سجاد باقر رضوی (خاکہ-حصہ اوّل)
ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں اے غم زدگاںمرگِ مجنوں پہ کڑھو، ماتمِ فرہاد کروپروفیسر سجاد باقر رضوی پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے بے مثال استاد تھے۔ اس کالج کی ایک سو چالیس سالہ تاریخ میں بہت سے استاد اپنے علم و فضل، تحقیق و جستجو، وسعتِ نظر اور جذبۂ خدمتِ زبان و ادب میں انتہائی اونچے مقام پر فائز ہیں۔ ان میں ایک یگانہ اور نادر نام پروفیسر سجاد باقر رضوی کا ہے۔ سجاد باقر رضوی نہ صرف ایک مشفق و مہربان استاد تھے بلکہ وہ ایک حساس شاعر، بلند پایہ محقق، نقاد، مترجم اور دانشور تھے۔ وہ ادب اور معاشرے میں ہر طرف اعلیٰ انسانی رویوں کوکار فرما دیکھنا چاہتے تھے، جس کے لیے وہ عمر بھر زندگی سے لڑتے رہے اور اس ضمن میں ہر وہ کام کیا، جو ان کے امکان میں تھا اور اپنے بعد اپنے شاگردوں کی ایک ایسی کھیپ چھوڑی ،جو ان کے رویوں کو اپنائے ہوئے ہے اور مقدور بھر انہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔میں پروفیسر سجاد باقر رضوی کے نام سے تو پہلے سے واقف تھا بلکہ میں نے ان کی تنقیدی کتابیں ’’مغرب کے تنقیدی اصول ‘‘ اور ’’تہذیب و تخلیق‘‘ بھی پڑھ رکھی تھیں اور میری ذاتی لائبریری میں موجود تھیں اور میں ان کے نام سے خاصا متاثر بھی تھا، مگر مجھے ان کو دیکھنے یا ان سے ملنے کا اتفاق کبھی نہ ہوا تھا۔ میرے ذہن میں ان کے بارے میں یہ تصور تھا کہ وہ تنقید کے آدمی ہیں۔ تنقید پڑھاتے ہیں، مشکل آدمی ہوں گے۔ انتہائی سنجیدہ اور گنجلک گفتگو کرتے ہوں گے اور طالب علم ان سے دور دور بھاگتے ہوں گے۔ ایک دن میرے رفیق ِ کار پروفیسر عمر فیضی جو علیگ ہونے کے ناتے حد سے زیادہ نستعلیق اور وضع دار واقع ہوئے تھے اور جن کے ساتھ میرا دوستانہ تھا، کی زبان سے سجاد باقر رضوی کا نام سنا تو میں چونکا اور جب معلوم ہوا کہ باقر صاحب، فیضی صاحب کے قریبی دوست ہیں، تو میں خوش ہوا اور میں نے دل میں طے کیا کہ ان سے ملنا ضرور ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے سائنس کالج وحدت روڈ لاہور میں آئے قریباً چار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور میں فیضی صاحب کے ایما اور حوصلہ افزائی سے پی ایچ ڈی کرنے کے چکروں میں تھا۔ مجھے باقر صاحب کے نام کی صورت میں امید کی کرن نظر آئی۔میں نے پروفیسر سجاد باقر رضوی کو پہلی مرتبہ 1983ء میں اس وقت دیکھا، جب عمر فیضی مجھے ان کے ساتھ ملاقات اور سفارش کے لیے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لے گئے۔ گلابی جاڑا تھا۔ فیضی صاحب نے انہیں ایک دن پہلے فون کرکے گیارہ بجے ملاقات کا وقت طے کر لیا تھا۔ ہم لوگ وقت ِمقررہ سے پانچ دس منٹ پہلے ہی ان کے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس زمانے میں باقر صاحب کے کمرے میں ڈاکٹر فخر الحق نوری بھی، جو باقر صاحب کے شاگرد ہیں اور اس وقت ڈاکٹر نہ ہوئے تھے، بیٹھا کرتے تھے۔ نوری صاحب نے بتایا کہ باقر صاحب پانچ سات منٹ تک اپنا لیکچر ختم کرکے سیدھے یہیں آئیں گے۔ تھوڑی دیر بعد باقر صاحب تشریف لائے۔ رنگ سانولا، چاندی بال، سوچتی آنکھیں، چھوٹی ٹانگوں پر بڑا دھڑ، دونوں بازو قدرے باہر کو نکلے ہوئے، آسمانی رنگ کے سوٹ میں ملبوس، خراماں خراماں چلتے، جیسے کوئی پہلوان اکھاڑے میں اترتا ہے، کمرے میں داخل ہوئے۔ گہری سانس اندر کھینچی اور پھیپھڑوں پر زور دے کر آواز نکالی۔ آواز میں طنطنہ تھا اور فیضی فیضی کہہ کر بڑے تپاک سے فیضی صاحب سے ملے، معانقہ کیااور مجھ سے بھی مصافحہ کیا۔ شخصیت ہر گز جاذبِ نظر نہ تھی۔ معاً میرے ذہن میں آیا کہ طالب علم تو پروفیسر صاحب سے ہر گز مرعوب نہ ہوں گے۔ یہ عُقدہ بعد میں کھلا کہ طلبہ کیااور طالبات کیا، سب سجاد باقر رضوی کے گرویدہ کیوں تھے اور کیوں ان کو گھیرے رہتے تھے۔ باقر صاحب نے اپنی کرسی پر بیٹھنے کے ساتھ ہی پائپ سلگا لیا، دو تین لمبے لمبے کش لیے اور فیضی صاحب سے استفسارانہ نظروں سے میرے بارے میں پو چھا۔ فیضی صاحب نے میرا مختصر سا تعارف کرایا اور انہیں بتایا کہ یہ بہت محنتی ہیں اور پی ایچ ڈی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس ضمن میں ان کو میری اعانت بھی حاصل ہے اور دو سال سے ہم دونوں کی شامیں قریباً اکٹھی گزرتی ہیں۔ باقر صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’آپ فیضی صاحب کو لے کر آئے ہیں۔ فیضی صاحب میرے پرانے دوست ہیں۔ میں دل و جان سے آپ کی مدد کروں گا۔ آپ فیضی صاحب کے ہمراہ آج شام میرے گھر پر تشریف لائیں۔ اس حوالے سے وہاں باتیں ہوں گی۔‘‘اس کے بعد باقر صاحب نے فیضی صاحب سے اپنے اور ان کے کچھ مشترکہ دوستوں کے بارے میں پوچھا اور وہیں بیٹھے بیٹھے طے کیا کہ کسی دن پروفیسر شہرت بخاری سے ملنے ان کے گھر چلیں گے۔ میں نے عرض کیا ’’میرے پاس گاڑی ہے، اگر آپ پسند فرمائیں تو شہرت بخاری کے یہاں میں آپ لوگوں کو لے چلوں گا‘‘۔ جس پر باقر صاحب نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ میری باقر صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ میں اورینٹل کالج میں بوجھل دل کے ساتھ گیا تھا، لیکن جب واپس آرہا تھا ،تو مطمئن تھا اور مجھے یقین سا آ گیا تھا کہ باقر صاحب میری سرپرستی ضرور کریں گے اور یہ بیل منڈھے چڑھے گی۔(کتاب ’’ اب ڈھونڈ انھیں‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭