باجی رائو مستانی کی حقیقت
اسپیشل فیچر
باجی راؤ،مستانی کا واقعہ پیشوائی تاریخ کا ایک سچا واقعہ ہے۔باجی راؤ، مستانی کے بغیر ایک لمحہ نہیں رہتا تھا۔مستانی، پونا میں پیشوا کے محل میں قریب دس سال رہی، وہیں باجی راؤ سے اسے ایک لڑکا بھی ہوا۔نئی تحقیقات کے مطابق مستانی بندیل کھنڈ کے راجا چھترسال کی اولاد تھی۔جب مغل سردار محمد خاں بنگش نے بندیل کھنڈ پر حملہ کرکے اسے قابض کیا تو راجا چھتر سال نے مصیبت کے اس موقعہ پر پیشوا باجی راؤ سے مدد چاہی۔باجی راؤ نے بندیل کھنڈ آکر بنگش سے لڑائی کی اور اسے شکست دی۔بنگش کو بندیل کھنڈچھوڑ کر بھاگنا پڑا۔اس طرح باجی راؤ کی مدد سے راجا چھتر سال کو دوبارہ اپنی گدی ملی۔اس کے عوض راجہ چھترسال نے نہ صرف اپنی ریاست کا ایک حصہ نذر کیا بلکہ اپنی خوبصورت لڑکی مستانی بھی تحفتاً دی۔یہ واقعہ 1730میں وقوع پذیر ہوا۔راجہ چھتر سال کے ایک درباری شاعر لال کوی کی ایک نظم’’چھترپرکاش‘‘سے بھی اس واقعہ کی تصدیق ہوتی ہے۔یہ نظم لال کوی نے راجا کی ایما پر ہی لکھی تھی۔اس لحاظ سے یہ ایک معتبر حوالہ ہے۔شاعر کہتا ہے:’’جب باجی راؤ بندیل کھنڈ سے رخصت ہونے لگا تو اس کے ہمراہ مسلم دوشیزہ مستانی بھی تھی۔‘‘اس واقعہ کے بارے میں مزید شہادت ہمیں بندیل کھنڈ کی تاریخ سے ملتی ہے۔ڈاکٹر بھگوان داس گپتا نے 1958میں ایک کتاب’ ’بندیل کھنڈ کیسری،مہاراجہ چھترسال بندیلہ‘‘کے نام سے شائع کی تھی۔اس کتاب میں راجہ چھتر سال کے خاندان کے بارے میں مستند حوالوں کے ساتھ معلومات درج تھی۔چنانچہ اس کتاب کو ایک معتبر تاریخ کا درجہ حاصل ہے۔اس کتاب میں درج معلومات کے مطابق راجا چھتر سال کا خاندان کافی بڑا تھا۔اس کی کئی رانیاں تھی۔وہ لڑائیوں میں شکست کھانے والے دشمنوں کی لڑکیوں سے شادیاں کرکے ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرتا تھا تاکہ وہ آئندہ دشمنی کے لیے سر نہ اٹھا سکیں۔یہ شادیاں سیاسی نوعیت کی ہوا کرتی تھی۔اس کا مقصد ریاست بندیل کھنڈ کو ایک طاقتور اور خوشحال ریاست بنانا تھا۔راجہ چھتر سال کی ریاستوں کا تعلق ہر مذہب اور ذات سے تھا۔ان میں اعلیٰ ذات کی بھی تھی اور پست ذاتوں کی بھی۔ہندو بھی تھی اور مسلمان بھی۔مسلم رانیوں میں ایک باندہ کے مسلم نواب کی بیٹی بھی تھی۔اس کے بطن سے مستانی پیدا ہوئی تھی۔اس لحاظ سے مستانی راجہ چھتر سال کی جائز اولاد تھی۔لیکن بیشتر معاصر تاریخوں میں اسے ’’ناجائز اولاد‘ ‘بتایا گیا ہے۔لیکن سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ باندہ کے مسلم نواب کی لڑکی(کی اولاد) تھی۔1857میں باندہ کے نواب نے جھانسی کی رانی اور پیشوا نانا صاحب کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف لڑائی کی تھی۔انگریزوں نے انہیں شکست دی اور باندہ کی ریاست پر قبضہ کرلیا۔نواب کو ہٹا کر اور اسے پنشن دے کر اندور بھیج دیا۔نواب اور ن کے وارث ریاست اندور ہی میں رہنے لگے ۔ ریاست ساگر کے صوبیدار کے یہاں سے باندہ کے نواب کے وارثوں کا جو شجرہ ملا ہے اس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ مستانی کے آبا و اجداد باندہ کے نواب تھے اور اسے راجہ چھتر سال نے پیشوا باجی راؤ کو نذر کیا تھا۔اس کی تصدیق جنرل برگس کی تیارکردہ پتریکا سے بھی ہوتی ہے۔پیشوائی کے خاتمہ (1818)کے بعد ستارا کے دربار میں موجود انگریز کپتان جنرل برگس نے اصل اور قدیم دستاویزات کی بنیاد پر پیشوائی دور کے سرداروں کے خاندان کا جو شجرہ ایک پتریکا کی صورت میں تیار کیا تھا اس میں باندہ کے نواب کو بھی ایک سردار بتایا گیا تھا۔اس پتریکا میں مستانی کا بھی ذکر ملتا ہے۔پتریکا میں لکھا ہے:’’راجا چھتر سال نے اپنی ریاست کی سالانہ آمدنی میں سے ساڑھے تینتیس لاکھ اور بندیل کھنڈ کے ہیرے کی کان سے ہونے والی آمدنی کا تیسرا حصہ باجی راؤ کو نذر کیا تھا۔علاوہ ازیں راجا نے اپنی مسلم رانی کے بطن سے ہوئی ناجائز اولاد مستانی بھی باجی راؤ کو نذر کردی تھی۔‘‘مستانی راجا چھترسال کی اولاد تھی۔اور راج گھرانے ہی میں اس کی راجا چھتر سال کے مذہبی اور سماجی عقائد کے مطابق تعلیم و تربیت ہوئی تھی۔وہ نہ طوائف تھی نہ رقاصہ۔وہ ایک راج کنیا تھی۔اس نے اگرچہ ایک ہندو راجا کے یہاں جنم لیا تھا مگر اس نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں کسی کے ساتھ مذہب اور ذات کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ مستانی کے دو بھائیوں کے نام شمشیر خان اور خاں جہاں تھے۔باجی راؤ سے مستانی کو جو لڑکا ہوا اس کا نام شمشیر بہادر تھا۔آج بھی ہمارے یہاں ایسی شادیوں کا رواج ہے کہ شوہر اپنے مذہب پر قائم رہتا ہے اور بیوی اپنے مذہب پر۔اس قسم کی شادیاں سیکولر اور ترقی پسندوں میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں۔مستانی کی شخصیت اور کردار کو سمجھنے کے لیے ہمیں راجا چھترسال کے مذہبی عقائد اور سماجی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے۔٭…٭…٭