکرنل محمدخان مختلف اوقات میں بیرونِ ممالک کے تین دورے کیے جن میں سے ایک نجی اور دو سرکاری۔ ان تین سفروں پر مشتمل انہوں نے ایک سفرنامہ تحریر کیا جس کا نام انہوں نے \"بسلامت روی\" رکھا۔ بسلامت روی ان کی ریٹائرمنٹ کے چھ سال بعد 1975ء میں منظرِ عام پر آئی۔کرنل محمدخان کی یہ سب سے طویل کتاب ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک نوع کی آپ بیتی ہے جو ایک سفرنامہ کی شکل میں وجود میں آئی۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق \"بسلامت روی\" کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ وہی بجنگ آمد والی حلاوت، لطافت، ظرافت، سلاست، بانکپن اور شگفتگی ہے، فرق ہے تو یہ کہ اس میں زبان کا چٹخارہ یعنی شعریت اور ادبیت زیادہ ہے اور اس میں بے ساختہ پن زیادہ ہے۔‘‘کرنل صاحب کی تیسری کتاب \"بزم آرائیاں\" ہے اور یہ \"بسلامت روی\" کے پانچ سال بعد 1980ء میں شائع ہوئی۔ اس میں متفرق مضامین اور کہانیاں شامل ہیں، جن میں اکثر مختلف رسالوں میں چھپ چکی تھیں۔ جو کہ غالباً کرنل صاحب نے مدیروں کی فرمائش پر تحریر کیں۔ کرنل محمد خان بزم آرائیاں کے بارے میں رقمطراز ہیں: \"بجنگ آمد\" کا موضوع میری لیفٹینی تھی، یعنی یہ کہ کب اور کیسے نازل ہوئی اور بعد از نزول مجھ پر کیا گزری۔ \"بسلامت روی\" سفرِ فرنگ کی روئداد تھی۔ موجودہ کتاب جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے، متفرق مضامین کا مجموعہ ہے لیکن اس الوداعی باب میں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب ایک روز یہ خاکسار یکا یک ایک عام آدمی سے مصنف بن گیا تو اس کے بعد اس پرکیا بیتی۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین نے ان کی کتاب \"بزم آرائیاں\" کو جس انداز میں دیکھا اور پرکھا، وہ پیشِ خدمت ہے:\"بزم آرائیاں\"۔ یہ ان کی تیسری تصنیف ہے ۔کرنل محمد خان کے مزاح میں بے فکری اور فکرمندی دونوں اس وجہ سے پائی جاتی ہیں کہ بعض باتیں وہ کھل کر کہتے ہیں اور بعض جگہ خاموشی مصلحت کوشی بن جاتی ہے۔ کرنل محمد خان کے مزاح میں جڑواں بچوں سی \"ہم طبعی\" پائی جاتی ہے۔ ان کے منصب اور انکی مزاح نگاری میں خوشگوار تعاون ہے۔ مثال کے طور پر \"شرابی کبابی\"، \"خیالاتِ پریشان\"، \"ضرورت ہے ایک خوشامدی کی\" اور \"ریٹائرمنٹ کا ذائقہ\" پڑھ لیجئے۔ مصنف کے نام کے جز و کل موجود ملیں گے۔ کرنل صاحب اپنی پہلی تین کتابوں (یعنی بجنگ آمد، بسلامت روی اور بزم آرائیاں) کو تو تمام اپنی کتابیں گردانتے تھے اور چوتھی کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ کہانیوں پر مشتمل ہے اس لئے وہ اسے اپنی تخلیق نہیں گردانتے تھے۔ کرنل محمد خان کی چوتھی کتاب \"بدیسی مزاح۔ پاکستانی لباس میں\" ہے جس میں آپ نے انگریزی مزاح پاروں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب 1992ء میں شائع ہوئی۔رسالہ \"اْردو پنچ\" کی ادارتبزم آرائیاں لکھنے کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے دوست احباب سے مشورے کے ساتھ ایک نیا رسالہ بنام \"اْردو پنچ\" کے نام سے نکالنے کی تیاری شروع کردی۔ تمام انتظامی امور اور فراہمی مضامین کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد انہوں نے1981ء میں یہ رسالہ نکالہ جس کا پہلا شمارہ یکم اپریل 1981ء میں نکلا جو حجم کے لحاظ سے کسی کتاب سے کم نہ تھا۔ اْردو پنچ کے اولین اشاعت میں جن لکھاڑیوں کے مضامین شامل ہوئے ان میں شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، ڈاکٹر وزیر آغا، ممتاز مفتی، مشکور حسین یاد،رضیہ فصیح احمد، صدیق سالک، مستنصر حسین تارڑ، مختار زمن، ڈاکٹر انور سدید، پطرس بخاری، بشریٰ رحمن، محمد منشا یاد،کیپٹن اشفاق حسین، ڈاکٹر صفدر محمود، چراغ حسن حسرت، کرنل محمد خان، سید ضمیر جعفری اور منظومات میں سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، رئیس امروہوی، دلاور فگار، مولانا احسن مارہروی، مسٹر دہلوی، قتیل شفائی، تابش دہلوی، انور مسعود، امیر الاسلام ہاشمی، سرفراز شاہد شامل وغیرہ شامل ہیں۔رسالے کی جلد نمبر 15 (57) کرنل محمد خان نے 1995ء میں چھاپی جو شفیق الرحمن نمبر تھا اور یہ اردو پنچ کا آخری نمبر ثابت ہوا۔٭…٭…٭